پڑھو گے، لکھوگے، بنو گے نواب

کاشف شمیم صدیقی  جمعـء 22 اپريل 2022
فوٹوفائل

فوٹوفائل

غریب اور متوسط طبقے کے مسائل پہلے ہی کیا کم تھے کہ رہی سہی کسر ہمارے Confusedتعلیمی نظام نے ، بالخصوص والدین کو نفسیاتی اور ذہنی الجھنوں میں مبتلا کرکے پوری کردی ، کیسے…؟ وہ ایسے کہ ’’ بچوں کا داخلہ کہاں کروائیں ، کہاں نہیں ‘‘ آج کل کے اہم ترین مسئلوں میں سے ایک ہے۔ کافی دوڑ دھوپ اور چھان پھٹک کے بعد حاصل ہونے والی ناکامی با لآخر ’’گھر سے قریب والے اسکول‘‘ کے حق میں فیصلہ کروا ہی لیتی ہے۔

اب ہمارے یہاں کے اسکولوں کی Categories سے تو آپ سب لوگ اچھی طرح واقف ہی ہیں، کچھ تو ایسے ہیں کہ جہاں غریب والدین کے لیے اپنے بچوں کا داخلہ بس ایک خواب ہی ہے ، بھئی یہ خواب ہی تو کہلائے گا کہ باالفرض ایک ایسا شخص جس کی تنخواہ 30یا 40ہزار روپے ماہوار ہو تو پھر اُس کے لیے 15 سے 20ہزار کے درمیان ہر ماہ ادا ہوتی شاندار اسکولوں کی فیس کا بوجھ اُٹھانا کیونکر ممکن ہو سکے گا اور اگر والدِمحترم خالصتا مزدوروں والی کمائی کما رہے ہو ں تو پھر تو اُن کے لیے لازم ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کا داخلہ ’’پیلے ‘‘ کا لیبل چپکائے کسی سرکاری اسکول میںچپ چاپ کروا آئیں ۔

غریب والدین چاہتے تو ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو اچھے اور معیاری اسکولوں میں تعلیم دلوائیں ، لیکن بیچارے بس ایک ٹھنڈی ’’آہ‘‘ بھر کر ہی رہ جاتے ہیں، اپنے جگر گوشوں کی بہتر تعلیم کے لیے دیکھے جانے والوں خوابوں کو چکنا چور ہوتا دیکھ کر ایک حسرت ، ایک کسک سی والدین کے دلوں میں رہ جاتی ہے، پھر وہ حسرت کب نفرت میں بدل جاتی ہے۔

پتہ ہی نہیں چلتا، بے بسی حوصلوں کی پستی کا سبب بنتی ہے ، کمتر ہونے کا احساس، اچھی خاصی شخصیت کو بگاڑدینے کا موجب بن سکتا ہے ، مایوسی اور پچھتاوا انسان کو اضطراب کی سی کیفیت میں مبتلا کیے رکھتا ہے، بچوں کے بہتر مستقبل کی فکر چین سے سونے نہیں دیتی، ہر پل ذہنوں میں اُبھرتے، بچوں کی کارکردگی اور قابلیت پر بحث و تکرار کرتے سوالات د ماغی توازن پر منفی ا ثرات مرتب کرتے ہیں ، اور پھر غائب دماغی بنتے کام بھی بگاڑ دیتی ہے ۔

نفسیاتی الجھنوں کی وضاحت کے بعد اب بات ہو جائے درمیانے درجے پر فائز اسکولوں کی ۔ یہ اسکول کافی تعداد میں موجود ہوتے ہیں ، انکی فیس اگر چہ بہت کم نہیں، تو بہت زیادہ بھی نہیں ہوتی ہے، لیکن داخلے کے لیے دل ، وہاں بھی نہیں مانتا ، وجہ یہ ہے کہ ایسے اسکول بظاہر دیکھنے میں تو صاف ستھرے ، سرسبزوشاداب ، کشادہ اور آرام دہ معلوم ہوتے ہیں، لیکن جب تعلیمی معیار کے حوالے سے ان کا جائزہ لیا جائے تونتائج مایوس کن ہی نکلتے ہیں ، چند بڑی وجوہات میں سے ایک، کم تنخواہوں پر اساتذہ کی بھرتیاں ہیں ۔

قابل ٹیچرز کی دستیابی تنخواہوں کی مد میں مختص کیے گئے مختصر ترین بجٹ سے بھلا کیونکر ممکن ہوسکے گی ،  پھر تنخواہوں ہی کے چکر میں ٹیچرز کی ایک اسکول سے دوسرے اسکول میں تواتر سے ہوتی  Switchingبھی ’’تسلسل‘‘ سے جڑ ے معیار کو نقصان پہنچانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ خیر، پھر جناب عالی باری آتی ہے گلی ، محلوں، بلڈنگوں اور کالونیوں میں کھلے اسکولوں کی، یہ اسکول جیسے بھی ہوں اُن والدین کے لیے تو راحت کا سامان کیے رکھتے ہیں کہ جن کے لیے فاصلے اور دُوریوں پر حاصل ہوتی تعلیم (آج کل کے حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے) غیر محفوظ اور جیب پر ایک بھاری بھرکم بوجھ تصور کی جاتی ہے ۔

ہر بڑے شہر میں چار ، چھ اسکول ایسے بھی ہوتے ہیں جو والدین کی مطلوبہ ضروریات پر پورا اترتے نظر آتے ہیں، لیکن وہاں مسئلہ Seats   کا آجاتا ہے ، ایسے اسکول ہوتے ہی گنتی کے ہیں کس ، کس کو اپنے اندر سموئیں گے! جب بھی کہیں ان اسکولوں کا ذکر آتا ہے تو مجھے آذر اور زینا یاد آجاتے ہیں، دونوں میرے اچھے دوست ہیںاور آجکل کینیڈا میں مقیم ہیں۔

جن دنوں کراچی میں تھے تو اپنی بیٹی کے ایڈمیشن کے لیے بہت پریشان تھے، آذر کی والدہ پرانے خیالات کی حامل بہت جہاندیدہ خاتون تھیں، چھوٹی تو نہیں البتہ بڑی کلاسوں میں لڑکے اور لڑکیوں کے کافی ’’ قصے‘‘ سن اور دیکھ رکھے تھے، کہتی تھیں کہ پوتی کو کسی صورت Co-Education والے اسکو ل میں نہیں پڑھوانا۔ بیٹی کے ایڈمیشن کے لیے میں نے بالخصوص آذر کو بہت پریشان اور فکر مند دیکھا تھا، ماں ،باپ پرائیویٹ اسکول میں تعلیم دلوانے کی پوزیشن میں نہیں تھے اس لیے آذر نے ایک سرکاری اسکول سے تعلیم حاصل کی تھی۔

تعلیمی دور میں Aسے pple  Aاور BسےBallکافی سالوں بعد اسوقت نظروں کے سامنے آئے تھے کہ جب چڑیا (تقریبا) سارا ہی کھیت چُگ چُکی تھی، کمپیوٹرکا نا م ونشان تو خیر سے پورے تعلیمی کیر یئر میں کہیں تھا ہی نہیں، آذر کے اسکول میں دی جانے والی تعلیم کیونکہ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ اور مطلوبہ عالمی معیار سے مطابقت نہیں رکھتی تھی اسی لیے زندگی کے ہر موڑ پر ، کہیں نہ کہیں اسکے اثرات کا سامنا رہا، خاص طور سے جدید تقاضوں اور عالمی معیار کے حامل، نئے دور کے پیشہ ورانہ ماحول میں سنبھل،سنبھل کر اپنی جگہ بناتے کافی وقت لگ گیا تھا اُسے ، یہی وجہ تھی کہ آ ٓذر اور زینا کو بھی، تلاش ایک ایسے اسکول کی تھی کہ جہاں فیس کم ہو، -Education Coنہ ہو، نامور ہو اور سب سے بڑھ کر ، جہاں انگریزی بھی فر،فر بولی جاتی ہو، کافی تلاش کیا پھر انکی نظروں نے پورے شہر میں ’’دو‘‘ اسکول ہی ایسے دیکھے جو انکی Requirments   پر پورا اُتر رہے تھے ۔ آذر وہاں سے ر جسٹریشن فارم لے آیا تھا، خوب زورو شور سے تیاریاں جاری تھیں۔

دونوں نے کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی تھی ، ٹیسٹ کی تیاری کے لیے بیٹی نے ایک بہت ہی عمدہ Preparation Centre  میں جانا شروع کر دیا تھا، لیکن پھر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا، کچھ عرصے بعد ہی وہ لوگ ملک چھوڑ چکے تھے ، بچے اب کینیڈا کے اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اسکولوں کا احوال تو کافی حد تک آپ لوگوں نے جان لیا اب مسئلہ مسائل کے حل کی تلاش ہے ، ہونا کیا چاہیے ؟ زیادہ کچھ نہیں ہو سکتا تو ارباب اختیار صرف اتنی مہربانی ہی کردیں کہ موجودہ منظر نامے کو پلٹا دیں، یعنی سرکاری اسکول ایسے بنا دیے جائیں کہ پھر وہاں والدین کی طویل قطاریں لگی نظر آئیں، ہر شخص حکومتی سرپرستی میںچلنے والے اسکولوں میں داخلے کا خواہشمند ہو ، وہاں Seatsکا مسئلہ درپیش آئے تو پھر والدین ( بہ حالت مجبوری) پرائیویٹ اسکولوں کا ر ُخ کریں، بس اتنا کر لیں پھر اثر دیکھیں ، فوائد شرطیہ اور Guaranteedہوں گے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔