افغانستان اور عسکریت پسندی کے خدشات

ایمان ملک  پير 23 اگست 2021
افغانستان میں ایغور اور ازبک عسکریت پسندوں کے محفوظ بل ابھی بھی باقی ہیں۔ (فوٹو: فائل)

افغانستان میں ایغور اور ازبک عسکریت پسندوں کے محفوظ بل ابھی بھی باقی ہیں۔ (فوٹو: فائل)

افغان طالبان انتہائی محتاط منصوبہ سازی کے ذریعے دنیا کو حیرانی میں مبتلا کرکے نہایت قلیل وقت میں بالآخر کابل پر قابض ہوچکے ہیں۔ اور اب سماجی میڈیا پر طالبان اور امریکی افواج کے مابین تقابلی جائزے پیش کیے جارہے ہیں کہ پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس، ٹوٹے ہوئے جوتے پہنے طالبان نے جدید سہولیات سے لیس امریکی افواج کو شکست دے دی۔ مگر یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ افغانستان امریکیوں کا ملک نہیں تھا کہ جو وہ اس کےلیے پہاڑوں کی جنگ میں اپنے فوجی جھونک کر وہ ’’قیمت‘‘ ادا کرتے جس کے نتیجے میں امریکا کو افغانستان میں فتح نصیب ہوتی۔

واضح رہے کہ فوجیوں کو لڑنے کےلیے موٹیویشن کی ضرورت ہوتی ہے اور امریکی اور نیٹو افواج میں افغانستان کےلیے جانیں دینے میں بظاہر اور حقیقتاً کوئی موٹیویشن نظر نہیں آتی تھی۔ سنگلاخ پہاڑوں کو شرپسندوں سے کلیئر کروانے کےلیے فوج کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑتا ہے اور متعلقہ عسکری سربراہان کو مضبوط اعصاب کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے فوجیوں کی قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ جیسا کہ پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے آپریشن راہِ راست اور آپریشن المیزان میں (2009 میں) کیا تھا، تب جاکر سوات، مہمند ایجنسی، جنوبی وزیرستان اور وانا کے علاقے کلیئر ہوئے تھے۔

یقین مانیے 2009 کا سال پاکستانی فوج کےلیے بڑا بھاری سال تھا، جس میں پاکستانی فوج کے کثیر تعداد میں نوجوان افسران نے جامِ شہادت نوش کیا اور اپنے جوانوں کےلیے مثال بنے۔ نیز ان کےلیے ایسی ’’مضبوط موٹیویشن‘‘ چھوڑی جس کے ذریعے پاکستان نے بعدازاں نمایاں کامیابیاں سمیٹیں اور دہشت گردوں کی کمر توڑنے میں کامیاب رہا۔

یہاں یہ گوش گزار کرنا نہایت ضروری ہے کہ اس وقت پاکستانی فوج کا اولین مقصد دہشت گردوں سے اپنا علاقہ واپس لینا تھا، چاہے اس کےلیے پاک فوج کا آخری فوجی بھی شہید ہوجاتا۔ واضح رہے کہ اس وقت اگر جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی امریکی فوجی سربراہان کی طرح ڈر جاتے اور یہ قیمت ادا کرنے سے انکار کردیتے، جو سوات کی شہری جنگ، مہمند ایجنسی اور جنوبی وزیرستان کے دشوار گزار پہاڑوں کو کلیئر کروانے کےلیے درکار تھی تو آج کالعدم ٹی ٹی پی بھی پاکستان میں خدانخواستہ قابض ہوچکی ہوتی۔

بہرحال، اب افغانستان کا کنٹرول افغان طالبان کے ہاتھوں میں آچکا ہے۔ بظاہر افغان طالبان عالمی سطح پر تمام صحیح باتیں کہہ رہے ہیں مگر یہ خدشہ بھی زبان زدِ عام ہے کہ افغانستان ایک بار پھر بین الاقوامی عسکریت پسند گروہوں کےلیے محفوظ پناہ گاہ بن کر رہ جائے گا۔ مگر ان خدشات کے عین برعکس، منگل کو اپنی پہلی نیوز کانفرنس میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اعلان کیا کہ وہ افغانستان کو دوسرے ممالک پر حملہ کرنے کےلیے لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ واضح رہے کہ یہ عہد 2020 میں طالبان اور ٹرمپ انتظامیہ کے دستخط شدہ امن معاہدے کا حصہ تھا جوکہ افغانستان سے امریکی انخلا کا پیش خیمہ تھا۔

لہٰذا اب دنیا بہت قریب سے دیکھے گی کہ آیا فاتح افغان طالبان اپنے عہد پر کاربند ہیں کہ نہیں۔ یہاں تشویش طلب دو اہم نکات ہیں۔ اول، کیا طالبان اپنی یقین دہانیوں میں مخلص ہیں؟ دوم کیا یہ ممکن ہے کہ وہ بین الاقوامی دہشت گردوں کو قابو میں رکھ سکیں؟

نائن الیون کے بعد افغانستان پر منڈلانے والے امریکی فوجی کارروائی کے خطرات کے پیش نظر ملا عمر، اسامہ بن لادن کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کے باوجود (ان کی مالی و عسکری امداد جو انہوں نے اپنے غیر ملکی جنگجوؤں کے ذریعے افغانستان کے بیشتر حصے کو طالبان کے کنٹرول میں لانے کے ضمن میں کی) چاہتے تھے کہ ان کا عرب مہمان وہاں سے واپس چلا جائے۔ مگر بالآخر اس نے بن لادن کو روانگی پر مجبور نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ اس فیصلے کے اس وقت کی طالبان حکومت اور افغانستان پر گہرے، طویل مدتی نتائج موصول ہوئے۔ اسی لیے اب یہ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ بیس سال کے تجربات کے پیش نظر، طالبان رہنماؤں کی موجودہ کھیپ زیادہ عملی ہوسکتی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ انہیں اپنے جنگ زدہ ملک کی تعمیر نو کےلیے بین الاقوامی امداد کی ضرورت ہے، جن کے اندرونی اختلافات دوسری صورت میں دائمی عدم استحکام اور انتشار کو یقینی بنائیں گے۔

تاہم اتنے برسوں کے دوران، افغانستان کا ’’عسکریت پسندی کا منظرنامہ‘‘ اور زیادہ پیچیدہ ہوگیا ہے، جو شدت پسندی کے وسیع میدان میں بدلتے ہوئے نمونوں کی عکاسی کرتا ہے۔ المختصر یہ ایک گورڈین گرہ ہے جسے کھولنا ناممکن ہوگا۔ سلامتی کونسل کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، اس وقت القاعدہ کم از کم 15 افغان صوبوں میں موجود ہے۔ ان میں سے کچھ میں، یہ طالبان کے تحفظ کے تحت کام کرتی ہے۔

دریں اثناء، کالعدم ٹی ٹی پی بھی سوات اور قبائلی اضلاع میں فوجی مہمات کے ذریعے پاکستان سے باہر دھکیلے جانے کے بعد افغانستان کے سرحدی علاقوں میں بدنامِ زمانہ بھارتی کونسل خانوں کی آشیرباد کے زیر سایہ محفوظ پناہ گاہوں سے لطف اندوز ہوتی رہی ہے۔ مگر 2020 میں القاعدہ کے زیر نگرانی کئی الگ الگ گروہوں کے یکجا ہونے کے بعد، کالعدم ٹی ٹی پی پاکستان میں بڑھتے ہوئے حملوں میں بھی ملوث ہے۔ سلامتی کونسل کی ایک اور رپورٹ کے مطابق، داعش نے گزشتہ سال کنڑ اور ننگرہار میں طالبان اور افغان اور امریکی افواج کے ہاتھوں مار کھانے کے بعد دوسرے صوبوں میں منتشر ہوکر وہاں سلیپر سیل بنا لیے ہیں۔ اسی لیے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ داعش مشرق وسطیٰ میں تنازعات کے علاقوں سے جنگجوؤں کو اپنی طرف راغب کرسکتا ہے۔ علاوہ ازیں، افغانستان میں ایغور اور ازبک عسکریت پسندوں کے محفوظ بل ابھی بھی باقی ہیں۔

اسی لیے مذکورہ بالا خدشات کے پیش نظر دنیا، اگلی افغان حکومت پر دباؤ برقرار رکھنے کے علاوہ عسکریت پسندی کے مسئلے کو حل کرنے میں بھی اس کی مدد کرے۔ نیز یہ ذہن میں رکھتے ہوئے کہ افغانستان کے سانحے کے تمام بڑے کھلاڑیوں بشمول امریکا اور پاکستان اس ملک میں بڑھتے ہوئے انتہاپسندانہ تشدد سے مستقبل قریب میں پھر متاثر ہوسکتے ہیں، اس لیے اس کا پیشگی تدارک اس مسئلے کے تمام فریقین کے حق میں ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایمان ملک

ایمان ملک

بلاگر نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد پاکستان سے پیس اینڈ کانفلیکٹ اسٹڈیز میں ایم فل ڈگری کی حامل اور دفاعی امور سے متعلق ایک تھنک ٹینک میں بطور ریسرچ ایسوسی ایٹ آفیسر خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ یونیٹار، اوسی، یوسپ، یونیورسٹی آف مرڈوک آسٹریلیا جیسے نامور اداروں سے انسداد دہشت گردی اور سیکیورٹی اسٹڈیز میں متعلقہ کورسز کر رکھے ہیں۔ ان کی مہارت کی فیلڈز میں ڈیفنس اینڈ اسٹرٹیجک اسٹڈیز اور پیس اینڈ کانفلیکٹ اسٹڈیز شامل ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔