شہریوں کی حفاظت کیلیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں

اس وقت ملک میں جاری بدامنی کی کثیر الجہتی ہیئت نے سیکیورٹی معاملات کو گمبھیر بنا دیا ہے۔ سیکیورٹی ادارے...


Editorial January 26, 2014
فوٹو پی پی آئی/فائل

لاہور: اس وقت ملک میں جاری بدامنی کی کثیر الجہتی ہیئت نے سیکیورٹی معاملات کو گمبھیر بنا دیا ہے۔ سیکیورٹی ادارے اور ایجنسیاں اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے بھرپور وسائل استعمال کر رہی ہیں مگر فی الوقت اس کی شدت میں کمی آتی دکھائی نہیں دے رہی۔ کراچی میں ہفتے کو تشدد کی لہر ایک بار پھر شدت اختیار کرگئی۔ پولیس موبائلوں پر دستی بم حملوں اور فائرنگ سے چھ اہلکاروں سمیت سات افراد جاں بحق ہو گئے جب کہ دیگر واقعات میں 16 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جن میں تشدد زدہ ہاتھ پائوں بندھی لاشیں بھی ملی ہیں۔

اس وقت ملک میں مختلف مسلح گروہ سرگرم ہیں جن کے باعث امن و امان کی صورتحال قابو میں نہیں آرہی اور یہ روز بروز بگڑتی جا رہی ہے۔ ایڈیشنل آئی جی کراچی شاہد حیات نے بھی صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے اس مشکل صورت حال کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ بدامنی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے ذمے دار ایک نہیں مختلف گروہ ہیں جن میں سیاسی' مذہبی' منشیات فروش، لینڈ مافیا اور دیگر جرائم پیشہ گروہ شامل ہیں۔ کراچی کے اعلیٰ پولیس افسر نے جس حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے وہ نہایت پریشان کن ہے۔ یہ گروہ ایک دن کی پیداوار نہیں ہیں انھیں ایک طویل عرصے سے سیاسی جماعتوں اور انتظامیہ کی حمایت حاصل رہی ہے۔ وقت کرتا ہے پرورش برسوں' حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔ اب یہ گروہ اس قدر طاقتور ہو چکے کہ حکومت کے لیے درد سر بن چکے ہیں۔ ان کے پاس جدید ہتھیار اور جدید ٹیکنالوجی ہے ، پولیس اپنے روایتی ہتھیاروں کے باعث ان کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔

یہ گروہ آپسی لڑائیوں میں راکٹ لانچر تک کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ ان کے پاس اسلحہ کہاں سے آ رہا ہے اور کون جماعتیں ان کی پشت پناہی کر رہی ہیں جب تک اس بنیادی مسئلہ کا حل نہیں ہو گا' بدامنی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ اگرچہ کراچی میں رینجرز اور پولیس نے بدامنی' قتل و غارت اور بھتہ خوری میں ملوث متعدد ملزمان کو گرفتار کیا اور بڑی تعداد میں اسلحہ برآمد کیا ہے مگر اس کے باوجود سیکیورٹی معاملات ابھی تک قابو میں نہیں آ رہے اور روز قتل و غارت گری کے واقعات رونما ہو رہے جس میں بے گناہ افراد مارے جا رہے ہیں۔ یہ گروہ اس قدر منظم اور دیدہ دلیر ہیں کہ وہ پولیس افسروں اور اہلکاروں کو باقاعدہ نشانہ بنا رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں پولیس افسر چوہدری اسلم جو بدامنی کی روک تھام میں بھرپور طور پر سرگرم تھے' ان کا نشانہ بن گئے۔ اب ہفتے کو پولیس موبائلوں پر دستی بموں سے حملہ کیا گیا۔

ان واقعات سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ جو پولیس افسران اور اہلکار بدامنی پھیلانے والوں کے خلاف نبرد آزما ہیں' انھیں بطور خاص نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ پولیس افسروں اور اہلکاروں میں خوف و ہراس پھیل جائے اور وہ خوف زدہ ہو کر بدامنی پھیلانے والوں کے خلاف کارروائیاں بند کر دیں۔ ایڈیشنل آئی جی کراچی شاہد حیات کا کہنا ہے کہ قانون کو چیلنج کرنے والوں کے حملوں سے پولیس کے حوصلے اور قوت ارادی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا' یونیفارم پہنی ہے ہمارا کام ہی قربانیوں سے ہو کر گزرتا ہے۔ یہ خوش آیند بات ہے کہ بدامنی پھیلانے والوں کے حملوں کے باوجود پولیس افسران پیچھے نہیں ہٹے اور ان کے ہر چیلنج کو قبول کرتے ہوئے ان کے خلاف سینہ سپر ہیں۔ علاوہ ازیں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی خود مختاری اور سلامتی کو جو اندرونی چیلنجز ہیں ان کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا جائے گا تاکہ لوگوں کی جان و مال محفوظ ہوں' جو لوگ حکومت کی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں' ان کو ختم کرنے کا پختہ عزم رکھتے ہیں اور اس کے لیے جو راستہ اختیار کرنا پڑا ضرور کریں گے اور اس کے لیے کسی بھی آپشن سے گریز نہیں کیا جائے گا۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بدامنی پھیلانے والے گروہ خواہ کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں ریاست کی قوت کا مقابلہ نہیں کر سکتے' وہ عارضی طور پر حکومت کے لیے مشکلات تو پیدا کر سکتے ہیں مگر ریاست کو شکست نہیں دے سکتے بشرطیکہ ریاست اپنے تمام وسائل استعمال کرتے ہوئے ان کا قلع قمع کرنے کے لیے پر عزم ہو۔ اگر ریاست ان گروہوں کے سامنے کمزوری دکھائے یا تساہل کا مظاہرہ کرے تو پھر ریاست کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ کراچی میں خواہ کتنے ہی گروہ امن و امان کی صورتحال بگاڑنے میں ملوث کیوں نہ ہوں اگر ریاست خلوص نیت سے ان کے خلاف کارروائی کرتی ہے تو ان گروہوں پر قابو پانا مشکل نہیں۔ بدامنی کی اب تک کی وارداتوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو پولیس اپنی روایتی تربیت کے باعث ان گروہوں پر قابو پانے میں کامیاب ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ پولیس کو جدید انداز میں تربیت دینا ہو گی' اسے جدید ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی سے لیس کرنا ہو گا۔ انٹیلی جنس کا نظام زیادہ موثر بنانے کے لیے گراس روٹ لیول پر عوامی حمایت اور تعاون حاصل کرنا ہو گا۔

لینڈ مافیا اور منشیات فروشوں پر قابو پانے کے لیے محکمہ پولیس میں کرپشن اور بدعنوانی کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ البتہ وہ سیاسی و مذہبی گروہ جو امن و امان کے مسائل پیدا کر رہے ہیں ان پر قابو پانے کے لیے حکومت کو اپنے ذاتی سیاسی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دینا ہو گی۔ بدامنی میں ملوث مذہبی و سیاسی گروہوں کو جب تک حکومتی اور انتظامی آشیر باد حاصل رہے گی تنہا پولیس کے لیے ان پر قابو پانا ممکن نہیں ہے۔ وہ مذہبی و سیاسی گروہ جو امن کے دشمن ہیں اب حکومت اور انتظامیہ کے سامنے چھپے نہیں رہے' حکومت بخوبی ان سے واقف ہے۔ اگر سیاسی مصلحتیں آڑے آتی رہیں تو پھر امن بحال قائم اور حکومتی رٹ بحال کرنا مشکل ہو جائے گا۔بدامنی کے خاتمے کے لیے حکومتی کوششیں ابھی تک بیانات سے آگے نہیں بڑھ سکیں اور حکومت ابھی تک صرف دعوے ہی کر رہی ہے عملی طور پر کوئی بڑے پیمانے پر اس کی کوششیں منظرعام پر نہیں آ رہیں۔ شہریوں کی حفاظت کرنا حکومت کی ذمے داری ہے' اسے اپنی یہ ذمے داری نبھانے کے لیے ہر ممکن ذریعہ بروئے کار لانا ہو گا۔

مقبول خبریں