مادر ملت (دوسرا اور آخری حصہ)

انجینئر مسعود اصغر  جمعـء 24 ستمبر 2021

قائداعظم نے فاطمہ جناح کی قومی جدوجہد میں خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’’ میں آج ایسے واقعات کا انکشاف کرتا ہوں جو غالبا آپ نہیں جانتے ایک وقت ایسا آیا تھا کہ ہمیں ایک عظیم انقلاب کا سامنا تھا ہم گولیوں کی بوچھاڑ میں تھے حتی کہ موت کے مقابلے کے لیے آمادہ اور تیار تھے۔ اس نازک دور میں میری بہن نے ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالا۔ میرے شانہ بشانہ وہی انتہائی معتمد رہی اور مجھے سنبھالے رکھا۔‘‘

(قائداعظمؒ کے مذکورہ بالا جملوں کے پس منظر میں قائداعظم اور لارڈ ولگنڈن کے اس معرکہ آرا جھگڑے کی طرف اشارہ ہے جو بمبئی میں قائداعظمؒ اور لارڈ ولنگڈن کے درمیان ہوا اس معرکہ کی یاد میں بمبئی میں جناح میموریل ہال تعمیر کیا گیا۔) آپ نے کبھی رہبری اور رہنمائی جتانے کی کوشش نہیں کی بلکہ ایک عام کارکن کی حیثیت میں کام کیے۔

بقول فاطمہ جناح ’’میں نے قائداعظم کی قیادت میں پاکستان کے لیے ایک سپاہی کی طرح دوسرے مسلمانوں کے دوش بدوش کام کیے۔ تحریک پاکستان کے دوران قائداعظم مجھے ہر جگہ اپنے ساتھ رکھتے انھوں نے مجھے کوئی سیاسی عہدہ نہیں دیا ، انھوں نے اپنے لیے یا اپنی بہن کے لیے پاکستان نہیں بنایا تھا بلکہ پوری قوم کے لیے بنایا تھا۔‘‘

المختصر یہ کہ اگر فاطمہ جناح قائداعظم کی رفیق کار نہ ہوتیں تو شاید قائد اعظم بہت پہلے خراب صحت اور تحریک پاکستان کی ہنگامہ خیز سیاسی جنگ کے کٹھن مراحل میں ہی چل بسے ہوتے اور پاکستان کا خواب خواب ہی رہتا ، جس کا اعتراف قائداعظم نے جا بجا کیا کہ ’’ میری بہن فاطمہ نے طویل مدت تک میری خدمت کرکے اور مسلم خواتین کو بیدار کر کے مجھ پر ایک بڑا احسان کیا ہے جس کا میں بدلہ نہیں دے سکتا، وہ کئی کئی دن اور راتیں جاگ کر گزار دیتی تھیں اور دن رات پورے انہماک سے میری تیمارداری کرتیں۔‘‘ نرس کا کہنا تھا کہ ’’محترمہ فاطمہ جناح ان کی دیکھ بھال کرتی تھیں وہ دن رات کے چوبیس گھنٹے ان کا خیال رکھتی تھیں۔

قائداعظم کا کھانا وہ اپنی نگرانی میں پکواتیں اور خود اپنے سامنے کھلاتیں۔‘‘ کراچی کلب کے ایک استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے اپنی بہن کی جانثاری اور پرخلوص خدمت کے متعلق فرمایا کہ ’’ تفکرات ، پریشانیوں اور سخت محنت کے زمانے میں جب میں گھر آتا تو میری بہن روشنی اور امید کی تیز شعاع کی صورت میں میرا خیر مقدم کرتی تھی اگر میری بہن نہ ہوتی تو میرے تفکرات کہیں زیادہ ہوتے میری صحت کہیں زیادہ خراب ہوتی اس نے لا پروائی سے کام نہیں لیا اور کبھی شکایت نہیں کی۔‘‘ پر پھر بھی بھائی کی بیماری نے فاطمہ کو ازحد پریشان کر دیا تھا ، راتوں کی نیند ان کی اڑ گئی تھی اور وہ ان کی جان بچانے کی سر توڑ کوشش کررہی تھیں ، جن کے بغیر ان کی زندگی کا تصور بالکل بے معنی تھا۔

وہ تیمار داری کے ساتھ بھائی کے روزمرہ کے تمام امور بھی دیکھ رہی تھیں۔ بقول فاطمہ جناح قائداعظمؒ نے مجھ سے اگست 1948ء کے خاتمے پر کہا کہ ’’ فاطی ! مجھے زیادہ دلچسپی نہیں رہی… زندہ رہوں … جتنا جلدی ہوسکے… میں رخصت ہوجاؤں ‘‘ اس کڑے وقت میں بھی آپ کی بہن آپ کی دلجوئی اور حوصلہ افزائی کرتیں کہ آپ جلد صحت یاب ہوجائیں گے اور جب قائد کا وقت آخر آیا تو سر کے اشارے سے بہن کو پاس بلایا اور یہ سرگوشی کرتے ہوئے رضا الہی سے جان دے دی کہ ’’ فاطی ! خدا حافظ…لاالہ اللہ…محمد…رسول… اللہ ‘‘ تو آپ بہت پریشان ہوکر بھاگتی ہوئی ڈاکٹر کے پاس دوڑی ’’میرا بھائی رخصت ہورہا ہے ، ڈاکٹر پہنچ گئے مگر وہ بے بس تھے۔

ڈاکٹر کرنل الہی بخش لکھتے ہیں۔ ’’ہم نے اشارے سے جب محترمہ فاطمہ جناح کو اس کی اطلاع دی تو غم سے ان کی حالت بہت غیر تھی ہم نے انھیں تھام کر دوسرے کمرے میں کرسی پر بٹھایا ، ان کی حالت دیکھی نہیں جاسکتی تھی۔‘‘ بھائی کی موت کے بعد آپ نے سیاہ لباس پہن لیا اور تقریبا سال بھر سوگ منایا، نجی اور سرکاری تقریبات میں شرکت نہ کی۔ آپ کی ابتدائی تربیت محمد علی جناح کی سرپرستی میں ہوئی۔ فاطمہ جناح کی فکری اور نظریاتی تعلیم کا منبع خود قائداعظم کی ذات تھی اور یہ ان کی تربیت کا فیض تھا کہ فاطمہ جناح سیاسی سوجھ بوجھ ، معاملہ فہمی اور دور اندیشی جیسی خوبیوں سے بہرا مند ہوئیں۔

1929سے1947 کے دور کی تصویر کشی محترمہ کچھ اس طرح کرتی ہیں۔ ’’1935 میںہم ہندوستان واپس چلے آئے مسلمان کانگریس سے برگشتہ ہوچکے تھے ، مسلم لیگ ابھی مضبوط نہ ہوئی تھی۔ قوم کو قائداعظم پر اعتماد تھا اس لیے اس نے ان کے ہاتھ میں اپنے مستقبل کی باگ دوڑ سونپ دی۔ قائداعظمؒ نے یہ عظیم ذمے داری اپنے سر لے لی اور وہ مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوگئے۔‘‘ یہی وہ دور تھا جب محترمہ فاطمہ نے بھی مسلمانان ہند کی سیاسی جدوجہد میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ اس زمانے میں موجودہ دور کی طرح سیاست کوئی پیشہ نہیں تھی بلکہ رہنما صرف آزادی حق کے لیے اپنی کوششوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے۔ آپ نے جدوجہد آزادی کو اور زیادہ فعال بنانے کے لیے کل ہند دورے کیے اور بے شمار خواتین کمیٹیاں تشکیل دیں۔

آپ نے خواتین مسلم لیگ کے ہزاروں اجتماعات سے خطاب کیا۔ اگست1942 میں کوئٹہ کے مقام پر خواتین کو تلقین کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا ’’ اب تک ہم مسلم خواتین نے اپنی قوم کی خاص طور پر مدد نہیں کی ہے حالانکہ ہم لوگ بھی اگر چاہتے تو بہت کچھ کام کا حصہ بٹا سکتے ہیں۔ اس وقت ہماری ضرورتیں چار ہیں یعنی اقتصادی ، معاشرتی، تعلیمی اور سیاسی ہم کو چاہیے کہ ہم میں سے ہر ایک جس سے جتنا ہوسکے، اپنی قوت اور اپنی حیثیت کے مطابق اپنے خاندان ، اپنے ہمسایہ، اپنے دوستوں اور عزیزوں میں عملی قوت کی روح پھونک کر اس میں قومیت کا جذبہ پیدا کرے، اس طرح ہم اپنی قوم کی کچھ مدد کرسکتے ہیں۔‘‘ آپ کے یہ فرمودات مسلم خواتین کی رہبری و رہنمائی کے لیے بہترین سرمایہ ہیں۔

قائداعظم کی وفات کے بعد مادرِملت نے کسی عہدے یا لالچ کے بغیر اپنی مخلصانہ کوشش تعمیر وطن کے لیے جاری رکھیں۔ 27 ستمبر1948 کو ریڈیو کراچی سے خطاب کرتے ہوئے محترمہ فاطمہ جناح نے قوم سے وعدہ کیا کہ جس طرح قائد کی زندگی میں ، میں قوم کی خدمت کرتی رہی ہوں ، اسی طرح ان کے انتقال کے بعد بھی پاکستان کی تعمیر کے لیے جو ان کا دلی مقصد تھا اپنی خدمات جاری رکھوں گی۔‘‘ آپ اس مقصد عزیز کو لے کر میدان عمل میں نکلیں اور ملک و ملت کی رہنمائی کے لیے قومی تہواروں پر قوم کو اپنے قائدانہ اقوال سے روشناس کراتیں۔

سیاسی قائدین مختلف قومی امور میں ان سے صلاح مشورے کرتے رہتے وہ ملکی سیاسی حالات پر کڑی نظر رکھتیں اور جہاں ضروری سمجھتیں کہ ملت کے خلاف سازش ہورہی ہے تو ملک کی بڑی بڑی شخصیت ان کی تنقید سے بچ نہ پاتے چاہے دورِ اقتدار کسی کا بھی ہو فاطمہ جناح ہر دور اور ہر عہد میں عوام کی رہنمائی پوری صاف گوئی اور اخلاقی جرات سے اپنی وفات تک کرتی رہیں۔ آپ کی شخصیت دوسروں کے لیے مشعل راہ تھی انھوں نے قیام پاکستان سے قبل اور اس کے بعد گرانقدر خدمات انجام دی وہ زندگی بھر اپنے اصولوں پر قائم رہیں اور آپ کی عظمت کا راز بھی آپ کی اصول پسندی میں مضمر تھا۔ انھوں نے عوام کے دلوں میںصبر و ہمت ، عزم و استقلال اور حب الوطنی کی شمعیں روشن کیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔