میرٹ، مینڈیٹ اورمنی ڈیٹ

سعد اللہ جان برق  جمعرات 11 اگست 2022
barq@email.com

[email protected]

ایک تھامیرٹ۔بڑاخوبصورت نوجوان تھا، والدین نے اسے بڑی محنت سے پڑھایا،لکھایاتھا کیوں کہ اس زمانے میں لوگ کہتے تھے کہ  ؎

کھیلو گے کودوگے ہوگے خراب

پڑھوگے لکھوگے تو ہوگے نواب

لیکن بیچارے ’’میرٹ‘‘کی قسمت میں نواب ہونا نہیں لکھا تھا بلکہ ہلکی ہلکی بٹواری سیاہی کے ساتھ خراب لکھا تھا کیوں کہ اس عرصے میں کھیلنے کودنے والے نواب بن چکے تھے اوران کاترانہ بھی بدل گیا تھا۔

پڑھو گے لکھوگے تو ہوگے خراب

کھیلو گے کودوگے تو بنوگے نواب

کیوں کہ بات اس لکھنے، پڑھنے کی نہیں، کھیلنے کودنے کی بن گئی تھی، جماعتوں، کلاسوں اورڈگریوں کی بجائے ’’انڈوں‘‘ کی ہوگئی چنانچہ کھیلنے کودنے والے گلیوں گلیوں پھر کرانڈے بٹورتے تھے اورایک ٹوکری میں جمع کرتے تھے جسے ’’مینڈیٹ‘‘ کہاجاتاتھا ،بیچارا میرٹ جہاں بھی کوئی نوکری تلاش کرنے جاتاتھا اور اپنی ڈگری دکھاتاتھا وہاں مینڈیٹ پہلے ہی اپنی ٹوکری دکھا کر قابض ہوچکاہوتاتھا۔

نوویکنسی کی جگہ کچھ نہ ہاتھ آئے گا

اس طرح جاب گریزاں کانہ پیچھا کیجیے

بیچارامیرٹ دیکھتارہا اورمینڈیٹ آگے بڑھ بڑھ کر فتوحات حاصل کرتارہا ،قبضے جماتارہا اورکھیلنے کودنے والوں کو نواب بناتارہا، آخر کاروہ دن بھی آگیا جب میرٹ کے لیے اورکوئی راستہ نہیں بچا تو اس نے ایک یونیورسٹی کے ٹاورسے لٹک کر خودکشی کرلی، بعض لوگوں کاکہناہے کہ پہلے اس نے خود کو گولی ماری پھر زہرکھایا پھر ٹاور سے لٹک گیا ۔بعض چشم دید اورچشمہ دید لوگوں کابیان ہے کہ یہ سب کچھ اس نے خود نہیں کیاتھا بلکہ مینڈیٹ نے اس کے ساتھ کیاتھا اوروہ بھی دن دہاڑے ۔خیرکچھ بھی ہواہو ہمیں اس سے کیا۔ ایک پشتو کہاوت ہے کہ میرے محبوب کو مار دیاگیا اب یہ پتہ لگانے سے کیاحاصل کہ بندوق سے مارایاپتھر سے یااینٹ یاڈنڈے سے ۔

یہ لاش بے کفن میرٹ خستہ جاں کی ہے

حق مغفرت کرے عجیب مردہ مرد تھا

لیکن سچ کہاہے کسی نے کہ ہرکمالے راز والے۔ہرعروج کے لیے زوال بھی مقدر ہے، کوئی کتنا ہی اوپر چڑھ جائے ایک دن اسے گرنا ہی پڑتا ہے، اونچے پہاڑوں کی برف کو بھی ایک دن سمندر میں جاگرنا ہوتاہے ۔

چمکے تو ہے سورج کی طرح حسن تمہارا

پر یہ بھی سمجھ رکھیو کہ سورج بھی ڈھلے ہے

مینڈیٹ کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن اس کے اپنے ہی پتے ہوادینے لگیں گے ۔ہرن کے خوبصورت سینگ ہی اسے پھنسالیں گے چنانچہ مینڈیٹ کی اپنی جڑوں سے منی ڈیٹ نام کی بلانکل آئی۔ مین ڈیٹ بمقابلہ منی ڈیٹ یعنی نہ ہاہا نہ ہے ہے۔ سیدھا ساداسودا۔اس ہاتھ لو اس ہاتھ دو۔ باقاعدہ نیلامی کھلے عام بولی اورڈن۔

ہم ایسے دوبھائیوں کو جانتے ہیں جن میں ایک نے اپنے حصے کی زمین بیچ کر بیٹے کو اعلیٰ تعلیم دی جب کہ دوسرے کابیٹا آرام سے یہاں وہاں کھیلتاکودتارہا اورجب ساری غیرنصابی سرگرمیوں سے جی اچٹ گیا تو افسری کرنے کو من چاہا، اس کے باپ نے اپنے بھائی سے کم زمین بیچ کر ’’منی ڈیٹ‘‘بنایا اوربیٹے کو افسر بنادیا اوروہ ساری زمین بیچ کر پڑھنے والا ابھی تک جوتے چٹخارہاہے ۔

سیف الملوک بدیع الجمال نام کی ایک داستان میں کہاگیاہے کہ سیف الملوک نے بدیع الجمال کو حاصل کرنے کے لیے لوہے کے بارہ جوڑے جوتے گھسائے تھے تب کہیں جاکر اسے بدیع الجمال تک پہنچنے میں کامیابی ملی۔

خوش قسمت تھا کہ اس زمانے میں ’’منی ڈیٹ‘‘ ابھی پیدانھیں ہواتھا ورنہ سیف الملوک سے پہلے ہی بدیع الجمال کو اڑالے جاتا اورسیف الملوک کاوہی حال ہوتا جو آج میرٹ کاہے ۔

موجودہ ریاست مدینہ کی صوبائی شاخ ۔جہاں صوبیداراعلیٰ کے مطابق حضرت عمرؓ جیسی طرزحکومت رائج ہے اس نے تو ’’منی ڈیٹ‘‘ کو اتنا واضح اورکھلے عام کردیاہے کہ ؎

باقی رہانہ کوئی تماشا ترے بغیر

سونی ہے اب نگاہ میں دنیاترے بغیر

بچے بچے کو باقاعدہ پتہ ہے کہ کس نوکری کے لیے کونسا ریٹ چل رہاہے، اس لیے میرٹ اورمینڈیٹ اب دونوں ہی منہ چھپائے پھرتے ہیں اورہرجگہ منی ڈیٹ ہی کابول بالا ہے۔بلکہ اب تو ’’منی ڈیٹ‘‘ کی ایک مستقل زنجیرسی بن چکی ہے، منی ڈیٹ سے پڑھاؤ، منی ڈیٹ سے ہی ڈگری دلاؤ اورپھر منی ڈیٹ ہی سے منی ڈیٹ کی دنیا میں داخل کردو ،وہی ڈریکولا جیسا معاملہ ہے کہ جسے ویمپائر کاٹتاہے، وہ بھی ویمپائربن جاتاہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔