اسلام آباد پر لشکر کشی کا فائدہ ؟

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 12 اکتوبر 2022
tauceeph@gmail.com

[email protected]

اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی کردار ہے۔ آئین کی شق 60کی ذیلی شق A1 کی تشریح ہونی چاہیے۔ فواد چوہدری ابھی تک سابق وزیر اعظم عمران خان کے ترجمان ہیں۔

انھوں نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ عدالتی اصلاحات بے حد ضروری ہیں۔ فواد چوہدری نے اس ٹویٹ میں سیاسی بحران کے تناظر میں کچھ بنیادی نکات کا ذکر کیا ہے۔

ان کا بیانیہ ہے کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کا بنیادی کردار ہے، اسی سے ہی مذاکرات کرنے ہیں۔ حکومت سائڈ پر بیٹھی دہی کھا رہی ہے۔  پر امن انتخابات کے لیے اسٹیبلشمنٹ سمیت تمام اداروں سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں فواد چوہدری نے یہ بھی کہا کہ سیاست دانوں پر تاحیات پابندی کے قانون پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

انھوں نے کہا کہ آئین میں دی گئی صادق اور امین کی تشریح دوبارہ ہونی چاہیے۔ فواد چوہدری نے کہا کہ رانا ثناء اﷲ کو اپنے قد سے اونچی باتیں نہیں کرنی چاہئیں، فیصلے کرنے والے کوئی اور ہیں۔ فواد چوہدری نے ایسے وقت میں اپنے  خیالات کا اظہار کیا ہے جب سیاسی ماحول کشیدگی کی تمام سرحدیں عبور کر رہا ہے۔

ان کے قائد عمران خان اسلام آباد پر لشکر کشی کے لیے پنجاب اور خیبر پختون خوا کی یونیورسٹیوں میں دھواں دار تقاریر کر رہے ہیں۔

اب انھوں نے مذہبی کارڈ استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ اسلام آباد لشکر کشی کو ’’جہاد ‘‘ قرار دے کر جلسوں میں آنے والے افراد سے حلف لے رہے ہیں کہ وہ اس مقدس ’’جہاد ‘‘ کے لیے جان کی بازی لگا دیں گے۔ وہ یہ سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت کررہے ہیں مگر وہ اس حقیقت سے بے پرواہ ہیں کہ اس جنون کا حقیقی فائدہ کون اٹھائے گا۔

گزشتہ ماہ کا آخری عشرہ آڈیو ٹیپ کے سوشل میڈیا پر افشا ہونے میں گزرا۔ پہلے خود عمران خان اور ان کے معاونین کی آڈیو کی گردش سنائی دی۔ عمران خان اپنے بیوروکریٹ معاون کے ساتھ مل کر واشنگٹن سے ملنے والے سائفر کو سازش کے بیانیہ میں تبدیل کرنے کی حکمت عملی کو آخری شکل دے رہے ہیں۔

عمران خان اس آڈیو میں اس عزم کا اظہار کررہے ہیں کہ اب وہ اس سائفر سے کھیلیں گے اور یہ ہدایت بھی کررہے ہیں کہ کوئی امریکا کا نام نہ لے۔ ایک آڈیو وزیر اعظم ہاؤس کی افشا ہوئی۔

اس آڈیو میں وزیر اعظم شہباز شریف مریم نواز کی ان کے داماد کے نامکمل پاور پلانٹ کی مشینری بھارت سے درآمد کرنے کی سفارش کو مسترد کر رہے ہیں۔ اس آڈیو کے منظر عام پر آنے سے وزیر اعظم ہاؤس کی سیکیورٹی کے منہدم ہونے کے سوالات سامنے آئے اور اب ایک اعلیٰ افسروں پر مشتمل کمیٹی اس آڈیو کے بارے میں تحقیقات کر رہی ہے۔

عمران خان نے اپنی آڈیو کے افشا ہونے کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی قرار دیا اور یہ شکوہ کیا کہ نہ صرف ان کے ٹیلی فون ٹیپ ہو رہے ہیں بلکہ ان کی تیسری اہلیہ بشریٰ بی بی کی ٹیلی فون کال بھی کسی نے ریکارڈ کیں۔ انھوں نے اس کے ساتھ یہ بھی انکشاف کیا کہ جلد ہی مریم نواز کی آڈیو مارکیٹ میں آجائے گی جس میں وہ عمران خان کو الیکشن کمیشن سے نا اہلی کی خبر سنائیں گی مگر یہ آڈیو ابھی تک مارکیٹ میں نہیں آئی۔

وزیر داخلہ رانا ثناء اﷲ نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ انھوں نے عمران خان اور آزاد کشمیر کے وزیر اعظم کی ایسی وڈیوز دیکھی ہیں جنھیں اخلاقی اصولوں کے احترام کی بناء پر نشر نہیں کیا جاسکتا۔ اس پوری صورتحال کے تناظر میں عمران خان کی بصیرت کی نچلی سطح کا اظہار ہوتا ہے۔

گزشتہ سال جب اس وقت کی حزب اختلاف کے رہنما یہ واویلا کررہے تھے کہ ان کے ٹیلی فون ٹیپ ہورہے ہیں تو سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ایجنسیاں ان کے ٹیلی فون ٹیپ کرتی ہیں اور یہ سب کچھ سیکیورٹی کی بناء پر ہوتا ہے۔ اس پر اعتراض کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ فواد چوہدری کے اس بیانیہ کے پس منظر میں جانے کے لیے 1947ء کی تاریخ کو کھنگالنا پڑے گا۔ آل انڈیا مسلم لیگ بنیادی طور پر جاگیرداروں کی جماعت تھی جس میں سے اکثریت انگریزوں کے پروردہ تھا۔

بیرسٹر محمد علی جناح نے ان جاگیرداروں کو پاکستان کے مطالبہ کی حمایت کے لیے تیار کیا ۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد انگریزوں کی پالیسی میں بنیادی تبدیلی آئی۔ ہندوستان میں چلنے والی آزادی کی تحریک سے انھیں محسوس ہوا کہ برطانیہ اب ہندوستان پر قبضہ برقرار نہیں رکھ سکتا، یوں برطانوی ایمپائر نے ہندوستان چھوڑنے کا حتمی منصوبہ بنا لیا۔

1940 کی قرارداد لاہور کے بعد مسلم لیگ تمام مسلمانوں کی جماعت بن گئی۔ بیرسٹر محمد علی جناح کو آزادی کا ہدف حاصل کرنے کے لیے بیوروکریٹ غلام محمد اور چوہدری محمد علی کی مدد لینی پڑی۔ بیرسٹر جناح کو یہ احساس ہوگیا تھا کہ ان کے مرنے کے بعد بیوروکریسی عسکری قوت کے ذریعہ راج کرے گی۔

انھوں نے یہ بات محسوس کرتے ہوئے جون 1948 کو اسٹاف کالج کوئٹہ میں تقریر کی۔ اس تقریر میں انھوں نے فوجی جنرلوں کو ان کا حلف پڑھ کر سنایا۔ اس حلف کے تحت فوجی کا کام قانونی حکومت کی پاسداری کرنا ہے۔ پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے قتل کے بعد غلام محمد اور چوہدری محمد علی جنرل ایوب خان کی حمایت سے ملک کا نظام چلانے لگے۔ اس بیوروکریسی نے پاکستان  بنانے والے اکثریتی صوبہ مشرقی بنگال کو ان کے حقوق سے محروم رکھا۔ پھر اسکندر مرزا اور ایوب خان نے عسکری آمریت کی بنیاد رکھی۔

1970کے عام انتخابات میں عوامی لیگ مشرقی بنگال اور سندھ اور پنجاب سے پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی۔ یہ وقت پاکستان کو 1940ء کی قرارداد لاہور کی بنیاد پر حقیقی کنفیڈریشن بنانے کا تھا مگر ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل یحییٰ خان کی مشرقی بنگال پر فوج کشی کی حمایت کی، یوں اکثریتی صوبہ بنگلہ دیش بن گیا۔

پیپلز پارٹی اور بائیں بازو کے کارکنوں نے جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف تاریخی جدوجہد کی مگر 1988میں بے نظیر بھٹو جنرل اسلم بیگ اور غلام اسحاق خان سے معاہدہ کے تحت اقتدار میں آئیں، یوں اسٹیبلشمنٹ مضبوط رہی۔ 18ماہ بعد کرپشن کے لاحقہ کے ساتھ ان کی حکومت رخصت کردی گئی۔

بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے 2005 میں میثاق جمہوریت پر اتفاق کرکے 1973 کے آئین کے تحت جمہوری حکومت کی ریاست پر بالا دستی کے لیے راستہ ہموار کیا تھا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے جنرل مشرف سے National Reconciliation Ordinance (N.R.O) قومی مفاہمت کے قانون پر مفاہمت کر کے اسٹیبلشمنٹ کو پھر سے مضبوط کیا۔

90ء کی دہائی کے آخری عشرہ میں جنرل حمید گل کی نظر عمران خان پر پڑی، یوں تحریک انصاف پروان چڑھی ، پھراسٹیبلشمنٹ کی مدد سے عمران خان وزیر اعظم بن گئے۔ جنوبی پنجاب کے جاگیرداروں اور سیاسی گدی نشینوں عمران خان کے ساتھ مل گئے ۔عمران خان خود اور پی ٹی آئی کی قیادت اکثر اوقات کہتے تھے کہ ان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہے مگر پھر وہ یہ بتانے کو تیار نہیں کہ پیج کہاں چلا گیا۔

عمران خان فوج کے سربراہ کے تقرر کو متنازع بنانے کی کوشش کی۔  پھر عمران خان کے مؤقف میں تبدیلی آگئی۔ انھوں نے کہا کہ انھیں نئے چیف پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی اسد عمر نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اچانک یہ عرضداشت پیش کی کہ ان کے اراکین کے استعفے مسترد کیے جائیں ، یوں ایک دفعہ پھر عمران خان نے اپنی سمت تبدیل کر لی ۔ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی پارلیمنٹ کے نئے سال کے آغاز پر پارلیمنٹ کے اجلاس میں تقریر کرنے آگئے مگر  ان کی تقریر کا خود تحریک انصاف کے سینیٹروں نے بائیکاٹ کیا۔

صدر عارف علوی نے خالی سیٹوں اور مخالفانہ نعروں میں اپنی تقریر پڑھ تو دی مگر پارلیمنٹ کی تاریخ میں مورخ اسے ایک عبرت ناک منظر کے طور پر لکھے گا۔عمران خان مسلسل اسلام آباد پر لشکر کشی کی تیاری کررہے ہیں۔ ان کی اس لشکر کشی کا فائدہ کون اٹھائے گا، سیاست کے طالب علموں کے پاس اس سوال کا جواب موجود ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔