کورونا ویکسی نیشن اور پاکستان کے ’’نامعلوم افراد‘‘

جن لوگوں کا ڈیٹا حکومت کے پاس موجود ہی نہیں، انہیں ویکسی نیشن نیٹ ورک میں کیسے لایا جائے گا؟


سید کامی شاہ July 30, 2021
کیا ان لوگوں کے وائرس کا کیریئر بننے کا خطرہ اپنی جگہ موجود نہیں؟ (فوٹو: فائل)

یہ بات برسوں پرانی ہے لیکن کل ہی کی لگتی ہے کہ جب پاکستان میں صرف ایک سرکاری ٹی وی چینل ''پی ٹی وی'' ہوا کرتا تھا، جس پر چلنے والا ہر پیغام ملک کے ہر فرد تک پہنچ جاتا تھا؛ خاص کر خاندانی منصوبہ بندی اور بہبودِ آبادی کے حوالے سے چلنے والے پیغامات۔

مگر اب مین اسٹریم میڈیا میں شامل سیکڑوں ٹی وی اور ریڈیو چینلوں سمیت، سوشل میڈیا کے متعدد پلیٹ فارمز دستیاب ہیں۔ لیکن عوام کی اکثریت حکومتی اعلانات کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دیتی ہے۔

آج خبر پھیلانے کے ذرائع تو کثرت سے دستیاب ہیں مگر خبروں کے اس سیلاب میں سچ اور جھوٹ آپس میں غلطاں و پیچاں ہو کر رہ گئے ہیں۔ کسی ایک واٹس ایپ گروپ میں کسی واقعے کی شدت سے مذمت کی جارہی ہوتی ہے تو دوسرے گروپ میں اسی خبر کا کوئی اور پہلو اجاگر کیا جارہا ہوتا ہے۔ خبروں کی اس کثرت نے معاشرے میں بے حسی کی ایک لہر پیدا کردی ہے۔ ہم ایک جگہ کوئی اندوہناک خبر پڑھتے ہیں اور ایک لمحہ رکے بغیر آگے بڑھ جاتے ہیں۔

چند روز قبل ہی پاکستان کے موجودہ وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان کے عوام کو بڑھتی ہوئی آبادی میں کمی کو اپنی قومی ترقیاتی ترجیحات میں شامل کرنا چاہیے تاکہ اہم ترقیاتی شعبوں کے ثمرات حاصل کیے جاسکیں۔

آگے بڑھنے سے پہلے 2017 میں ہونے والی مردم شماری کے اعدادوشمار پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں جس کے مطابق پاکستان کی مجموعی آبادی 20 کروڑ 76 لاکھ 84 ہزار 626 نفوس پر مشتمل ہے۔

اس آبادی میں خواتین کی تعداد 10 کروڑ 13 لاکھ، جبکہ مردوں کی تعداد 10 کروڑ 30 لاکھ بتائی گئی ہے۔

اب اگر شہری اور دیہی آبادی کے اعدادوشمار دیکھے جائیں تو پتا چلتا ہے کہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں 13 کروڑ 23 لاکھ 13 ہزار 789 افراد رہائش پذیر ہیں جبکہ شہروں میں رہنے والوں کی تعداد 7 کروڑ 56 لاکھ 837 ہے۔

سرکاری سطح پر برسوں بعد مردم شماری کرکے جو اعدادوشمار جاری کیے گئے، ان پر بہت سے لوگوں اور سیاسی جماعتوں کے تحفظات ہیں۔ خاص طور پر سندھ کی آبادی سے متعلق جاری سرکاری اعدادوشمار کو ایم کیو ایم نے پہلے دن ہی مسترد کردیا تھا۔ ایم کیو ایم کا مؤقف تھا کہ ان کا ووٹ بینک کم کرنے کےلیے کراچی سمیت سندھ کی آبادی کو کم بتایا گیا ہے۔

سرکاری طور پر جاری اعدادوشمار کے مطابق، سندھ کی حالیہ آبادی 4 کروڑ 78 لاکھ 54 ہزار 510 افراد پر مشتمل ہے۔

دوسری جانب خود وزیراعظم پاکستان عمران خان یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ ملک میں افغان اور بنگلہ دیشی شہریوں سمیت لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن موجود ہیں، جن کے بارے میں حتمی اعدادوشمار کسی ادارے کے پاس نہیں؛ کیونکہ ان لوگوں کے پاس نہ تو شناختی کارڈ ہیں اور نہ کوئی اور شناختی دستاویز۔

ان میں 30 لاکھ سے 35 لاکھ کے قریب افغان، 20 لاکھ سے 25 لاکھ کے قریب بنگلہ دیشی، جبکہ 5 لاکھ کے قریب برمی اور روہنگیا افراد ہیں جن کا کوئی ڈیٹا نادرا سمیت کسی سرکاری ادارے کے پاس نہیں۔ ان سب کے علاوہ، دیگر ممالک کے بھی متعدد شہری پاکستان میں رہ رہے ہیں۔ ان لوگوں کی اکثریت ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں رہائش پذیر ہے۔

پاکستان کی آبادی سے متعلق یہ تمام اعدادوشمار اور اندازے پیش کرنے کا مقصد، قومی سطح پر جاری ''کورونا ویکسی نیشن مہم'' کے حوالے سے اُن لاکھوں افراد کی نشاندہی کرنا ہے جن کی اگرچہ تعداد لاکھوں میں ہے لیکن سرکاری ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اب تک وطنِ عزیز میں رہنے والے ''نامعلوم افراد'' ہی ہیں۔

حکومت کی جانب سے پاکستان کی تمام آبادی کو ویکسی نیٹ کرنے کے اقدامات جاری ہیں اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جو لوگ ویکسی نیشن نہیں کروائیں گے، ان کے فون کی سمز بند کردی جائیں گی۔

مگر یہ سوال اب بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ جن لوگوں کا ڈیٹا حکومت کے پاس موجود ہی نہیں، انہیں ویکسی نیشن نیٹ ورک میں کیسے لایا جائے گا؟

دنیا بھر میں تباہی پھیلانے والے کورونا وائرس کی چوتھی لہر پوری شدت سے جاری ہے اور کراچی سمیت ملک بھر میں کورونا کے مثبت کیسز کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں وہ لوگ جن کا کوئی ڈیٹا سرکار کے پاس سرے سے موجود ہی نہیں، انہیں کس طرح سے ویکسی نیٹ کیا جائے گا؟

غور طلب سوال یہ ہے کہ کیا ان لوگوں کے وائرس کا کیریئر بننے کا خطرہ اپنی جگہ موجود نہیں؟

حکومت کی جانب سے بار بار لاک ڈاؤن، اسمارٹ لاک ڈاؤن اور مائیکرو لاک ڈاؤن کے اقدامات کیے جاتے ہیں؛ بازار، دکانیں، مارکیٹیں، اسکول، کالج اور جامعات (یونیورسٹیز) بند کردی جاتی ہیں؛ بازاروں اور دفاتر کے اوقاتِ کار تبدیل کیے جاتے ہیں؛ اور احتیاطی تدابیر (ایس او پیز) پر عمل درآمد کروایا جاتا ہے۔

لوگ جوق در جوق ویکسین بھی لگوارہے ہیں لیکن پھر بھی کورونا وائرس کی ہلاکت خیزیاں کسی طور پر کم نہیں ہورہیں۔

دوسری جانب چین ہے جہاں سے اس وائرس کا آغاز ہوا۔ چین کی آبادی ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ ہے۔ اس کے باوجود، آج چین میں کورونا وبا پر مکمل قابو پایا جاچکا ہے۔ چین کا شہر ووہان، جہاں ''ناول کورونا وائرس'' سے متاثر ہونے والے پہلے مریض کا انکشاف ہوا تھا، ایک سے ڈیڑھ سال کی تگ و دو کے بعد اب وہاں کورونا کا کوئی کیس رجسٹرڈ نہیں۔

ہمارے حکمران، پاکستان میں کبھی ملائیشین ماڈل تو کبھی چینی ماڈل لانے کی بات تو کرتے ہیں مگر عوام کو درپیش مسائل جوں کے توں ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کورونا کے معاملے میں ہمارے حکمران چین سے کچھ سیکھتے ہیں یا یہ سلسلہ آئندہ بھی ایسے ہی چلتا رہے گا؟

اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی سمجھنے والی ہے کہ کورونا وائرس شناختی کارڈ یا سرکاری دستاویزات دیکھ کر کسی پر حملہ آور نہیں ہوتا، بلکہ یہ کسی بھی فرد کو متاثر کرسکتا ہے... چاہے سرکاری اندراج میں اس کا ریکارڈ ہو یا نہ ہو۔

لہٰذا، ان تمام حقائق کے پیشِ نظر، پاکستان میں برسوں سے رہنے والے ان افراد کو بھی ویکسی نیشن مہم کے دائرے میں لانے کی ضرورت ہے کہ جن کا سرکاری طور پر کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔

اگر جلد از جلد ایسا نہ کیا گیا تو خدشہ ہے کہ کورونا ویکسین سے محروم رہ جانے والے یہ افراد آنے والے وقت میں کسی نئے کورونا ویریئنٹ کا، کورونا وبا کی کسی نئی لہر کےلیے ٹائم بم نہ بن جائیں!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مقبول خبریں