مزدوری پر مجبور بچے کی زندگی کی کہانی

ڈھلتی عمر، جھکتی کمر والا مزدور باباآج بھی چکوال مزدور منڈی کی طرف جارہا تھا جہاں اسکی کمزور جسامت اور ضعیف العمری۔۔۔


ہمارے ملک میں اڑھائی کرورڑ بچے، بچیاں اسکولوں سے باہر یعنی تعلیم سے محروم ،ہنر سے دور اور عدم تحفظ کا شکا ر ہیں. فوٹو: آئی این پی

ڈھلتی عمر ،جھکتی کمر والا مزدور باباآج بھی چکوال مزدور منڈی کی طرف جارہا تھا جہاں اسکی کمزور جسامت اور ضعیف العمری کے نتیجے میں ایک اور ناکامی نے اسکا مقدر بننا تھا ،دیہاڑی کے حصول میں ناکامی،جسے وہ گزشتہ کئی برسوں سے برداشت کر رہا تھا۔اسے یہ سب سہنے کی عادت ہوچکی ،روز کا چڑھتا سورج مزدور بابا کونئی آ س دیتا ہے یا میرے اس شعر کی طرح کچھ ایسا ہے؟

روز سجائے آنکھوں میں ملتا ہوں میں لوگوں سے
شاید کوئی آنکھوں والادیکھ لے میرے خوابوں کو

قریب ساٹھ برس کے اس مزدور بابا کو میں برسوں سے جانتا ہوں ۔بچپن میں مزدوری پر مجبور ہوا ،جوانی میں ہنر سے محرومی رہا اور اب بڑھاپا مزدور منڈی کی طرف قدم اٹھاتے گزر رہا ہے۔ آج صبح بھی وہ سر جھکائے تھکے ہوئے قد موں سے چلتا کچھ سوچ رہا تھا۔شاید یہ کہ

کیا کچھ بھی نہیں میں نے فقط وہ دن گزارے ہیں
جو قرض تھے میرے اوپر میری سانسوں کی جانب سے

زندگی کا ہے کیا مقصد مجھے معلوم نہ ہو پایا
کہ میں محرو م ہی رہا تھا علم سے لوگو

میں کچھ حصہ اچھائی کا دنیا میں لگا جاتا
جو میرے جیون کے مقصد کو کسی حد تک نبھا جاتا

مگر افسوس ہے اس پرمیں کچھ ایسا کر نہیں پایا
بے ترتیب سی زندگی مکمل ہی گزار آیا

قصور میر ا بھی ہوشاید
ہے معاشرے کا بہت لیکن

مجھے تعلیم کوئی دیتا رستہ تو کوئی دیتا
میں روشن خو د کو کر کے پھرنور ہی نور پھیلاتا

اب عمر ڈھلتی ہوئی ہے اور سانسیں آج اکھڑی سی
عرش کے سائے میں میں نے جو فرش پر دن گزارے ہیں
تلخ ہی سہی ان کے تجربے نے بتایا ہے
تو سب کچھ ہار آیا ہے تو سب کچھ ہار آیا ہے



باباجی توپینتالیس برس قبل چائلڈ لیبر کا شکار ہوئے اورتما م عمر حقوق سے محروم رہنا پڑا۔مگر آج اتنے لمبے عرصے کے بعد جب دنیا گلوبل ولیج بن چکی اور اقوام عالم تعلیمی ،سائنسی میدانوں سمیت ہر میدان میں ترقی کی منازل طے کر رہی ہیں، ہمارے ملک میں اڑھائی کرورڑ بچے، بچیاں اسکولوں سے باہر یعنی تعلیم سے محروم ،ہنر سے دور اور عدم تحفظ کا شکا ر ہیں۔ترقی کی دوڑ اوراس صورتحال سےنتیجہ اخذ کرنا دشوار نہیں ہے کہ چائلڈ لیبر کے شکار یہ بچے تعلیم و ہنر سے دوری کے باعث ایک اچھے اور کارآمد شہری بننے کے بجائے معاشرے کا ناسور بنتے جارہے ہیں۔

پینتالیس برس قبل پاکستان نے بچوں کے حقوق کے عالمی معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے آرٹیکل25A کے تحت5سے 16 سال کے سب بچے بچیوں کو تعلیم کی مفت فراہمی حکومت کی لازمی ذمہ داری ہے۔پھرایسا کیوں ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں بچے تعلیم و ہنر جیسے بنیادی حقوق محروم ہیں ۔اس کا ذمہ دار کون ہے والدین ،معاشرہ یا ہماری حکومت آج اس پر سوچیے گا ضرور۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

مقبول خبریں