دوا سے دعا کا رشتہ

شہلا اعجاز  جمعـء 11 مارچ 2022
فوٹوفائل

فوٹوفائل

آپ آئے فروری کی چھ تاریخ کو پھر اس تاریخ کو اور پھر اس تاریخ کو۔ ڈاکٹر صاحب نے اس طرح چار تاریخیں گنوا دیں۔ مریض اثبات میں سر ہلاتا رہا ، پھر ڈاکٹر صاحب نے ان کے تشخیصی کارڈ پر سے نظریں اٹھائیں اور اپنے چشمے کی اور سے بغور مریض کو گھورتے ہوئے بولے۔ آپ کو کوئی فائدہ محسوس ہوا؟ مریض نے نہایت بے چارگی و بے بسی سے جواب دیا۔

نہیں، ڈاکٹر صاحب۔ ہوں۔۔۔۔ڈاکٹر صاحب نے ایک سرد آہ بھری اور کہنے لگے۔ دیکھیے! دو باتیں ہو سکتی ہیں کہ اگر آپ جواب دیتے کہ جی ڈاکٹر صاحب مجھے فائدہ ہوا ہے، چاہے تھوڑا سا بھی ہوتا تو یقین جانیے اس میں میرا کوئی کمال نہ ہوتا۔ گمان گزرا کہ اب ان کے منہ سے ادا ہوگا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی ہے، وہی شفا دینے والے ہیں لیکن ایسا نہ ہوا، انھوں نے اپنی دوسری والی بات شروع کی اور اگر آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ کو بالکل بھی فائدہ نہیں ہوا تو یقین جانیے اس میں بھی میرا کوئی قصور نہیں۔ حیرت سے منہ ذرا کھلا ، اچھا ذرا اپنا کان دکھائیے۔

انھوں نے اپنے ماتھے پر لگی لائٹ روشن کی اور ایک سلائی ان کے کان میں چلائی، تکلیف سے اس ادھیڑ عمر شخص کے ماتھے پر لکیریں بن گئیں پھر انھوں نے کان کا بغور معائنہ کیا اور اب کی بار ان کی رائے خاصی دلچسپ تھی۔ بظاہر تو آپ کا کان بالکل ٹھیک نظر آ رہا ہے، لیکن ڈاکٹر صاحب شور سے میرے اس کان میں بڑا درد سا ہوتا ہے، مجھے یوں محسوس ہوتا ہے، ایسا لگتا ہے۔۔۔۔۔ڈاکٹر صاحب سنتے رہے پھر نسخہ لکھتے بولے۔ ’’اچھا میں دوائی تو لکھ رہا ہوں لیکن اگر اس سے بھی فرق نہ پڑے تو آپ دماغ کے کسی ڈاکٹر کو دکھائیے۔ ‘‘

’’جی ڈاکٹر صاحب۔ ‘‘

یہ حیران کن انکشاف مریض کو اور بھی ٹینشن میں ڈال رہا تھا۔ جی میں کان ، ناک اور حلق کا ڈاکٹر ہوں اسی طرجیسے ح دماغ کے بھی ڈاکٹر ہوتے ہیں ، جنھیں نیورو کے ڈاکٹر کہتے ہیں، وہ نہیں جو دماغ کا آپریشن کرتے ہیں، وہ سرجنز کہلاتے ہیں۔ میں آپ کو لکھ کر دیتا ہوں ایک بڑے اچھے دماغ کے ڈاکٹر ہیں جنھیں کہتے ہیں یعنی انھیں نیورو فزیشن کہتے ہیں۔ آپ انھیں دکھا دیجیے گا۔ انھوں نے نسخہ لکھا اور ان کے ہاتھ میں تھما دیا۔

وہ اسپتال ایک درمیانے درجے کے علاقے میں ہے جہاں وہ مشہور ڈاکٹر صاحب ہفتے میں تین دن بیٹھتے ہیں، ان کے صرف ایک وزٹ کے چار سو روپے فیس ہے گو آج کل کے مہنگائی کے گرم ترین ماحول میں چار سو روپے اتنے زیادہ نہیں ہیں لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو پانچویں دورے میں اس مریض کے مرض کا ادراک ہوا کہ مریض کو دراصل کان کی کوئی بیماری لاحق نہیں ہے بلکہ یہ ایک دماغی بیماری کی کوئی بہن بھائی ہے۔ ان پانچ دوروں کے درمیان غریب مریض نے نہ صرف ان کی فیس ادا کی بلکہ اس دوران کان سے منسلک بیماری کی ڈھیروں مہنگی ادویات بھی اپنے معصوم معدے میں انڈیل لیں، کیا ان مشہور ڈاکٹر صاحب کو کوئی اس بات کے لیے ذمے دار قرار دے سکتا ہے، ہرگز نہیں۔

دوائیوں کے پیسے جس تیزی سے بڑھے ہیں کہ آپ کے تصور سے بھی باہر ہے۔ میں ایک میڈیکل اسٹور سے دوائی خرید رہا تھا ایک صاحب اپنے بچے کے لیے دوائی خریدنے آئے جن کے ہاتھ میں ایک مشہور و معروف بچوں کے ڈاکٹر کا نسخہ تحریر تھا۔ ان کی فیس اندازاً ہزار سے آٹھ سو روپے تو ہے۔

میڈیکل اسٹور والے نے نسخہ دیکھا اور دوائیاں ڈھیرکردیں ، وہ اتنی دوائیاں دیکھ کر قیمت پوچھ بیٹھا تو ایک سیرپ ہی چھ سو روپے کا تھا، اس شخص نے بے چارگی سے دوائیوں کا نسخہ مانگا ، چند ایک دوائیاں خریدیں اور وہ مہنگا سیرپ چھوڑ دیا۔ ذرا غور فرمائیے کہ وہ بچہ کس قدر علیل تھا کہ اسے اس ماہر ڈاکٹر کے پاس جانا پڑا تھا لیکن صد افسوس کہ اس کے پاس دوائیاں خریدنے کے پیسے دستیاب نہ تھے تو پھر وہ اس نسخے کا کیا کرتا؟

اتفاق سے میری جیب میں بھی چند ہی روپے تھے ورنہ میں ان صاحب کو ضرور بچے کے لیے ساری دوائیاں خرید کر دیتا۔ وہ صاحب تاسف سے کہہ رہے تھے ، لیکن وقت گزر چکا تھا یقینا مہنگائی روز بروز آندھی طوفان کی مانند دنیا بھر میں اپنے پنجے گاڑھ رہی ہے لیکن انسانی رویوں میں بھی جس تیزی سے بے رخی اور بے حسی نمایاں ہو رہی ہے اس کے لیے ہم کس کو دوش دیں گے؟ کیا ہمارے یہاں تربیت میں کوئی فقدان ہے یا ساری تربیت دھری کی دھری رہ گئی ہے؟ مہنگائی کی آڑ میں غیر انسانی رویوں کو جس بے دردی سے فروغ دیا جا رہا ہے وہ قصائیوں کو تو گدھے، کتے اور مرے ہوئے بیمار جانوروں کا گوشت فروخت کرنے پر مجبور کر رہا ہے جب کہ قصائیوں کی جگہ اب مسیحاؤں نے سنبھال لی ہے۔ پورے ملک میں ایک ہی طرح کا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ لیکن اب بھی اس رواداری کے دور میں بہت اچھے مہربان مسیحا بھی اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں کہ جن کے دم سے نیکی کی شمع اب بھی روشن ہے۔

ہر سال مارچ کے مہینے میں تین تاریخ کو عالمی یوم سماعت منایا جاتا ہے۔ یہ مارچ میں ہی کیوں منایا جاتا ہے اور تین تاریخ کو ایسا کیا ہوا تھا جو تین تاریخ منتخب کی گئی تھی؟ چار مارچ یا پانچ مارچ کو بھی یہ دن منایا جاسکتا تھا تو اس کے لیے ایک خاص اور دلچسپ بات علم میں آئی۔ دراصل کان کی تشبیہ تین کے ہندسے سے ہے اس لیے سال کا تیسرا مہینہ یعنی مارچ اور تین تاریخ کان کی تشبیہ سے مطابق منتخب کی گئی۔ لاہور میں ناک کان اور حلق کے ماہر ڈاکٹر عارف تارڑ نے ایسے بچوں کے لیے جو پیدائشی طور پر سماعت سے محروم ہیں ان کے ایک سال کے اندر اندر علاج کو ضروری قرار دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ کوکلیئر امپلانٹ سے پیدائشی سماعت کے مسائل کا خاتمہ ممکن ہے۔

لاہور کے چلڈرن اسپتال کے ڈین پروفیسر محمد سلیم کا اس سلسلے میں کہنا تھا کہ چلڈرن اسپتال کا کوکلیئر امپلانٹ یونٹ 2014 میں پروفیسر عارف تارڑ کی نگرانی میں عمل میں آیا تھا اور اب تک وہاں دو سو بیس امپلانٹ ہو چکے ہیں اس یونٹ کی تمام تر سہولیات حکومت پنجاب اور محکمہ صحت کے احکامات کی روشنی میں بلامعاوضہ عوام کو دی جا رہی ہیں یہ ایک قابل تعریف عمل ہے کہ جس کے لیے وہ تمام حضرات خراج تحسین کے مستحق ہیں جنھوں نے اس کارخیر میں حصہ لیا اور اسے عام عوام کے لیے کھول دیا۔

ڈاکٹرز اور مریض کے بیچ ایک اعتماد کا رشتہ ہوتا ہے جو لوگ اپنے گھر والوں سے بھی اپنے دل کا حال نہیں کہہ سکتے ، وہ ایک ڈاکٹر پر یقین رکھتے ہوئے اسے سب کچھ بتا دیتے ہیں۔ یہ اعتماد، بھروسہ اور یقین اگر واقعی اپنے جذبات اور رویوں میں سچے ہیں اور دوسری جانب لالچ، غرور اور تکبر کے رویے ابھر رہے ہوں تو یہ تصادم ایک خطرناک روش پر چل پڑتا ہے جس سے مایوسی، پریشانی اور اذیت ابھرتی ہے اور معاشرہ ناہموار راہوں سے پٹ جاتا ہے، حکومت وقت سے گزارش ہے کہ خدارا ادویات کی قیمتوں پر نظر کرم کیجیے اور دعائیں لیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔