ماحولیاتی تبدیلیاں اور خوراک کا بحران

زمرد نقوی  پير 30 مئ 2022
www.facebook.com/shah Naqvi

www.facebook.com/shah Naqvi

پاکستان آج کل جس سنگین معاشی سیاسی بحران سے دوچار ہے۔ اس سے کہیں زیادہ ہولناک بحران ماحولیات کا ہے جس پر دھیان بحیثیت قوم نہ پہلے ہمارا تھا اور آج تو بالکل ہی نہیں ہے۔

صورتحال یہ ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر وقوع پذیر ہونے والے منفی‘ موسمی تغیرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں میں شامل ہے۔ کرہ ارض کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے زمین کے ایک بڑے حصے کو خشک سالی اور اس کے نتیجے میں قحط کی سی صورتحال میں مبتلا ہو جانے کے خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے 23ممالک اس کی زد میں ہیں۔

اس فہرست میں افغانستان‘ انگولا‘ برازیل‘ ایتھوپیا ایران‘ عراق‘ قازقستان‘ کینیا‘ مڈغاسکر‘ صومالیہ‘ نائیجیریا‘ جنوبی سوڈان‘ شام‘ پاکستان اور امریکا شامل ہیں۔ ان ملکوں کو دو سالوں سے خشک سالی کی صورت حال کا سامنا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ ملک ہنگامی صورتحال سے دوچار ہو گئے ہیں۔

ان ملکوں میں فوڈ سیکیورٹی بہت بڑا خطرہ بن کر نمودار ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان اس سے پہلے فوڈ برآمد کرنے والے ملکوں میں شامل تھا لیکن آج یہ اجناس درآمد کرنے والے ملکوں میں شامل ہو گیا ہے۔زرمبادلہ کی ایک خطیر رقم ان اجناس کی درآمد میں صرف ہو جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے زرمبادلہ کا ایک خوفناک بحران پیدا ہو گیا ہے۔ معاشی بحران سیاسی بحران سے مل کر دوآتشہ ہو گیا ہے۔

عوام شدید بے چینی کا شکار ہیں خطرہ ہے کہ یہ بحران بڑھ کر خانہ جنگی میں تبدیل نہ ہو جائے، اندازہ کریں کہ یہ ماحولیات کی تباہی کس طرح ملک کی سالمیت پر اثرانداز ہو رہی ہے۔ اگر ماحولیاتی تباہی کو دہائیوں پہلے کنٹرول کر لیا جاتا تو آج تباہ کن صورت حال سے دوچار نہ ہوتے۔ لیکن ہم تو صرف نشتند گفتند پر واقع برخواستند کرتے رہے۔ عالیشان ہوٹلوں میں عالیشان کانفرنسیں کرتے رہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم عوام کو ماحولیات کے حوالے سے ایجوکیٹ کرتے، اسکولوں‘ کالجوں‘ یونیورسٹیوں میں ابتدائی سطح پر اسباق ہوتے لیکن کچھ بھی نہ ہو سکا اگر ہوا بھی تو نہ ہونے کے برابر۔ حالیہ معاشی بحران کی جہاں اور وجوہات ہیں وہاں ایک بڑی وجہ ماحولیات کی تباہی ہے۔ ہمارے کرہ ارض کی ماحولیات کی تباہی میں بڑا حصہ امریکا‘ یورپ‘ چین‘ بھارت اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک کا ہے۔ پاکستان کا اس تباہی میں بہت کم حصہ ہے جب کہ اس تباہی سے متاثر ہونے والے ملکوں میں پاکستان کا شمار ابتدائی دس ملکوں میں ہوتا ہے۔

اقوام متحدہ کے خشک سالی کے خلاف اقدامات کرنے والے ادارے کی رپورٹ میں آیندہ تین عشروں تک رونما ہونے والے متوقع خطرات کی پیشن گوئی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 2050تک بھارت اور پاکستان کے مجموعی رقبے کے تقریباً مساوی 40لاکھ مربع کلو میٹر پر مشتمل مزید علاقوں کو بحالی کے اقدامات کی ضرورت ہو گی۔ خشک سالی کا یہ چیلنج انسانی برادری کو کتنے بڑے پیمانے پر متاثر کرے گا اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ کرہ عرض کی 40فیصد تک زمین تنزلی کا شکار ہے۔ عالمی معیشت پر اس صورت حال کے اثرات انتہائی تباہ کن ہوں گے۔

رپورٹ میں اس پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ 44ٹریلین یعنی 44ہزار ارب ڈالر مالیت کی عالمی جی ڈی پی کا تقریباً نصف خطرے کی زد میں ہے۔ رپورٹ کے مطابق جدید تاریخ میں انسانیت کو اس سے پہلے ایسے ہولناک خطرے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ گزشتہ کئی عشروں سے عالمی ادارے خبردار کر رہے ہیں کہ پاکستان میں پانی کی قلت مسلسل بڑھ رہی ہے۔

اسلام آباد میں ہونے والے سیمینار میں بتایا گیا کہ 2025 تک پاکستان پانی کی انتہائی قلت والے ملکوں میں شامل ہو جائے گا۔ تازہ ترین انتہائی اہم بات یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث برطانوی سائنسدانوں نے اپنے تجزیے میں بتایا ہے کہ پاکستان اور بھارت میں ہیٹ ویو کا خطرہ سو گنا  زیادہ بڑھ گیا ہے۔ برصغیر میں جو ہیٹ ویو312سال بعد آتی تھی اب ہر تین سال بعد آیا کرے گی۔ دیکھا زمین آسمان کا فرق۔ یہ ہے ماحولیاتی تباہی کا نتیجہ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔