بنے گااب نیا پاکستان

انجینئر مسعود اصغر  اتوار 3 اپريل 2022

کسی بھی ملک کی ترقی یا تنزلی کا اندازہ وہاں کی اقتصادی حالت سے لگایا جاسکتا ہے اور اسے وطن عزیز کی بدقسمتی کہہ لیں کہ یہاں کے اقتصادی حالات یا اس کی معیشت دن بدن تیزی سے روبہ زوال ہے۔

اس کی اہم ترین وجہ ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ اسے قیام پاکستان کے کچھ عرصے بعد سے ایسی مخلص قیادت کا نصیب نہ ہونا ہے جو اس ملک اور اس میں بسنے والے ایک عام شہری کے خیر خواہ ہوں جن کے دلوں میں خدا خوفی،درد مندی کا احساس اور روزِجزا و سزا کا خوف کہ ایک نہ ایک دن وہ بہ ہر صورت منعقد ہوگاجس میں اپنے ہر ہر چھوٹے سے چھوٹے کیے کا حساب دینا ہوگا۔

قیام پاکستان کو الحمدللہ آج اتنے سال گذرنے کے باوجودیہاں کے لوگوں کو صرف مذہب اسلام کے نام پر ہی بے وقوف بنایا جاسکتا ہے اور بنایا جارہا ہے کوئی کہتا ہے کہ ہم اسلامی ریاست قائم کریں گے، کوئی کہتا ہے کہ مدینہ کی ریاست کی طرز پر عدل و انصاف کی حکومت بنائیں گے، کوئی کہتا ہے خلافت عمرؓ کی یاد تازہ کردیں گے، الغرض جتنے منہ اتنی باتیں بیان بازی میں تو ہمارے حکمرانوں کا تو کوئی ثانی نہیں۔ پر کوئی بھی کبھی بھی جن کھوکھلے نعروں کا وہ سہارا لے کر آتے ہیں ،ان اہداف میں سے کسی ایک کو بھی پورا نہیں کر پاتے کیونکہ ان خالی نعروں کی کوئی سچائی ان کے دل یا ان کی سوچ میں کبھی ہوتی ہی نہیں یہ تو محض عوام کو لارے لپے دینے کی باتیں ہوتی ہیں،جب وہ اقتدار کی جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں تو ان کا سینہ تقریبا عوام کے دکھ ،درد اور غم سے پھٹاجارہا ہوتا ہے اور جب وہ صاحب اقتدار ہوجاتے ہیں توفرعونیت کی ایسی ایسی تاریخ رقم کررہے ہوتے ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کون ہیں یا وہ کون تھا؟

کیا یہ وہی لوگ ہیں جن کا دل عوام کے لیے پھٹا جارہا تھا۔بہرحال موجودہ وزیراعظم کا چناؤ یہاں کے عوام نے اس لیے کیا تھا کہ وہ بھی ایک سچی تبدیلی کے خواہش مند ہیں اور پرانے چہروں سے تھک چکے تھے لیکن اس بار بھی ہمیشہ کی طرح مظلوم و بے کس عوام کو انتہائی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ وہ مثل مشہور ہے کہ’’کہاں کی اینٹ کہاں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جو ڑا‘‘ کیونکہ انھوں نے مختلف جماعتوں کے افراد سے اپنا کورم پورا کیا ہوا ہے۔

ظاہر ہے ایسے افراد کی ایمانداری،دیانت داری کسی کے ساتھ نہیں ہوتی صرف اور صرف اقتدار اور پیسہ کا لالچ ہوتا ہے اور ہوا بھی یہی۔ ہر موڑ پر ان کی گورنمنٹ کے کام ،ناکام ہی ہوتے رہے اور عوام مہنگائی، بیروزگاری اور دیگر مسائل کے بوجھ تلے دب دب کر تقریبا ختم ہوتے رہے۔

قصہ یہاں پرتمام نہیں ہوا کیونکہ وہ اس فیلڈ کے بالکل نئے کھلاڑی ہیں جس کی وجہ سے وہ غیر دانش مندانہ فیصلے لیتے رہے جس کے نتائج کی صورت میں جب انھوں نے دیکھا کہ عوام ان سے بالکل مایوس ہوچکے تو انھوں نے پاکستانی شہری جو باہر کے ملکوں میں رہائش پذیر ہیں ان کو ووٹ کا حق دلوانے کی سر توڑ کوشش کی اور صاحب اقتدار ہونے کی وجہ سے کامیاب بھی ہوگئے کیونکہ انھیں یہ معلوم ہے کہ وہی اب انھیں اس مشکل گھڑی سے نکال سکتے ہیں کیونکہ ہمارے یہ پاکستانی بھائی ،بہنیں،بزرگ ان سے محبت کرتے ہیں کہ یہی وہ نجات دہندہ ہے جو اس ملک کے سسٹم کو ٹھیک کرسکتا ہے اسے موقع پر موقع دیے جاؤکیونکہ ابھی یہ نووارد ہونے کی وجہ سے کچا کھلاڑی ہے۔

بالآخر یہ ایک دن ضرور کامیاب ہوگا چونکہ یہ کرپٹ نہیں ہے دوسروں کی طرح ہاں جب تک شاید تم لوگ زندہ نہ رہو لیکن تمہاری نسلیں ضرور ایک دن وہ نیا پاکستان دیکھیں گی۔ بہرحال ہم مسلمانوں پر بتوں کی پوجا حرام ہے ،اس لیے ہماری ان پاکستانی بھائی بہنوں بزرگوں سے گذارش ہے کہ وہ اتنی دور سے ان کی پرستش نہ کریں یہاں آکر روکھی سوکھی کھا کر اپنے نیم مردہ ہم وطنوں کو ہمت دیں کہ ہم بھی آپ سب میں سے ہیں۔

آپ سب کے ساتھ ہیں ان کو ان کے زندہ ہونے کا احساس کرائیں جس احساس سے آج کا مڈل کلاس طبقہ بالکل عاری ہوچکاہے اور ایک بے جان روبوٹ کی طرح زندگی کے ان نہ ختم ہونے والے مصائب کی چکی میں پس رہا ہے۔ مشرقی معاشرے میں جہاں بہت ساری باتیں زندگی کے نشیب وفراز کو سہنے بلکہ اس میں بہتری اور آسانی لانے کے لیے ہمارے بزرگ روایتوں کی شکل میں چھوڑ گئے،وہاں یہ ایک خوبی جو کہ تھوڑی بہت چوری کے زمرے میں بھی ہے مگر اس میں گھر بھر کی بھلائی پنہاں ہے کہ ہر گھر کی ہماری خواتین روزمرہ کے خرچوں سے کچھ رقم اپنی لیاقت دانش مندی سے پس انداز کرلیتی ہیں تاکہ آنیوالے وقتوں میں اگر کوئی مشکل پیش آجائے یا بچوں کی شادی بیاہ کا مسئلہ ،پڑھائی کا مسئلہ یا کوئی ناگہانی سر پر آن پڑے تو استعمال ہوسکے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا نہ پڑے کیونکہ دور حاضر کے ان سائنسی بنیادوںپر پیدا کیے گئے مسائل کے سبب نفسا نفسی اس قدر عام ہوچکی کہ اپنوں کے آنکھیں پھیرنے میں زیادہ وقت نہیں لگتاجو آج کے اس اسلامی مملکت کا المیہ بن چکا، جس کی اساس کبھی مواخات (بھائی چارہ) پر ہوتی تھی جہاں انصار (جو کسی خونی رشتے کے بغیرصرف و صرف دین اسلام کی آفاقی تعلیمات کی روشنی میں) مہاجرین کو دل سے اپنا حقیقی بھائی بنا کر ان کو اپنی جائیدادوں میں بھی شریک کرلیتے جب کہ آج تو یہ حال ہے کہ اتنے سال گذرنے کے باوجود مہاجر ،مہاجر کی گردان تواتر سے کی جاتی ہے ان کو یہ غم بھولنے ہی نہیں دیا جارہا کہ وہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر اس نوزائیدہ اسلامی ریاست کے خواب آنکھوں میں سمائے دل میں چھپائے ہر شے قربان کر کے آئے تھے اور اپنے علم سے اس کو بنا گئے۔

انھوں نے اپنی اس اسلامی فلاحی ریاست سے محبت کا بھر پور حق ادا کیا بعض ہمارے بزرگ تو صرف یہاں پہنچ سکے، انھوں نے صرف اپنی آنکھوں سے اس وطن کو دیکھا اس کی مٹی کو محسوس کیا اس کی خوشبو اپنی سانسوں میں اتاری اور جان جاں آفریں کے سپرد کردی یہ ہے’ مہاجر ‘ جس کی غربت کا آج تم مذاق اڑاتے ہواور اپنے بزرگوں کی اچھائی اور ان کی نیکی کا احسان جتاتے ہو۔ خدا کا شکر بھیجو کہ تمہیں ’’ہجرت‘‘ جیسی تکلیفوں سے گزرنا نہیں پڑا جن سے ہمارے بزرگ گزرے۔

تمہیں کیا معلوم ہجرت کی تکلیفیں کیا ہوتی ہیں ساری زندگی کے لیے اپنے چھوٹ جاتے ہیں اپنے بہن ،بھائی ،ماں ،باپ، اپنی یادیں اپنا آرام اپنا سکھ چین، گزرتے وقت کے ساتھ کوئی مہاجر، مہاجر نہیں رہ جاتا پھر وہ اس ملک کا باسی اور آپ کا بھائی بن جاتا ہے۔ اللہ کریم ہم سب کو ایک دوسرے کے دلوں سے جوڑ کر اخوت کا وہ رشتہ قائم کریں جو آپ کے پیارے حبیب سرکار دو عالم حضرت محمدﷺنے انصارو مہاجرین کی مثالی محبت کے ذریعے رہتی دنیا کے لیے ایک مثال قائم کی تھی جو مدینہ کی ریاست قائم کرنیوالوں کے اہداف میں ہونا چاہیے تھی اگر ان کی خواہش سچی ہوتی تو۔

مستقبل میں ہر طرح کے حالات سے نمٹنے کے لیے خواتین کی یہ حکمت عملی اپنے گھر کی بقا و سلامتی کے لیے ہوتی ہے چاہے وہ گھریلو ہوں یا ملازمت پیشہ خود ان کے شوہروں اور بچوں کے علم میں بھی نہیں ہوتا ان کی اس سیونگ کا،اور ایسے میں وہ کرپشن سے پاک معاشرے کے خواہاں شخصیت فرماتے ہیں کہ’’ بتاؤ یہ پیسہ کہاں سے آیا؟ کہاں گیا،بالکل ٹھیک فرماتے پر یہ عذاب صرف مڈل کلاس پر ہی کیوں کیونکہ بڑے لوگوں پر آپ کا زور یا احتساب چل نہیں سکتا۔اس میں وہ شرفاء کہاں ہیں جن کی دولت آپ ملک میں واپس لانا چاہتے تھے ،اس کا کیا ہوا؟ ان کھوکھلے وعدوں کا، آج ہم آپ کی اقتدار میں آنے سے پہلے کی تقریریں سنیںاور آج کے آپ کے بیانات تو ان میں واضح تضاد بلکہ یو ٹرن علانیہ نظر آتے ہیں ایسا کیوں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔