بس تھوڑا سا منافع

شہلا اعجاز  جمعـء 8 اپريل 2022
فوٹوفائل

فوٹوفائل

رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہو چکا ہے، مہنگائی جو پہلے بھی آسمان سے باتیں کررہی تھی ، اب بھی ویسے ہی شان و شوکت سے براجمان ہے، ہر بات پر حکومت کو کوسنے دیتے رہنے والے اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے کہ اگر مہنگائی اوپر سے ہے توکمی آپ نے بھی نہیں کی ہے اور نتیجتاً دو سے تین اور تین سے چار گنا اور اس سے بھی اونچے درجے پر اشیا صرف درکار ہیں، پھلوں پر مکھیاں بھنبھنا رہی ہیں لیکن سستے داموں بیچتے جیسے انا کا مسئلہ درپیش ہے۔ ایسے سیاسی اور معاشی گرم سرد موسم میں ایک نہایت دل خراش واقعہ پیش آیا۔

پی آئی بی کالونی، غوثیہ کالونی میں پرانی سبزی منڈی والی گلی میں ایک تین منزلہ عمارت میں دراڑیں پڑ گئیں اور رہائشی عمارت ٹیڑھی ہوگئی، اس عمارت کو اس بوسیدگی کی وجہ سے خالی کرا لیا گیا تھا ، چند روز پہلے خالی کرائی جانیوالی عمارت میں اتوارکو گھر کے مکین کی دو بہنیں فوزیہ اور ریما اس گرتی ہوئی عمارت سے کچھ سامان لینے گئیں لیکن کسے خبر تھی کہ جس نقصان سے بچنے کے لیے اپنا گھر چھوڑنا پڑا تھا۔

اس نقصان کی تلافی ممکن ہی نہ تھی اور دونوں معصوم بہنیں اسی گھر کے ملبے تلے دب گئیں اور پھر کبھی نہ اٹھ سکیں۔ اس حادثے میں ایک خاتون اور ایک سات سالہ بچہ بھی زخمی ہو گیا ، کہا جا رہا ہے کہ دراڑیں پڑنے کے باعث عمارت میں شگاف پڑگیا تھا لیکن حادثے سے ایک روز پہلے یہ عمارت اس قدر ٹیڑھی ہو چکی تھی کہ اس سے دوسری عمارت بھی متاثر ہو رہی تھی، مذکورہ گھر کو پانچ برس پہلے ہی خریدا گیا تھا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر دوسرے تیسرے برس عمارتوں کے ٹیڑھا ہونے، گر جانے اور دراڑیں پڑنے کی خبریں منظر عام پر آتی رہی ہیں، ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب ایک کئی منزلہ عمارت زمیں بوس ہوگئی تھی، اسی طرح گولیمار میں بھی ایک کئی منزلہ نئی تعمیر شدہ عمارت کے زمیں بوس ہونے اور کئی معصوم جانوں کے ضیاع کی خبریں بھی سامنے آئیں۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے ، وہ کیا اسباب ہیں جو نئی تعمیر شدہ عمارتوں کو زیادہ عرصہ پنپنے نہیں دیتے اور گرا دیتے ہیں، کیا میٹریل کی خرابی اس کی ذمے دار ہے یا نقشے کی غلطی اس طرح کے حادثات جنم دیتی ہے؟

دنیا بھر میں جتنے بھی تعمیراتی منصوبے بنائے جاتے ہیں چاہے وہ رہائشی ہوں یا کمرشل ان میں سب سے اہم بنیاد ہوتی ہے یہ وہ پہلا مضبوط قدم ہے جس پر کسی بھی منصوبے کو کھڑا کرنا مقصود ہے۔ اس سے پہلے یہ اہم ہے کہ وہ زمین جس پرکوئی بھی منصوبہ چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا ، اس کی زمینی ساخت کس قسم کی ہے، مٹی کا معیار اور سیم و تھورکی کیا صورتحال ہے اور کیا وہ اس معیار کی ہے کہ جس پر ایک کثیر المنزلہ عمارت کھڑی ہو سکے گی؟

کراچی میں سی ویو کے مقام پر جب تعمیرات کا فیصلہ کیا گیا تو ایک رائے یہ تھی کہ یہ منصوبہ ناکام رہے گا کیونکہ سمندری ساحل کے باعث یہاں مضبوط بنیاد ہی نہیں ڈالی جاسکتی ، یہ بات ہمارے مرحوم ماموں نے بتائی تھی جو کراچی کے پوش مقامات پر بہت اچھی تعمیرات کروا چکے تھے بلکہ امریکا کے اٹلانٹا میں بھی ان کی تعمیر کردہ ایک مسجد ماشا اللہ سے قائم ہے،گو انھوں نے سول انجینئرنگ کی باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہیں کی تھی لیکن خاندانی اعتبار سے سنگ مرمرکا بڑے پیمانے پر کاروبار کرتے آئے تھے۔

ان کے والد مرحوم اور بہنوئی سید حامد علی کو قائد اعظم کے مزار پر بھی کام کروانے کا اعزاز حاصل ہوا ہے، لیکن شاید قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا، سمندر اپنے مقام سے دور ہوتا گیا لیکن مضبوط بنیاد اور انداز تعمیرات نے اس منصوبے کو خاصا کامیاب کر دیا ، یہاں تک کہ خود ہمارے ماموں نے بھی وہاں رہائش کی تھی۔ اس طرح کی اور بھی کئی مثالیں موجود ہیں۔

کراچی کے انتہائی مصروف کاروباری علاقے آرام باغ میں آج بھی ایسی کثیرالمنزلہ عمارتیں قائم ہیں جن میں سیلن ضرور ہے لیکن مضبوطی کے لحاظ سے ان کا معیار زبردست ہے، ایسی ایک عمارت کا انجینئر سننے میں آیا تھا کہ فرانس سے اس کا تعلق تھا اور اس نے اس زمین کو دیکھتے ہوئے لوہے کا بہت زیادہ استعمال کیا تھا تاکہ بنیاد ہی نہیں عمارت کا بنیادی اسٹرکچر بھی لوہے جیسا مضبوط ہو۔

لاہور میں زمین کی ساخت کراچی کے مقابلے میں کافی مختلف ہے وہاں پرانے گھروں میں سیلن کا ہونا عام بات ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ وہیں مغلیہ تعمیرات کے ایسے ایسے شاہکار موجود ہیں جن کے فن تعمیر کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جائے، اور وجہ ہے مضبوط بنیاد سے لے کر مضبوط اسٹرکچر تک کی، جس کے لیے اعلیٰ کوالٹی کا میٹریل اور پرفیکٹ نقشے۔

آج گھر اس طرح کھلے عام بنائے جا رہے ہیں جہاں پوری زمین کو تعمیرات سے اس طرح پاٹ دیا جاتا ہے کہ اس کے بعد جیسے تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں بچتی، ساٹھ گز کے گھر سے لے کر ایک سو بیس گز کے گھر تک اسی انداز سے بنائے جا رہے ہیں لیکن انتہائی خوف ناک صورتحال ساٹھ گزکی زمین پر تین منزلہ ہی نہیں بلکہ چار سے پانچ منزلہ تک کی تعمیرات نظر آ رہی ہیں ، جس کا نقصان بھی اخبارات اور میڈیا چینلز پر نظر آتا رہتا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک کے بعد ایک حادثے کے باوجود کیا اس طرح کے گھروں کی روک تھام ہو سکی، کیا اس موت کے بھیانک کھیل کو کھلے عام کھیلنے سے کوئی روک سکا ہے؟

بات شروع ہوئی تھی مہنگائی کے طوفان سے اور یہ حقیقت ہے کہ جس طرح مہنگائی نے ضروریات زندگی کے تمام شعبوں کو متاثرکیا ہے اسی طرح تعمیراتی میٹریل کی قیمتیں بھی آسمان کو چھو رہی ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تھوڑے سے منافع کی خاطر ایک بہت بڑے پروجیکٹ کو ڈبونے کی خواہش صرف تباہی کے گڑھے کھودتی ہے۔ جس کی موت جس انداز میں طے ہو چکی ہے اس سے تو انکار ناممکن ہے لیکن کاغذ کے مردہ نوٹوں کی خاطر زندہ انسانوں کی زندگیوں کے سودے نرے نقصان میں ہی رہتے ہیں۔

کراچی میں میٹھے پانی کے حصول میں ناکامی کی صورت میں بورنگ کا کھارا پانی بھی عمارات میں بوسیدگی کا باعث بن رہا ہے لیکن یہ ایک معمولی فیکٹر ہے جب کہ اصل بات بنیاد کی مضبوطی سے شروع ہوتی ہے جس میں بجری، سیمنٹ اور لوہے کی مناسب مقدار کے ساتھ اسٹرکچر کی مضبوطی اور پلاسٹر تک تمام مراحل بہت توجہ اور وافر سرمائے کے متقاضی ہیں لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ناقص میٹریل اور غلط نقشے کے ساتھ بے ترتیب پلاننگ اپنے پیاروں کے لیے ایک مضبوط اور محفوظ چھت کی تعمیر نہیں کر رہے بلکہ ان کی موت کا سامان پیدا کر رہے ہیں لہٰذا جتنی ذمے داری سرکاری اداروں کی بنتی ہے۔

اس سے کہیں زیادہ عوام کی بھی ہے جو اپنے لیے اور اپنے جیسوں کے لیے ایسے خطرناک منصوبے تعمیر کرکے اپنے لیے بددعاؤں کے ڈھیر سمیٹتے ہیں اور دنیا و آخرت میں خوار ہوتے ہیں رب العزت ہم سب کو نیک ہدایت دے۔( آمین۔)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔