دولت مند خاندانوں میں اضافہ

مزمل سہروردی  ہفتہ 19 جون 2021
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

صدر ایوب خان کے اقتدار کو آج بھی مختلف حوالوں سے یاد کیا جاتا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم اس دور کو ایک عظیم دور کے طور پر یاد کرتے ہیں جب کہ کئی ناقدین کی رائے میں ایوب خان کا دور ہی پاکستان کو دولخت کرنے سمیت کئی مسائل کی بنیاد بنا تھا۔بہر حال ہمیں آج بھی ملک میں چلنے والے ٹرکوں پر ایوب خان کی تصاویر نظر آتی ہیں۔

لیکن یہ اس لیے بھی ہیں کہ ٹرک ڈرائیوروں کی اکثریت کا تعلق ایوب خان کے علاقے سے بھی ہے۔ لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ تصاویر ان کی مقبولیت کی عکاس ہیں۔ تا ہم اگر وہ اتنے ہی مقبول ہوتے تو ان کے سیاسی وارثین کو ہر انتخابات میں ایک نئی جماعت کی ٹکٹ نہ لینا پڑتی اور وہ ایوب خان کے نام پر ہی انتخابات میں حصہ لے لیتے۔

تا ہم یہ ایوب خان کے دور کی بات ہے۔ جب ایوب خان کے اقتدار کو دس سال مکمل ہوئے تو ملک بھر میں جشن اصلاحات اور ترقی کے دس سال کا بھر پور جشن منایا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ جشن انھیں راس نہیں آیا اور اس جشن کے بعد ہی ان کے زوال کی داستان شروع ہو گئی اور پھر ہم نے دیکھا کہ ایک چینی کا بحران ایوب خان کو لے بیٹھا۔ بہر حال یہ اسی جشن کے دوران کی بات ہے کہ ایوب خان کے معاشی مشیر اور اس وقت کے چیف اکانومسٹ محبوب الحق نے  اپنی تحقیق میں کہا کہ ملک کی دولت 22خاندانوں کی یرغمال ہو گئی ہے۔

ڈاکٹر محبوب الحق کی یہ رپورٹ ایوب کی ساری کامیابیوں پر ایک چارج شیٹ بن گئی۔ تا ہم ایوب کے بعد بھی ملک میں 22خاندانوں کی اجارہ داری کی بازگشت قائم رہی۔پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس نے ایک نئی تحقیق جاری کی ہے جس کے مطابق ملک میں 22خاندانوں کی اجارہ داری میں خاندانوں کا اضافہ ہو گیا ہے۔ اس نئی تحقیق کے مطابق ملک میں اب31خاندانوں کی اجارہ داری قائم ہو گئی ہے۔ اس طرح اگر دیکھا جائے تو ایوب خان کے بعد اب تک صرف7خاندان کا ہی اضافہ ہوا ہے۔ تحقیق میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں بھی31خاندانوں کی ہی اجارہ داری ہے۔

مجھے اس تحقیق پر مکمل اعتماد نہیں ہے۔میں ذاتی طور پر نہیں سمجھتا کہ پاکستان میں دولت صرف 31خاندانوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ دولت مند خاندانوںکی تعداد شاید زیادہ ہو گی۔ آپ دیکھیں لوگوں نے رئیل اسٹیٹ سے بہت پیسے بنائے ہیں اور دیکھا جائے تو ملک میں رئیل اسٹیٹ کے ٹائیکون کی تعداد بھی کافی ہے۔

یہ سب نئے لوگ ہیں اور ڈاکٹر محبوب الحق کی تحقیق کے وقت تو ان کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ اسی طرح اسٹاک ایکسچینج میں بھی نئے لوگ سامنے آئے ہیں اور انھوں نے بہت پیسے بنائے ہیں۔ ان کا نام اب پاکستان کے امیر ترین لوگوں میں ہوتا ہے۔ اسی طرح دیگر نئے شعبوں میں بھی لوگ آئے ہیں جو نئے امیر لوگوں میں شامل ہوئے ہیں۔ ویسے تو پاکستان  میں گزشتہ کئی دہائیوں میں لوگوں نے غیر قانونی ذرایع سے بھی بہت پیسے بنائے ہیں۔ویسے تو ڈرگ منی بھی پاکستان میں بہت آئی ہے۔ اس لیے کیا واقعی پاکستان کی دولت 33خاندانوں تک محدود ہو گئی ہے۔

یہ درست ہے کہ پاکستان میں دولت اشرافیہ تک محد ود ہو گئی ہے۔ سیاست بھی اشرافیہ تک محدود ہو گئی ہے۔ پاکستان کی سیاست بھی خاندانوں تک محدود ہو گئی ہے۔ عام آدمی کا سیاست اور طاقت میں داخلہ عملی طور پر ممنوع ہو گیا ہے۔تحقیق کو ثابت کرنے کے لیے محقق نے حالیہ چینی بحران کو بھی بطور دلیل استعمال کیا ہے کہ چینی میں بھی چند خاندانوں نے پیسہ بنایا ہے۔ اسی طرح سیمنٹ کی دولت بھی چند خاندانوں تک محدود ہے۔

ویسے اگر دیکھا جائے تو یہ بات کافی حد تک درست بھی ہے۔ کاروباری اور سیاسی خاندان آپس میں ایک ہو گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے کاروباری لوگ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ گئے ہیں۔ یہ لوگ اپنے اپنے کار وباری مفاد اور منافع کے لیے سرکاری پالیسیاں بنواتے ہیں اور دولت کماتے ہیں۔ کیا یہ  حقیقت نہیں مخصوص کاروباری افراد کو نوازنے کے  لیے سرکاری پالیسیاں بنائی جاتی ہیں۔

تحقیق میں یہ بات دلچسپ ہے کہ پاکستان اسٹاک ا یکسچینج میں رجسٹرڈ کاروباری کمپنیاں مشترک ڈائریکٹرز کی وجہ سے باہم منسلک ہیں۔ اس تحقیق کے مطابق ان کمپنیوں میں خود مختار ڈائریکٹرز کی 220 آسامیاں ہیں۔ اس طرح ایک کمپنی کے حصہ میں صرف2خود مختار ڈائریکٹرز آتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں 14فیصد ڈائریکٹرز ایسے ہیں جو دو کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں موجود ہیں۔چھ فیصد تین کمپنیوں میں موجود ہیں۔ جب کہ تین فیصد ایسے بھی ہیں جو تین سے زائد کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز پر موجود ہیں۔

دنیا بھر میں دولت مند لوگوں کے کلب موجود ہیں۔ موجودہ نظام ہی ایسا ہے جس میں امیر کے امیر تر ہونے کے بہترین مواقعے موجود ہیں۔ تا ہم چند مثالیں ایسی بھی سامنے آتی ہیں جہاں غریب اور متوسط لوگ بھی اس امراء کلب میں شامل ہوئے ہیں۔ لیکن امیر کے لیے امیرتر ہونے کے زیادہ مواقعے ہیں۔ یہ رحجان صرف پاکستان میں نہیں ہے بلکہ عالمی سطح پر قائم ہے۔ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کی حکومتیں اپنے اپنے امیر کاروباری افراد کے سامنے کافی حد تک سرنگوں ہو تی ہیں۔ لیکن پھر بھی پاکستان میں یہ شرح بہت زیادہ ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں مسائل بھی زیادہ ہیں۔

پاکستان کا سب سے بڑ امسئلہ یہاں کا غیر شفاف اور آلودہ ٹیکس نظام ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان میں امیر لوگوں کو شک اور منفی نگاہ سے بھی دیکھا جاتا ہے۔ ایک عام رائے بن گئی ہے کہ آپ ٹیکس چوری اور منفی ہتھکنڈوں کے استعمال کے بغیر امیر ہو ہی نہیں سکتے۔ امیر ہونے کے لیے چوری کو لازم و ملزوم سمجھا جانے لگا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔