سناٹے میں چیخ

عبداللطیف ابو شامل  اتوار 23 مارچ 2014
بھوک، پیاس، دکھ درد تھریوں کے ساتھ ہی رہتے ہیں ۔۔۔لیکن وہ مجسم صبر رہتے ہیں فوٹو : فائل

بھوک، پیاس، دکھ درد تھریوں کے ساتھ ہی رہتے ہیں ۔۔۔لیکن وہ مجسم صبر رہتے ہیں فوٹو : فائل

سناٹا اور اتنا گہرا۔۔۔ ہاں ایسا بھی ہوتا ہے ۔۔۔ ایسی جگہ جہاں انسانوں پر انسان خدا ہیں، پالنے والی تو رب کی ذات ہے، ہاں بس وہی، لیکن جہاں ارباب ہوں وہاں کیا ہوتا ہوگا۔۔۔ میں نہیں جانتا ۔۔۔ لیکن جانتا تو وہی ہے، جس پر بیت رہی ہو ۔۔۔ ہم تو بس صفحات کو سفید صفحات کو اپنے من کی سیاہی میں ڈبوتے رہتے ہیں ۔۔

یاد آیا ایک دن میں نے اپنے استاد سے جو ہمیں تختی پر لکھنا سکھاتے تھے، کہا، سر سیاہی ختم ہوگئی ہے اب میں تختی کیسے لکھوں ۔۔؟ ہاں یاد ہے مجھے مسکرائے تھے اور کہا تھا، بیٹا سیاہی کا مقدر ختم ہوجانا ہی ہے، لکھنا ہے تو روشنائی سے لکھو کہ جسے زوال نہیں ۔۔

وقت کی دھول سر میں ڈالتا، در بدر گھومتا پھرتا میں ایک اور جگہ پہنچا، جہاں میں نے سنا، چراغ تو بجھائے جاسکتے ہیں، پھونکوں سے نہ بجھ سکیں تو زورآور ہوائیں انہیں گل کردیتی ہیں۔۔۔ لیکن نور ۔۔۔ ہاں نور کو کوئی نہیں بجھا سکتا ہاں کوئی بھی نہیں کہ زوال بس تاریکی کا نصیبا ہے۔۔

ہم سب۔۔۔۔ نہیں سب کیوں، میں ہاں میں ہوں، تھر کی اس حالت کا ذمے دار ۔۔ اور کوئی نہیں ۔۔۔ میں پچھلے بیس برس سے تھر جاتا رہتا ہوں ۔۔۔ میں نے ان تھریوں کا نمک کھایا ہے جن کے پاس نمک خریدنے کے بھی پیسے نہیں تھے۔

ہاں میں نے ان کا نمک کھایا ہے ان کے گیت سنے ہیں ۔۔۔۔ انہوں نے اپنے حصے کا پانی مجھے پلایا، خود پیاسے رہے اور میری پیاس بجھائی ہے ۔۔۔ میں شہروں کے اذیت ناک خون آلود ماحول سے فرار ہوکر وہاں جاتا رہا ہوں اور وہ مجھے آسودہ اور تازہ دم کرکے واپس بھیجتے رہے ہیں اور اس اصرار کے ساتھ کہ میں واپس آؤں گا، اور میں جاتا بھی رہا اور وہ خندہ پیشانی اور کشادہ دل سے اپنے بازو وا کیے رہے، ہاں ہمیشہ ایسا ہی ہوا ۔۔۔

ان کے احسانات کی فہرست بہت طویل ہے، میں کیا کیا لکھوں ۔۔۔۔ لیکن کبھی انہوں نے مجھ سے کوئی تقاضا نہیں کیا ۔۔۔ کچھ بھی تو نہیں مانگا انہوں نے، کبھی نہیں، کبھی بھی تو نہیں ۔۔۔۔ تپتی ریت کے جہنم میں انہوں نے میرے لیے جنت بنائی ہوئی تھی ۔۔۔ کالی، مگر تاروں بھری رات میں وہ پیتل کی تھالی اور خالی مٹکے کو ساز بناتے اور گیت گاتے، سوز سے تو وہ خود بنے ہوئے ہیں، ہجر کے گیت، فراق کی آگ میں جلتے ہوئے گیت، محبوب اور برسات کو رجھانے والے گیت اور نجانے کیا کیا گیت، دل میں اتر جانے والے گیت، اکھیوں کو بگھو دینے والے گیت۔۔

سوتے سمے، وہ میرے لیے دودھ بھرا پیتل کا کٹورا لاتے اور پیار سے کہتے، سائیں ہمارا سب کچھ آپ کے لیے حاضر ہے، لیکن سائیں، ہمارے پاس یہی کچھ ہے، بس قبول کریں ۔۔۔

میرا سن کر نہ جانے کتنے کوسوں سے کوئی تھری آتا، ہاں ننگے پاؤں،’’بس سائیں آپ کا سنا کہ آئے ہیں تو ملنے آگیا‘‘، آپ میری حاضری قبول کریں، اور جاتے سمے وہ ہاتھ جوڑ کر کہتا، سائیں حاضری قبول۔۔۔۔ اتنی عاجزی تو میں نے کہیں اور نہیں دیکھی۔۔۔ میں ان کی آنکھوں میں نمی اس وقت بھی دیکھتا تو تھا، لیکن میں سوچتا کہ ان کی آنکھیں ریت کی چنگاریاں، جو تھر میں اڑتی رہتی ہیں، کی وجہ سے نم ہوں گی ۔۔۔۔ بینا دیکھتے ہیں اور میں کہاں ہوں بینا، ہاں خالق نے ہی تو کہا ہے کہ ان کی آنکھیں ہیں لیکن یہ دیکھتے کہاں ہیں، ان کے کان تو ہیں لیکن سماعت سے محروم ۔۔۔۔ ہندو مسلم ہاں دونوں ہی میرے دوست ہیں ۔۔۔ ایک ہی محلے میں رہنے والے۔۔۔

جن کی جھونپڑیاں، جنہیں وہ گھاس پھونس سے بناتے اور انہیں چونرا کہتے ہیں، ساتھ ساتھ تھیں اور تھیں کیا اب بھی ہیں ۔۔۔ کوئی ایک دوسرے کو برا نہیں کہتا ۔۔۔ عید دیوالی ساتھ ساتھ، ہاں ایسا ہی ہے ۔۔۔ عیدِقرباں قریب تھی، جب میں تھر میں تھا، میں نے اپنے دوست جان محمد، جسے ہم جانو کہتے ہیں، جو مجھے اپنے بچوں کی طرح پیارا ہے، کے چونرے میں مقیم تھا ۔۔ میں نے اس کے والد، جنہیں میرے بچے دادا کہتے ہیں، سے پوچھا۔۔۔ بابا سائیں عید آگئی ہے، آپ کس جانور کی قربانی کریں گے۔۔۔؟ ’’تو بڑا چریا ہے، دیکھ نہیں رہا کتنی بکریاں اور بکرے گھوم رہے ہیں۔

بس کر لیں گے قربانی ۔۔۔۔‘‘ میں نے کہا بابا سائیں گائے کی قربانی کیوں نہیں ۔۔۔؟ پریشان ہوکر ادھر ادھر دیکھا اور قریب آکر رازدارانہ انداز میں کہا ۔۔۔ ’’دیکھو! ہم یہاں گائے کی قربانی نہیں کرتے ۔۔۔‘‘ میں نے پوچھا کیوں۔۔۔؟ تو کہا، ’’اس لیے کہ ہندو ہمارے بھائی ہیں اور ان کے لیے گائے مقدس ہے۔ ہاں گؤماتا کہتے ہیں وہ اسے، اس لیے ہم گائے کی قربانی نہیں کرتے۔۔۔۔‘‘ حیرت سے پوچھا، کیا آپ نہیں کرتے یا۔۔۔۔ ابھی میرا سوال ادھورا تھا کہ بابا سائیں بولے، ’’پورے تھر میں ایسا ہی ہوتا ہے اور اب سے نہیں سدا سے ایسا ہی ہے۔۔۔‘‘ رواداری کسے کہتے ہیں یہ مجھے اس دن معلوم ہوا تھا۔۔۔ لچھمن داس اور ماماشیرو، دین محمد اور رام لعل، در محمد اور کیلاش اگر ساتھ بیٹھے کھانا کھارہے ہوں، ایک ہی کٹورے سے پانی پی رہے ہوں، ایک سا لباس پہنے ہوئے ہوں، تو کون پہچان پائے گا کہ ہندو کون ہے اور مسلم کون۔۔۔ جب شادی بیاہ میں، دکھ سکھ میں، رونے ہنسنے میں سب ایک جیسے ہوں تو کون پہچان پائے گا کہ کون ہندو ہے اور کون مسلم، اور پھر جب درد سانجھا اور بھوک ایک جیسی ہو تو پھر رہ جاتا ہے، بس انسان اور درد۔ تھر میں ایسی ہی رواداری ہے، ہاں کبھی کبھی سننے میں ضرور آتا ہے کہ کوئی ساہوکار وڈیرا کسی معصوم کو روند دیتا ہے ۔۔۔ لیکن اس مظلوم کے درد کا مداوا نہ بھی کرسکتے ہوں، اس کے ساتھ کھڑے ضرور ہوتے ہیں، سب، کبھی اس کی سنگت نہیں چھوڑتے کہ بس یہی کچھ وہ کرسکتے ہیں۔۔

بھوک، پیاس، دکھ درد تھریوں کے ساتھ ہی رہتے ہیں ۔۔۔لیکن وہ مجسم صبر رہتے ہیں اور یہ یقین بھی رکھتے ہیں کہ ابر برسے گا اور بھوک پیاس کو صحرا میں دفن کر دے گا۔۔۔ اور جب برسات ہوتو پھر بے خودی کو سراپا دیکھا جا سکتا ہے تھر میں۔۔۔ تھری بے خود ہوجاتے اور مست ملنگ ناچتے ہیں کہ بارش وہاں زندگی کی علامت جو ہے۔۔۔ لیکن برسات بھی تو ساتھ نہیں دیتی اُن کا۔۔۔۔ بس برسی تو برسی نہیں تو نہیں۔۔۔ قناعت کیا ہوتی ہے، ہاں یہ آپ تھر میں دیکھ سکتے ہیں۔۔۔ میں نے اگر کبھی کسی کا قصیدہ پڑھا ہے تو وہ بس تھر ہی کے باسی ہیں، اخلاص ، محبت، اپنائیت کے پتلے۔۔۔ لیکن کیا بس یہی کافی تھا جو میں نے کیا ۔۔۔ ان کی بھوک کا مذاق اڑایا میں نے۔۔۔ مرتا چھوڑدیا انہیں ۔۔۔ موت تو سدا سے رقص کناں ہے وہاں۔۔۔ ہمیں ہوش کیوں نہیں آیا ۔۔۔ ہاں اس لیے جس تن لاگے وہ تن جانے۔۔۔۔ ہمیں کیا مرتے ہیں تو مریں۔۔ بھوک سے کہا ں مرے وہ ۔۔۔ وہ تو نمونیے سے مرے ہیں اور سب جانتے ہیں کہ نمونیا لاعلاج ہے کوئی دوا ہی نہیں دریافت ہوئی اس مرض کی۔

میری دیہاتی ماں نے بچپن میں ایک واقعہ سنایا تھا، ایک اﷲ والے تھے، رب نے ان کا رزق فراواں کیا ہوا تھا کہ جو رب کے بندوں کو دیتا ہے، رب اسے اس سے زیادہ اسے دیتا ہے، تو بس وہ تقسیم کرتے رہتے تھے اور رب سائیں اس تقسیم کو ضرب دے کر انہیں لوٹاتا رہتا تھا، ایک دفعہ ایک مفلوک الحال آیا اور تنہائی میں ملاقات کی التجا کی ، وہ فوراً مان گئے اور کہا بتاؤ کیا مسئلہ ہے تو وہ شخص آزردہ ہوکر بولا، جناب! بہت مشکل میں ہوں، گھر پر بچے بھوکے ہیں، پہلے تو قرض مل جاتا تھا اب تو وہ بھی نہیں ملتا، خود تو بھوکا رہنے کا عادی ہوگیا ہوں لیکن بچوں کی بھوک نہیں دیکھی جاتی۔

وہ اپنی بپتا سنائے جاتا تھا اور روئے جاتا تھا، بزرگ نے انہیں دلاسا دیا اور اپنے گھر سے اشرفیوں کی ایک تھیلی اسے لاکر دی اور کہا مجھے معاف کردینا، وہ سائل تو چلا گیا لیکن وہ بزرگ گھر آکر زاروقطار رونے لگے، احباب نے پوچھا کیا ہوا تو پورا واقعہ سنایا اور کہنے لگے، اس سائل کی عزت نفس میری وجہ سے تباہ ہوگئی۔ وہ سوال کی ذلت میں مبتلا ہوا، یہ کام تو میرا تھا کہ میں خود اس کی خبرگیری کرتا، میں نے اپنا کام نہیں کیا تو وہ سوال کی ذلت میں مبتلا ہوا۔ اس کی اس حالت کا ذمے دار میں ہوں۔ اب میں اپنے خدا کو کیا منہ دکھاؤں گا۔ میں نہیں جانتا کہ یہ واقعہ میں کیوں سنا رہا ہوں۔ شاید اس لیے کہ سوچ رہا ہوں اب ایسے بزرگ کہاں گئے۔ یہ جو ہمارے حکم راں ہیں۔۔۔۔ کیا کرتے ہیں یہ ۔۔۔۔ ساری قوم کو انہوں نے بھکاری بنا دیا ہے اور عمرے پہ عمرہ اور حج پر حج کیے جاتے ہیں، عوامی وسائل پر ڈاکا ڈالنے والے اب بھی بس اپنا پیٹ آسودہ کر رہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں سوائے اس کے۔

ویسے سچ پوچھیں تو ہمارے مزے آگئے اگر وہ نہ مرتے تو ہمارے کیمرے اداس رہتے اور وہ جو ہمارے گھروں میں کالا ڈبا جس کا نام ٹیلی وژن ہے اور اس ڈبے کے کتنے ہی بیٹے بیٹیاں ہیں جو چینلز کہلاتے ہیں، ان کا پیٹ کیسے بھرتا۔ تو صاحبو! تھریوں کی موت سے ہمارا پیٹ آسودہ ہونے لگا ہے اور شاید ہوتا رہے گا ۔۔۔ کیا آپ نے ایسے بھی لوگ دیکھے ہیں جو خود مرجائیں اور ہمارا پیٹ بھرنے کا انتظام کرجائیں ۔ ہاں ایسے ہی ہیں تھری۔۔۔ لیکن صاحبو! کچھ بھی تو نہیں رہے گا ۔۔۔ ہاں کچھ بھی تو نہیں ۔۔۔ بس نام رہے گا اﷲ کا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔