صرف گندم اور عارضی امداد تھر کے مسئلے کا حل نہیں

’’قحط قدرتی آفت یا مجرمانہ غفلت ‘‘کے موضوع پر حیدر آباد میں ’’سندھ ایکسپریس فورم‘‘ میں شرکاء کا اظہار خیال


سندھ حکومت پچھلے سال نومبر میں قحط کے خطرے سے آگاہ ہوچکی تھی لیکن اس نے بروقت اقدامات نہ کیے، شرکا فوٹو: ایکسپریس

SYDNEY: تھر میں موت کے رقص کے بعد وزیروں اور اعلیٰ افسروں کی شامت آ چکی ہے لیکن کیا ایسے اقدامات سے وہ جانیں واپس آ جائیں گی جو حکومتی بے حسی اور افسروں کی نااہلی کی وجہ سے ضائع ہو گئیں۔

پانی سر سے گزر جانے کے بعد اربوں روپے کے پیکج بھی دیئے جا رہے ہیں اور لاکھوں بوریاں گندم بھ،' سوچنے کی بات ہے کہ حکومتی ایوانوں کو اس وقت ہوش کیوں آتا ہے جب میڈیا کسی مسئلے کو منظر عام پر لائے۔



حکومت کی اپنی مشینری کیا کرتی ہے؟ کسی مسئلے کا مستقل حل کیوں نہیں نکالا جاتا؟ اصل ذمہ دار کون ہے؟ معدنی دولت سے بھرپور اس علاقے کے مکین آخر غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبورکیوں ہیں؟ یہاں کے باسیوں کو آئے روز اپنے دیہات چھوڑ کر ہجرت پر مجبور کیوں ہونا پڑتا ہے؟ یہ وہ چبھتے ہوئے سوال ہیں جن کے جواب جاننے کے لئے حیدرآباد میں ایکسپریس گروپ کے سندھی روزنامہ سندھ ایکسپریس کے زیر اہتمام ''تھر میں قحط قدرتی آفت یا مجرمانہ غفلت'' کے عنوان سے ایک خصوصی فورم کا اہتمام کیا گیا جس میں ڈاکٹر سونوکھنگارانی، ڈاکٹر عرفانہ ملاح، دستگیر بھٹی، پروفیسر اسماعیل کمبھر، ذوالفقار ہالیپوٹو، سلیمان جی ابڑو اور عباس کھوسو نے اس اہم مسئلے کے اسباب اور سدباب پر روشنی ڈالی، فورم کی میزبانی کے فرائض فاروق سومرو نے انجام دیئے جبکہ عظیم نذیر اس فورم کے نگران تھے۔

فورم کے شرکاء نے حالیہ سانحہ کی وجہ حکومت کی نااہلی اور بے حسی کو قرار دیا کیونکہ سندھ حکومت کو پچھلے سال نومبر میں قحط سالی کی رپورٹ دی گئی تھی لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ فورم میں شرکاء نے تجویر دی کہ آئندہ ایسی صورتحال سے بچنے کے لئے ضلع تھرپارکر میں تھر ڈویلپمنٹ اتھارٹی قائم کی جائے، تھر میں بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کا مناسب انتظام کیا جائے، ایک لاکھ سے زائد خاندانوں کے لئے 4 ماہ کا مکمل راشن' مویشیوں کے لئے چارے اور ویکسینیشن کے انتظامات کی فوری ضرورت ہے' وہاں کے لوگوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کئے جائیں اور امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کے لئے سول سوسائٹی کے افراد پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے۔

ڈاکٹر سونو کھنگارانی ( صدارتی ایوراڈ برائے سماجی خدمات)

1965ء کی جنگ سے پہلے پاک بھارت سرحدوں کے درمیان آمدورفت پر کوئی پابندی نہیں تھی لوگ یہاں سے ادھر ادھر جاتے رہتے تھے اور برا وقت اس طرح ٹال لیتے تھے۔ یہاں کے باسیوں کی گزر بسر کا بڑا ذریعہ مویشی پالنا اور جنگلات کی جڑی بوٹیاں ہوتی تھیں۔ پاکستان کی وزارت دفاع نے 1985ء اور اس کے بعد کے ادوار میں پہلی مرتبہ تھر میں سندھ ایرڈ زون اتھارٹی کوپکی سڑکیں بنانے کی اجازت دی، اسی دوران تھر میں بجلی آئی اور پھر شوکت عزیز کے دور حکومت میں تھر کے شہر مٹھی ، چھاچھرو ، اسلام کوٹ اور ڈیپلو میں بیراجی علاقوں سے پینے کے پانی کی لائنیں بچھائی گئیں۔

اس قسم کی ترقی نے تھر کی معاشی اور سماجی صورتحال میں اچانک بہت بڑی تبدیلی پیدا کردی جس کے بعد تھر کے جنگالات جہاں سے جانوروں اور انسانوں کو خوراک مہیا ہوتی تھی وہ آہستہ آہستہ کٹتے چلے گئے۔ تھر کی روایات میں جانوروں کو پالنے کے لئے چراگاہوں کی زمین مخصوص ہوتی تھی تھر میں آئی ہوئی اس نئی تبدیلی سے چراگاہیں ختم ہو گئیں اور جانور پالنا مشکل ہو گیا۔ اس کے علاوہ تھر کے نوجوانوں میں منشیات کے استعمال کا رجحان (خاص طور پر کچی شراب) بہت تیزی سے بڑھا ہے۔ اس قسم کے بڑھتے ہوئے رجحان پر اینتھراپالوجی کے کسی بھی محقق نے ابھی تک تحقیق نہیں کی۔



تھر میں لڑکیوں کے اغوا ہونے اور اقلیتی لڑکیوں کی جبری مذہبی تبدیلی کے واقعات نے وہاں کے لوگوں میں کم عمری میں بچیوں کی شادی کروانے کا رجحان تیزی سے پروان چڑھا ہے جس کے باعث زچگی کے دوران عورتوں کی ہلاکت کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔ قحط سالی کے دوران سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کا ہوتا ہے کیونکہ ان میں اکثر لوگ مویشی پالنے اور کھیتی باڑی کرنے کے علاوہ کسی اور کام سے واقف نہیں۔ پر وینشل ڈزاسٹر مینیجمینٹ اتھارٹی (PDMA) نے گزشتہ سال نومبر میں صوبائی حکومت کو قحط سالی کے متعلق رپورٹ پیش کی جس پر حکومت کی جانب سے کوئی سنجیدہ ردعمل نظر نہیں آیا۔

انہوں نے کہا کہ میں نے PDMA کو کچھ تجاویز دی ہیں جن میں تھرپارکر میں رہنے والے ایک لاکھ خاندانوں کو چار ماہ تک مستقل راشن دیا جائے ، مویشیوں کے چارے کے لئے ملیشیا سے پاما کیک منگوایا جائے اس چارے میں ضروری وٹامن موجود ہیں، انکا کہنا تھا کہ اس وقت تھر میں قحط سالی نہیں مگر میڈیکل ایمرجنسی موجود ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کی طرف سے تھرپارکر ضلع کے بچوں کو خوراک کے اس پروگرام میں شامل کیا جائے، تھرپارکر میں پینے کا پانی سب سے زیادہ مشکل معاملہ ہے اس کے لئے کھارے کنوؤں میں آر او پلانٹ نصب کئے جائیں ، تھر کے لوگوں کو کاشتکاری کے لئے بیج مہیا کئے جائیں اور فوڈ فار ورک پروگرام شروع کیا جائے جس میں مشینری کے بجائے لوگوں کی افرادی قوت کو استعمال کیا جائے تاکہ لوگوں کو روزگار مہیا کیا جاسکے ۔

ڈاکٹر عرفانہ ملاح (سربراہ ویمن ایکشن فورم)

تھر میں روزگار کے مواقع نہ ہونا اورلوگوں میں بھوک اور غذائی کمی سے بڑے پیمانے پرنقل مکانی ہورہی ہے ، انہوں نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ کیا آج کے جدید دور میں بھی تھر کی ایسی صورتحال رہنی چاہیے؟ پہلی مرتبہ میڈیا نے تھر کے لوگوں کے بنیادی مسائل کو اہمیت دی ہے جس سے تھر کے لوگوں کی کچھ مدد ہونے کا امکان پیدا ہوا ہے ، اسی لئے حکمران تھر ی لوگوں کے مسائل کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔



اسی صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکمرانوں پر اس بات کا دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے کہ تھر کے لوگوں کے مسائل عارضی امداد دینے سے نہیں بلکہ مستقل طور پر بنیادی مسائل حل کرنے والی پالیسی بنانے سے حل ہوں گے ، تھر کے مسائل چند آفیسروں کی برطرفیوں سے حل نہیں ہونگے بلکہ ایک طویل پلاننگ سے ختم ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ یہ غربت ہی کی بیماری ہے۔بچوں اور عورتوں میں بیماری سے لڑنے کی قوت مدافعت ہی نہیں۔ سیاست غربت پر ہی کی جاتی ہے اور اب تھر کے لوگوں کی غربت پر سیاست بھی لازمی طور پر ہوگی۔ روٹی ، کپڑا ، مکان ایک لمبے عرصے سے سیاسی نعرے رہے ہیں ، تھر میں اس وقت میڈیکل ایمرجنسی نہیں بلکہ غربت کی ایمرجنسی ہے، ہمارے یہاں حکمرانی ، سیاست اور پالیسی کا بھی ڈزاسٹر ہے۔

دستگیر بھٹی (تجزیہ کار)

تھر میں وزیراعظم نواز شریف کی دلچسپی وہاں کے لوگوں سے نہیں بلکہ تھر میں موجود کوئلے سے ہے وہ سندھ میں اور جگہ ہونے والے مسائل پر کوئی دلچسپی نہیں لیتے، سندھ کی جانب سے ٹیکس کی مد میں دی جانے والی رقم کے عوض وزیراعظم کے ایک ارب روپے کا موجودہ پیکیج اس رقم کے زیرو فیصد کے برابر بھی نہیں ہے۔



ایکسپریس گروپ کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایکسپریس نے تھر کے مسائل پر خصوصی توجہ دی ہے جس کے باعث حکمران تھر کی طرف متوجہ ہوئے ہیں ، تھر کے مسائل سندھ کے مسائل سے جڑے ہوئے ہیں اور سندھ میں اچھا طرز حکمرانی نہ ہونے کی وجہ سے مسائل روز بروز بڑھ رہے ہیں، تھر اس بات کا واضح ثبوت ہے۔

پروفیسر محمد اسماعیل کمبھر

سندھ کے ایرڈ زون کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے جو سندھ کا 62 فیصد ہے ، تھر کے بعد سندھ کے اور ایرڈ زون کے مختلف علاقوں میں بھی ایسی ایمرجنسی کا امکان ہے اس سے پہلے کہ وہاں ایمرجنسی ہو ان مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے ، انہوں نے کہا کہ اس وقت سندھ میں گندم کی کٹائی ہورہی ہے ، غذائی ایمرجنسی نافذ کرکے غذائی کمی والے علاقوں میں گندم مہیا کی جائے۔



تھر میں امدادی طور پر دی گئی ایک لاکھ بیس ہزار بوریوں کے معیار کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ فوڈ ڈیپارٹمنٹ نے خراب گندم انہیں نہ بھیج دی ہو۔ اس کے علاوہ گندم کے لوگوں تک تقسیم ہونے والے عمل پر بھی نظررکھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ سندھ کے ایرڈ زون کے متعلق(جس میں تھر، نارہ اور کوہستان شامل ہیں) ایک بورڈ بنایا جائے اور ان علاقوں کے نوجوانوں کو فنی مہارت مہیا کرنے کے لئے ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ قائم کئے جائیں، برسات کے دوران ہونے والی پیداوار کو محفوظ کرنے کے لئے جدید طریقے متعارف کروائے جائیں۔

ذوالفقار ہالیپوٹو (کالم نگار)

تھر کا علاقہ ہندوستان کی سرحد کے ساتھ ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ ہائی سیکیورٹی رسک بنا ہوا ہے اس وجہ سے حکومتوں نے اس علاقے میں ترقی کے حوالے سے کوئی توجہ نہیں دی جبکہ ہندوستان کے اطراف والے علاقے راجستھان میں بڑی ترقی دیکھی جاسکتی ہے، ہمیں اس ترقی سے سیکھنے کی ضرورت ہے، اس ملک میں محترمہ بینظیر بھٹو جیسی سیاستدان کو بھی نہیں بچایا جاسکا تو تھر کے لوگ ان کے لئے کیا اہمیت رکھتے ہیں؟



انہوں نے کہا کہ عالمی اداروں نے سندھ میں قدرتی آفات کے متعلق پہلے ہی آگاہ کردیا تھا جس میں تھر کی نشاندہی بھی کی گئی تھی اس کے باوجود ہمارے حکمرانوں نے اس نشاندہی کو نظر انداز کردیا ، 18ویں ترمیم کے بعد سندھ حکومت نے کوئی نئی پالیسی نہیںبنائی، سندھ کی سول سوسائٹی کو حکومت کے اس رجحان پر تنقید کرنی چاہیے۔ انہوں نے تجویز دی کہ امدادی کاموں کی نگرانی کے لئے تھر میں دیہاتوں کی سطح پر وجیلینس کمیٹیاں بنائی جائیں۔

عباس کھوسو (سول سوسائٹی کے رہنما)

اس ضلع میں نہ صرف سرکاری ملازم باہر سے آتے ہیں بلکہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران بھی باہر سے لائے جاتے ہیں۔ تھر میں لائیو اسٹاک ہی قیمتی سرمایہ ہے اور ان قیمتی جانوروں کی اموات نے تھری لوگوں کی معاشی حالت خراب کردی ہے، ورلڈ فوڈ پروگرام کی جانب سے حاملہ عورتوں کو دیے جانے والے گھی سمیت تمام تر امداد کئی سالوں سے بند ہے جس کو فوری طور پر بحال کیا جائے۔



انہوں نے 1999ء میں آغا خان فاؤنڈیشن کی جانب سے کئے گئے ایک سروے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تھر میں وٹامن اے کی کمی کی وجہ سے تھر کے بتیس فیصد بچوں کی بینائی خراب ہوچکی ہے ، اس کے علاوہ آئیوڈین ، کاربوہائیڈریٹ ، ایلیمونیا کی بھی تھر کے لوگوں میں بڑی کمی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے امداد کی شفاف اور منصفانہ تقسیم کے لئے مقامی لوگوں پر مشتمل کمیٹیاں بنانے پر زو ر دیا۔

سلیمان جی ابڑو (سماجی تنظیم سافکو کے صدر)

ہمارے یہاں دیہی اور شہری علاقوں کی ترقی میں ایک بڑی خلیج موجود ہے اسی وجہ سے تھر کے لوگوں کی بنیادی ضروریات اور ان کے مسائل پر توجہ نہیں دی جاسکی۔ اسی لئے اب وہ مسائل آفت کی صورت اختیار کرگئے ہیں۔ تھر میں چراگاہوں کو حکومت کی طرف سے ڈکلیئر کرکے بچانے کی ضرورت تھی مگر ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ چراگاہوں کے تباہ ہونے سے مویشیوں پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے اور اسی نے تھر کی معاشی صورتحال کو تباہ کردیا۔ تھر کا دوسرا بنیادی مسئلہ پینے کے پانی کی فراہمی نہ ہونا ہے حکومت رین ہارویسٹ ٹیکنالاجی کی مدد سے تھر میں پینے کے پانی کا مسئلہ حل کرسکتی تھی جو نہیں کیا گیا۔



تھر کی تیز ہواؤں سے کتنے ہی فائدے حاصل کئے جاسکتے تھے مگر آج تک کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا گیا، سندھ میں لائیو اسٹاک کا شعبہ نہ صرف موجود ہے بلکہ اس کے لئے علیحدہ بجٹ بھی ہے، اس کے باوجود بھی تھر کے جانوروں کے لئے کسی قسم کی ویکسین کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا اور اسی لئے لاکھوں کی تعداد میں جانور وں کی اموات ہوئیں۔ اس وقت سندھ کے بیراجی علاقوں میں گندم کی کٹائی کا موسم ہے اسی لئے تھر سے ہر سال بیراجی علاقوں میں آمد ایک معمول کا حصہ ہے۔



بیراجی علاقوں سے گندم لے جائی جاتی ہے اور مویشیوں کو چارہ مہیا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تھر میں قحط سالی کو حکمرانوں نے سہی طریقے سے آج تک اہمیت نہیں دی اور اس معاملے کو سیاسی ایشو بنا دیا گیا ہے۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ وزیراعظم کی طرف سے دیئے گئے ایک ارب روپوں کو کس مد میں خرچ کیا جائے گا کیونکہ لوگوں کے مسائل صرف گندم ملنے سے حل نہیں ہونگے، لوگوں کے اور بھی کتنے ہی مسائل ہیں۔ تمام اضلاح میں گاؤں کی سطح پر تعلیم ، صحت اور ترقی کے لئے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ ایرڈ زون اتھارٹی کو ختم کرنے کے بعد اس کی جگہ کوئی متبادل ادارہ نہیں بنایا گیا، تھر معدنیاتی وسائل سے مالا مال ہے اس معدنیات کے حوالے سے وہاں کے لوگوں کو روزگار مہیا کیا جائے اور موجودہ ضروریات کے مطابق ترقی کی منصوبہ بندی کی جائے۔

شرکاء فورم کی تجاویز
٭ کاشتکاری کیلئے بیج مہیا کیے جائیں
٭ روزگار کیلئے مشینری کی جگہ افرادی قوت استعمال کی جائے
٭ نوجوانوں کو فنی مہارت مہیا کی جائے
٭ برسات کا پانی محفوظ کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں
٭ امدادی کاموں کی نگرانی مقامی کمیٹیاں کریں
٭ تھر ڈویلپمنٹ اتھارٹی قائم کی جائے
٭ جانوروں کیلئے ویکسینیشن کا انتظام کیا جائے
٭ معدنی وسائل سے فائدہ اٹھایا جائے
٭ ایک لاکھ خاندانوں کو چار ماہ تک مستقل راشن دیا جائے

مقبول خبریں