گینگ وار سے پہلے

نادر شاہ عادل  جمعرات 30 جنوری 2014

یہ مطالعہ اور تلاطم سے نا آشنا زندگی کے منظم لمحات پر محیط 80ء کا دورانیہ تھا۔ امریکی ماہر تعلیم وہٹنی اے گرزوولڈ کے تعلیمی لیکچرز پر مبنی کتاب کا اردو ترجمہ ’’آزاد تعلیم اور تہذیب نفس‘‘ نظروں کے سامنے تھا۔ رواں اور سحر انگیز ترجمہ سید وقار عظیم نے کیا تھا۔ کتاب کیا تھی گویا امریکی نظام تعلیم کے سر پر ایک ضرب مسلسل تھی۔ مصنف کے درد دل کے ٹیسیں اٹھتی سنائی دیتی تھیں۔ گرز وولڈ کا استدلال تھا کہ امریکی نظام تعلیم اقدار کا مدفن بنتا جا رہا ہے، تعلیمی روایات دم توڑ رہی ہیں اور اسکول، کالج اور جامعات کے نصاب ہائے تدریس عصری حقائق سے نابلد اور طالب علموں کے ذہنوں کو جمود زدہ بنا رہے ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب لیاری میں نوجوان نسل پر کھیلوں کے سنگ ادب و شاعری، فن و ثقافت، علمی تحقیق اور کیریئر ازم کی ایک غیر محسوس لہر سی اٹھتی نظر آتی تھی۔ لیاری میں دادل، شیرو، بیکل اور نبی بخش عرف کالا ناگ کو شریف بدمعاش کا درجہ حاصل تھا۔ ریکسر لائن، کلاکوٹ کی قریبی تنگ و تاریک گلیوں میں علاقے کے اتنے سارے سلطانہ ڈاکو پر امن بقائے باہمی کے ساتھ رہتے تھے۔ اگرچہ سب گرگ ہائے بارہ دیدہ تھے۔

مگر کوئی اس سرخ لکیر کو پار کرنے کی کوشش نہیں کرتا تھا جو ان باہم حریف سماج دشمن عناصر نے از خود کھینچ رکھی تھی۔ حملے اور دفاع کے ہتھیار کیا تھے، ڈنڈے، کرْدم (فولادی لچکیلی راڈ) اور خنجر۔ کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر لیاری میں بھی 80ء کی دہائی کے آخر میں آیا۔ آبادی کے ساتھ ساتھ منشیات اور اسلحہ کا کاروبار بھی فروغ پاتا گیا، یہاں تک کہ قانونی اور لائنسنس یافتہ اسلحہ بھی غیر قانونی ہتھیاروں کی دوڑ میں پیچے رہ گیا۔ لیاری کے ایک بزرگ اکثر کہا کرتے تھے کہ پرانے زمانے کے ڈاکو بھی بدمعاشی اور شرافت کے نازک فرق کا خیال رکھتے اور کسی کی کیا مجال کہ اصلی زیورات سے لدی پھندی شادی بیاہ کی دعوت میں گلی سے رات کے اندھیرے میں گزرنے والی عورتوں یا گروپ آف گرلز کو چھیڑنے یا لوٹنے کی ہمت کرے۔ چرس لیاری کا نیشنل نشہ تھا، لگے دم مٹے غم! مگر چرسی موالی بھی طالب علموں کو اپنے سے دور رہنے کی نصیحت آموز، مشفقانہ اور مروت آمیز تلقین فرماتے۔ فٹ بالر لالو گینڈا بھی اپنے علاقہ کا شیر تھا۔ اس کچھار میں آجکل شیراز کامریڈ کی بادشاہی ہے۔ غفور مجنا لیاری کا گریٹ مگر بد نصیب مڈ فیلڈر تھا۔ قومی فٹ بال کی لڑی میں در نایاب تھا۔ مرتے ہوئے حال دل کسی سے نہ کہہ سکا، بات کرنی اسے مشکل بہت لگی۔ برازیل میں پیدا ہوتا تو اسے عہد ساز کھلاڑی پیلے اپنے پہلو میں بٹھاتا۔ اس کی جھلک شائقین کو کارلوس میں نظر آتی تھی یا پھر ریوالڈو میں۔ اس نے پاکستان کی قومی ٹیم کے دفاعی کھلاڑیوں میں دیوار چین کا لقب پا گیا۔

مرنے کا وقت آیا تو اسے میڈیا، فٹ بال فیڈریشن اور حکومت نے دشت تنہائی میں چھوڑ دیا۔ غفور مجنا اور لیاری کے تمام فٹ بالر غربت و افلاس کی کوکھ سے پیدا ہوئے۔ مشہور تو یہ ہے کہ مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے، جرائم کی نرسری غربت کدے اور خط افلاس سے نیچے کی دنیا ہوا کرتی ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ ماضی کی لیاری نے اس منطق اور اصول کو رد کیا۔ فٹ بالر ’’اماں دانلی‘‘ کی ڈبل روٹی اور دو سیخ کباب سے ناشتہ کیا کرتے۔ دوپہر کو روکھی سوکھی کھا لیتے اور شام کو فائنل میچ کھیل رہے ہوتے۔ قناعت، رواداری، بھائی چارہ اور نمود و نمائش، شہرت و دولت سے بے نیازی لیاری کے کھلاڑیوں کا طرہ امتیاز تھا۔ گلیمر سے دور، زمانہ پرنٹ میڈیا کا تھا۔ ٹی وی کے idiot box سے آلودہ نہیں ہوئے۔ ان کی بولیاں نہیں لگ سکیں۔ ان کی بے داغ کمٹمنٹ صرف فٹ بال سے تھی اور فٹ بال کی پاکستانی دنیا بھی ان کے بے منزل سفر اور گردش دوراں کے طفیل گول تھی۔ یک جہتی کا عالم دیکھئے کوئٹہ کا قیوم چنگیزی بھی لیاری والوں کا دوست نکلا۔ پیر بخش، اﷲ بخش، کوہاٹی، کنڈیکر اور حاجی احمد خان نہ ہوتے تو فٹ بال کی انتظامی دنیا کب کی تباہ و بردباد ہو چکی ہوتی۔ لیکن یہ سارے معتبر نام بدنام کیے گئے۔ فٹ بال کو محسن کش اور احسان فراموش طبقے نے بلڈوز کیا۔

یہ قبیلہ خود فٹ بال فیڈریشن اور سائیکل کی دکانوں میں قائم ہونے والی ایسوسی ایشنوں کے بطن سے اٹھا۔ پھر سیاست، علاقائیت، اقربہ پروری، دوست نوازی، کوٹہ سسٹم اور صوبائی پرچیوں نے فٹبال کا جنازہ نکال دیا۔ اب فٹ بال لیاری ہی نہیں پورے ملک سے تتلی کی طرح اڑ گئی جس کے انوکھے اور جھلملاتے رنگ شائقین فٹ بال کو اب ٹی وی چینلز میں عالمی فٹ بال کپ یا سپین، اٹلی، یورپین اور انگلینڈ کے سنسنی خیز لیگ میچز میں نظر آتے ہیں۔ گینگ وار نے فٹ بال کا آشیانہ جلا ڈالا۔ باکسر در بدر ہو گئے۔ سائیکلسٹوں اور جمناسٹوں پر درواے بند ہو گئے۔ گدھا گاڑی ریس دم توڑ چکی۔ کون ایک لاکھ کے دلربا اور اسمارٹ گدھے پر گینگ وار کارندے کو جیت کی رقم سے بھتہ دے۔ یوں ریورس سوئنگ والی صورتحال ہوئی ۔2000ء میں لیاری کے اکلوتے وار لارڈ بابو اقبال ڈکیت کی موت  کے بعد گینگ وار کا عذاب نازل ہوا۔ بابو گریجویٹ قاری تھا۔ بجائے لیاری کے کھلاڑی آسمان کے چمکتے ہوئے ستارے کہلاتے، بلیک ڈائمنڈز تو پہلے سے تھے۔ نصیب دشمنان خاک بسر ہو گئے۔ ان کا خون بھی رزق خاک ہو رہا ہے۔

جبار اور مولا بخش کو ترکی کی قومی فٹ بال ٹیم 70ء کی دہائی میں اپنے ساتھ انقرہ لے گئی۔ مگر دونوں جلد ہی واپس پلٹے۔ مولابخش نے پیشہ ورانہ پسپائی پر کیا خوبصورت تبصرہ پیش کیا۔ کہنے لگے ترکی کے فٹ بالرز کے درمیان کھیلتے ہوئے ایسا لگا کہ ہم موم کے بنے ہوئے ہیں۔ ان کا سٹیمنا خدا کی پناہ۔ ڈسپلن ملاحظہ ہو۔ ایک نوجوان فٹ بالر اسکول سے گھر آتے ہوئے سپر سینما کے سامنے رکتا ہے، دیو قامت فلمی پوسٹرز اور بینروں پر نظر جمائے ہوئے تھا کہ اچانک علاقہ کے سیفی اسپورٹس فٹ بال کلب  کے عمر رسیدہ عہدیدار مولا بخش نے اسے دیکھ لیا۔ کلب کی میٹنگ میں اس کے خلاف چارج شیٹ پیش کی گئی کہ ’’کپتان سے پوچھا جائے کہ وہ کل دوپہر کو سینما گھر کے سامنے کیوں کھڑے تھے؟‘‘ اس نوجوان طالب علم اور فٹ بالرکی معطلی عمل میں آئی اور ابراہیم لاسی کو قائم مقام کپتان بنایا گیا، پھر مولا بخش گوٹائی کو یہ اعزاز ملا جو بعد میں علی نواز، جبار، غفار، غلام عباس، عبداﷲ راہی، روشو، داد محمد عرف استاد ددو، حسین کلر، مولابخش مومن، تاج محمد تاجی، سرور، قادر بخش پتلا، غفور مجنا اور ان گنت فٹ بالرز کے ساتھ انٹرنیشنل فٹ بال کے افق پر نمودار ہوئے۔

گل محمد لائن کی جو گلی آجکل گینگ وار کی آگ میں جل رہی ہے، اس میں محمد عمر جیسے عظیم فٹبالر نے جنم لیا وہ تقسیم ہند سے قبل کلکتہ محمڈن کے اسٹرائیکر تھے۔ بھارت کے وزیر اعظم پنڈت نہرو اور دلیپ کمار کے اس اصرار کے باوجود کہ وہ بھارت چھوڑ کر نہ جائیں عمر پاکستان آئے اور واٹر بورڈ میں ملازم ہوئے۔ لیاری نے پھر کبھی علی نواز، گوٹائی اور عمر جیسا فٹ بالر پیدا نہیں کیا۔ اب تو گینگ وار کے شعلوں میں اہالیان لیاری کے سارے خواب جل گئے۔ اب بچا کیا ہے۔ لیکن ماضی کی طرف چلیے۔ اسی عرصے میں ن م دانش، صبا دشتیاری، لطیف بلوچ، تاج محمد تاج، ضیا اعوان، اسماعیل بروہی، عارف بارکزئی جیسے اہل نظر لیاری سے نکل کر کراچی اور بعد میں خلیج اور دیار غیر میں جا بسے۔ لیاری کے سیاسی پس منظر اور جمہوری تحریکوں میں شمولیت یا اس کی ابتدا پر تو ایک دبستان اور طلسم ہوشربا کو دہرانے کی ضرورت پڑیگی۔ اس وقت تو یاداشتوں کی زنجیر میں فٹ بالرز اور گینگ وار کا تذکرہ محض زیب داستاں کے طور پر ہو رہا ہے، یہی وہ فرق ہے جس نے لیاری سے امن کا ورثہ چرا کر اسے کئی مسلح گروپوں کی لڑائی کا وہ مصنوعی کھلونا تھما دیا جو آج آوان گولوں، دستی بموں اور جدید ہتھیاروں کا شو ڈاؤن ہے۔

لوگ سوال کرتے ہیں کہ گینگ وار کیوں شروع ہوئی اور کیسے؟ اس کا مختصر جواب میڈیا کے پاس بھی نہیں۔ کیونکہ گینگ وار کی بدولت لیاری کے بارے میں یک طرفہ میڈیا وار جو شروع ہوئی۔ حقیقت یہ ہو سکتی ہے کہ لیاری نے چونکہ فٹبال، ادب، ماہی گیری، بلوچی لیوا، بلیک ویڈیو کلچر، فنون، سماجی کاموں اور انسان دوستی کے انمول نمونے پیش کیے، بدترین فسادات اور بدامنی میں بھی لیاری امن کا گہوارہ تھا۔ اسٹیبلشمنٹ نے امن کے اس گہوارے میں نئی نسل کو کھلونا بموں کے طور پر استعمال کیا، چنانچہ گینگ وار دراصل لیاری کے نوجوانوں کا پی پی کی حکومت اور بے چہرہ اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے یہ پیغام ہے کہ اب تک کے سارے ہمارے اچھے کاموں پر مٹی ڈال دی گئی۔ قتل و غارت کی شرمناک تاریخ لکھی گئی۔ رہ گئی اب اسلحہ کی بازیگری تو آؤ لاشوںکی سیاست کا تماشا دیکھو۔ ان لیاری اسٹائل۔ اس میں بھی لیاری کے سوختہ جان ایک منفرد قیامت ڈھا رہے ہیں جسے گینگ وار کا افسانوی نام دیا گیا۔ کیا بابا لاڈلا، عذیر، استاد تاجو اور شیراز کامریڈ سے مذاکرات ہونے چاہئیں؟ ملین ڈالر سوال ہے یارو!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔