جنرل اسمبلی سے عمران خان اور طالبان کا متوقع خطاب

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 24 ستمبر 2021
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

وزیر اعظم جناب عمران خان آج 24ستمبر 2021کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی (UNGA) سے، ہماری توقعات کے مطابق، بھرپور اور دل موہ لینے والا خطاب کریں گے ۔ ایک دن کے بعد، 25ستمبر کو،بھارتی وزیر اعظم یو این جی اے سے اپنی استطاعت کے مطابق خطاب کریں گے۔

ہر سال ستمبر کے آخری دو ہفتوں کے دوران دُنیا کے کئی سربراہانِ ریاست اور وزرائے اعظم یو این جی اے کے اجلاس سے خطاب کرتے ہیں ۔ ہم پاکستانیوں کی زیادہ تر دلچسپی یہ ہوتی ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم (یا صدر) کا جنرل اسمبلی سے خطاب کس قدر زور دار ہوتا ہے ؟ کن موضوعات کا احاطہ کرتا ہے ؟ اور یہ کہ ہمارے منتخب حکمران کو یو این جی اے میں کتنی پذیرائی ملتی ہے؟

ہمیں یہ بھی انتظار رہتا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم کا خطاب کن کن موضوعات کو محیط ہوتا ہے ؟ اور یہ کہ بھارتی وزیر اعظم کا خطاب، کوالٹی اور کنٹینٹ کے اعتبار سے، کہیں ہمارے وزیر اعظم سے بہتر تو نہیں تھا؟ یو این جی اے سے پاکستانی اور بھارتی وزرائے اعظم کے خطاب کی بنیاد پر کئی روز تک ہمارے اخبارات اور ٹی ویوں پر خاصا رونق میلہ سجا رہتا ہے۔

یو این جی اے کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرنے کے لیے جناب عمران خان بنفسِ نفیس نیویارک نہیں گئے۔خانصاحب ویڈیو لنک کے ذریعے اس بین الاقوامی ادارے اور شخصیات سے مخاطب ہوں گے ۔توقع یہی ہے کہ اُن کا خطاب ، پچھلے دو برسوں کی طرح، مسئلہ کشمیر کو سلجھانے کی بھرپور کوشش بھی ہوگا اور وہ عالمِ اسلام کو درپیش کئی مسائل کے حل کے لیے اپنے اسلوب میں، فی البدیہہ، دُنیا بھر کے سُننے والوں کو اپنی طرف متوجہ کریں گے ۔ اِس بار مگر توقع یہ ہے کہ اُن کے خطاب میں افغانستان کا بحران زیادہ جگہ پائے گا۔

واقعہ یہ ہے کہ افغانستان کا بحران اور طالبان کی نئی حکومت( جسے ابھی تک کسی ایک ملک نے بھی تسلیم نہیں کیا ہے) یو این جی اے سے مخاطب دُنیا کے ہر حکمران کی گفتگو میں مرکزکی حیثیت رکھتا ہے ۔ جناب عمران خان اگر خود یو این جی اے کے اجلاس میں شرکت کرنے نیویارک جاتے تو زیادہ مناسب ہوتا کہ یو این او کی راہداریوں اور سائیڈلائنز پر دُنیا کے کئی حکمرانوں سے، حسبِ سابق، ملاقاتیں ہوتیں اور وہ بہتر طریقے سے مسئلہ کشمیر، بھارتی کارستانیوںاور افغانستان کے مسائل و مصائب سے، براہِ راست، بین الاقوامی شخصیات کو آگاہ کر سکتے تھے۔

اب خان صاحب ویڈیو لنک پر ہی اکتفا کریں گے۔ اس کے باوصف ہمیں اُمید ہے کہ عالمی فورم پر اُن کی باتیں بغور سُنی جائیں گی۔ جناب عمران خان ایسے نازک موقع پر یو این جی اے سے خطاب کررہے ہیں جب ملک کے اندر اور ملک سے باہر انھیں دوستوں اور خیر خواہوں کی کمی کا سامنا ہے۔جب افغانستان میں کامل قیامِ امن کے لیے پاکستان کی کوششوں کے باوجود  امریکی قیادت میں پاکستان سے ناراضیوں کا اظہار کیا جارہا ہے۔ جب نیوزی لینڈ اور برطانیہ نے حال ہی میں کرکٹ کے نام پر پاکستان کی توہین کرنے کی عالمی سازش کی ہے۔

جب امریکی صدر ، جو بائیڈن، نے ابھی تک بوجوہ ہمارے وزیر اعظم کو فون نہیں کیا ہے ۔ جب چند دن پہلے ہی نیویارک میں ’’سارک‘‘ ممالک کا اجلاس منسوخ کر دیا گیا ہے۔ جب یو این جی اے سے وزیر اعظم عمران خان کے خطاب سے ایک ہفتہ قبل نیویارک گئے خان صاحب حکومت کے ایک نمایاں رکن نے مبینہ طور پر نیویارک کے قلب، مین ہیٹن، میں چلتے پھرتے ہُوئے ایک ایسا ویڈیو پیغام جاری کیا جسے پاکستان میں پسند نہیں کیا گیا۔ عمران خان کے برعکس بھارتی وزیر اعظم خود امریکا پہنچے ہیں۔ وہ کل یو این جی اے سے خطاب سے قبل ، واشنگٹن میں، براہِ راست امریکی صدر سے بھی ملے ہیں اور آج QUADکے ارکان( آسٹریلیا اور جاپان کے وزرائے اعظم) سے بھی مل رہے ہیں ۔ اس ملاقات سے قبل امریکی صدر دو تین بار مودی سے فون پر بھی بات چیت کر چکے ہیں ۔

چونکہ بھارتی وزیر اعظم، نریندر مودی، ہمارے وزیر اعظم صاحب کے خطاب کے ایک دن بعد اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے والے ہیں، اس لیے امریکا میںمقیم پاکستانی ، کشمیری اور سکھ کمیونٹی نے بھرپور احتجاج کرنے کا پروگرام بھی بنا رکھا ہے۔ یہ احتجاج یو این او کی عمارت کے سامنے کیا جائے گا۔

نیویارک میں مودی کے خلاف اس بلند آہنگ احتجاج کے باوجود بھارتی وزیر اعظم یو این جی اے میں ، حسبِ سابق، پاکستان کے خلاف لب کشائی سے باز نہیں آئیں گے ۔ بھارتی حکومت کو اس بات کی سخت تکلیف ہو رہی ہے کہ یو این جی اے کے اس سالانہ عالمی سربراہی میلے کے عین موقع پر حکومتِ پاکستان نے پاکستان کے خلاف بھارتی شیطانیوں اور سازشوں کا بھانڈا یوں پھوڑ ڈالا ہے کہ دُنیا کے سامنے سارے ثبوتوں کے ساتھ ڈوزیئر پیش کر دیا گیا ہے ۔ یو این جی اے کے پلیٹ فارم پر آج اور کل ، دراصل، پاکستان و بھارت کی سفارتی جنگ ہوگی ۔

یو این جی اے کے حکام اور انتظامیہ کے لیے ایک بڑا مسئلہ یوں پیدا ہو گیا ہے کہ اِس بار نئے اور تبدیل شدہ افغانستان کی یو این جی اے میں نمایندگی کون کرے گا؟ کیا اقوامِ متحدہ میں سابقہ افغان حکومت کا متعین کردہ مستقل مندوب ( اسحق زئی)کو شرکت کرنے کی اجازت ہوگی؟ طالبان حکام مگر خود یو این جی اے کے اجلاس میں شریک ہونا چاہتے ہیں۔

اِس ضمن میں اماراتِ اسلامیہ افغانستان کے وزیر خارجہ، امیر خان متقی، کے دستخطوں سے دو چٹھیاں یو این او کے سیکریٹری جنرل کو لکھی گئی ہیں۔ ان خطوط میں افغان وزارتِ خارجہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اقوامِ متحدہ میں اسحق زئی اب افغانستان اماراتِ اسلامیہ کے سفیر نہیں رہے اور اب اُن کی جگہ محمد سہیل شاہین اقوامِ متحدہ میں افغانستان کے مستقل مندوب ہوں گے، وہی یو این جی اے کے اجلاس میں خطاب بھی کریں گے اور اپنے وفد کے ساتھ شریک بھی ہوں گے۔

ان خطوط نے اقوامِ متحدہ کی انتظامیہ کو پسوڑی ڈال رکھی ہے۔ انھیں سمجھ نہیں آ رہا کہ طالبان کی حکومت کو ابھی کسی نے تسلیم ہی نہیں کیا تو محمد سہیل شاہین اور اُن کے وفد کو کیسے یو این جی اے میں شریک ہونے کی اجازت دی جائے ؟ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ ممکن ہے27ستمبر تک محمد سہیل شاہین کو یو این جی اے سے خطاب کرنے کی اجازت مل جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔