مردِ حُریت؛ سید علی گیلانی

رضوان احمد صدیقی  جمعرات 1 ستمبر 2022
سید علی گیلانی ایک فرد کا نہیں بلکہ ایک سوچ، ایک تحریک کا نام تھا۔ (فوٹو: فائل)

سید علی گیلانی ایک فرد کا نہیں بلکہ ایک سوچ، ایک تحریک کا نام تھا۔ (فوٹو: فائل)

مقبوضہ کشمیر کی آزادی کےلیے اپنی زندگی وقف کردینے والے مردِ حُریت سید علی شاہ گیلانی کی شہادت کو آج ایک سال مکمل ہوگیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہ لوگ جو عظیم مقاصد کےلیے اپنی زندگی تیاگ دیں اور اپنی قوم کی آزادی کےلیے قربانیاں دیں، وہ کبھی مرتے نہیں۔ بلکہ اپنے افکار و خیالات سے اپنے پیروکاروں اور قوم کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ سید علی گیلانی بھی کشمیریوں کے جذبۂ آزادی کی صورت آج بھی زندہ ہیں۔

29 ستمبر 1929 کو شمالی کشمیر کے قصبے سوپور میں پیدا ہونے والے علی گیلانی اپنی عمر کے 92 ویں سال میں بھی قابض بھارتی فوج کے سامنے مردِ آہن ثابت ہوتے رہے۔ علی گیلانی ایک دہائی سے بھی زائد عرصے تک بھارتی فورسز کی غیر قانونی نظربندی میں رہے لیکن یہ قید و بند بھی ان سے آزادی اور مزاحمت کی سوچ جدا نہ کرسکی۔ بھارتی حکومت نے اس آزادی کے طلبگار مجاہد کو حراست میں تو رکھ لیا لیکن اس جذبے اور ایمان کو قید رکھنے میں ناکام رہی جو لاکھوں کشمیریوں کے دلوں میں موجزن ہے۔ یہی وجہ تھی کہ یکم ستمبر 2021 کو سری نگر کے حیدرپورہ میں اپنی رہائش گاہ میں زیر حراست طبعی موت پانے والے علی گیلانی کے جسدِ خاکی سے بھی بھارتی حکومت خوفزدہ تھی۔

سید علی گیلانی نے کشمیر کو پاکستان کا قدرتی حصہ قرار دیتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا قرار دیا تھا اور زندگی بھر اپنے موقف پر قائم رہے۔ گیلانی نے آزادی کی مسلح تحریک کی حمایت کرتے ہوئے اسے کشمیریوں کی طرف سے ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کے مصداق قرار دیا۔ گیلانی ہمیشہ اعادہ کرتے رہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل ہونا ہے اور ’اگر اس میں دلی کو دِقت ہے تو پاکستان، انڈیا اور کشمیری قیادت کے درمیان بیک وقف سہ فریقی بات چیت بھی ایک متبادل ہے۔‘

سید علی گیلانی درجن سے زائد کتب کے مصنف بھی تھے۔ اپنے سخت گیر سیاسی نظریات کی بنا پر ان کی زندگی کا بڑا حصہ قید و بند میں گزرا تھا، انھوں نے ’’رودادِ قفس‘‘ کے نام سے دو جلدوں پر مشتمل ڈائری بھی تحریر کی۔ اس کے علاوہ سیکڑوں کتابچے اور بڑی تعداد میں مضامین تحریر کیے جن کے موضوعات سیاسی، سماجی اور مذہبی موضوعات اور دیگر مسائل کا احاطہ کرتے ہیں۔ وہ ایک شعلہ بیان مقرر اور مبلغ بھی تھے۔ سید گیلانی کو کشمیر کی مزاحمتی تحریک کے بزرگ قائدین میں شمار کیا جاتا ہے۔

سید علی شاہ گیلانی نے اپنے سیاسی سفر کی باقاعدہ ابتدا 1950 میں کشمیریوں کی تحریک مزاحمت سے عملی طور پر وابستہ ہونے کے بعد کی اور اس کے بعد وہ کبھی پس منظر میں نہیں گئے۔ گیلانی جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر کے ایک رکن بھی تھے جو بعد ازاں جماعت کے سینئر رہنماؤں میں شمار ہونے لگے تھے لیکن 2003 میں انھوں نے جماعت اسلامی کی کشمیر کے مسئلے کے حوالے سے بدلتی ہوئی سوچ سے اتفاق نہ کرتے ہوئے علیحدگی اختیار کرلی اور ’’تحریک حریت جموں و کشمیر‘‘ کے نام سے نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔ 1964 میں انھیں پہلی بار کشمیریوں کی تحریک مزاحمت کے دوران قید کیا گیا تھا۔ گیلانی استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کے اتحاد حریت کانفرنس کے چیئرمین بھی رہے، لیکن یہ اتحاد اپنے قیام کے دس برس بعد دو دھڑوں میں تقسیم ہوگیا تھا۔

کُل جماعتی حریت کانفرنس کے جس دھڑے کی وہ قیادت کررہے تھے، غیر متوقع طور پر 29 جون 2020 کو انھوں نے اُس دھڑے سے علیحدہ ہونے کا اعلان کردیا، حالانکہ انھیں حریت کانفرنس کا تاحیات چیئرمین مقرر کردیا گیا تھا۔

سید علی گیلانی کو 2020 میں پاکستان کے سویلین ایوارڈ ’’نشانِ پاکستان‘‘ سے بھی نوازا گیا۔ انھیں بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں اسلام پسند اور ریاست کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے حامی حلقے کا ترجمان سمجھا جاتا تھا۔ بلاشبہ انھوں نے گزشتہ کئی دہائیوں پر محیط اپنے سیاسی کیریئر میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں اسلام پسند اور پاکستان حامی سیاسی کیمپ کو فعال رکھنے میں اہم اور کلیدی کردار ادا کیا۔

سید علی گیلانی ایک فرد کا نہیں بلکہ ایک سوچ، ایک تحریک کا نام ہے۔ بھارتی حکومت گیلانی کی زندگی میں بھی ان کی قائدانہ صلاحیتوں سے خوفزدہ رہی اور ان کی موت کے بعد بھی آزادی کے پروانوں کے خوف سے ان کی میت کی آخری رسومات سے خوفزدہ تھی۔ بھارتی حکومت نے سید علی گیلانی کے اہل خانہ کو ان کی تدفین بھی نہ کرنے دی اور قابض افواج کی بھاری نفری نے سری نگر میں ان کی رہائش گاہ پر چھاپہ کر گیلانی کی میت کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا۔ بزرگ رہنما کی آخری وصیت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے رات کے وقت حیدر پورہ قبرستان کا شدید فوجی محاصرہ کرتے ہوئے انھیں خاموشی سے دفنادیا گیا۔

سید علی گیلانی کی رحلت سے خوفزدہ بھارتی حکام نے پورے علاقے کو گھیرے میں لے کر لوگوں کی نقل و حرکت پر سخت پابندیاں عائد کیں اور گیلانی کی تدفین کے اپنے گھناؤنے اقدام کو امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کےلیے جائز قرار دینے کی کوشش کی لیکن بھارت کے دیگر ہزاروں غیر قانونی اقدامات کی طرح یہ عمل بھی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی تھا۔ دیگر کشمیری رہنماؤں نے بھی اسے انتہائی متعصبانہ معاملہ اور مسلم آبادی کو سزا دینے کی بھارتی کوشش قرار دیا۔ جبکہ 92 سالہ بزرگ کشمیری رہنما کی آخری رسومات اور تدفین کے معاملے میں بھارتی حکومت کی طرف سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے بھی مذمت کی اور اسے واشنگٹن پوسٹ اور رائٹرز جیسے اہم بین الاقوامی خبر رساں اداروں اور اخبارات نے کور کیا۔ پاکستان نے بھی سید علی گیلانی کی لاش چھیننے کے ہندوستان کے وحشیانہ عمل کی مذمت کی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔