امریکا ڈبلیو ایچ او کا سیاسی آلے کے طور پر استعمال ترک کرے، سی آر آئی کا تبصرہ

 منگل 3 اگست 2021
سابق امریکی حکومت نے ڈبلیو ایچ او سے علیحدگی کا اعلان کردیا تھا۔ (فوٹو: فائل)

سابق امریکی حکومت نے ڈبلیو ایچ او سے علیحدگی کا اعلان کردیا تھا۔ (فوٹو: فائل)

بیجنگ: امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے چند روز قبل عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈاہانوم گیبریسس سے ملاقات کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ امریکا ڈبلیو ایچ او کی جانب سے چین اور دیگر مقامات پر وائرس کے سراغ سے متعلق تحقیقات کی حمایت کرتا ہے۔

عالمگیر وبا کے پھیلاؤ کے بعد امریکا کی عالمی انسداد وبا تعاون سے متعلق سردمہری ڈبلیو ایچ او کے بارے میں اس کے رویے سے نمایاں طور پر جھلک رہی ہے۔ گزشتہ سال مئی میں ایک ایسے وقت میں، جب عالمی سطح پر وبا کے پھیلاؤ کا خطرہ بڑھ چکا تھا ، سابق امریکی حکومت نے ڈبلیو ایچ او سے علیحدگی کا اعلان کردیا۔ موجودہ امریکی حکومت نے برسر اقتدار آنے کے بعد ڈبلیو ایچ او میں واپسی کا اعلان تو کردیا مگر واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ موجودہ انتظامیہ چاہتی ہے کہ اس پلیٹ فارم کو سیاسی جوڑ توڑ کےلیے استعمال کیا جائے اور چین پر الزام تراشی اور چین کو دبانے کےلیے ڈبلیو ایچ او کی آڑ لی جائے۔

مبصرین کے خیال میں امریکا عالمی ادارہ صحت میں اپنے اثر و رسوخ کو دوبارہ قائم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا ہے، جس کا مقصد چین کو ’’وائرس لیبارٹری لیک‘‘ کے شبہ میں نشانہ بنانا ہے۔

حقائق کے تناظر میں چاہے امریکا ڈبلیو ایچ او سے علیحدگی اختیار کرے یا دوبارہ شمولیت اختیار کرے، اس کا مقصد اپنے ذاتی مفاد کی بنیاد پر عالمی ادارہ صحت کا سیاسی آلے کے طور پر استعمال ہے۔ امریکا کی سیاسی چالبازیوں سے نہ صرف انسداد وبا کے عالمی تعاون اور بنی نوع انسان کی مشترکہ فلاح و بہبود کو نقصان پہنچے گا، بلکہ اقوام متحدہ کے ساتھ ساتھ اس کے بنیادی بین الاقوامی نظام پر بھی سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔