ڈنکن فاربس، اُن کی اردو انگریزی لغت اور ’’ہندوستانی‘‘ زبان

محمد عمیر اقبال  اتوار 16 اکتوبر 2022
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

ڈنکن فاربس (1798-1848) مشرقی زبان و ادب کے ایک اسکاٹش عالم تھے۔ اگرچہ فاربس نے اردو، فارسی، عربی اور بنگالی میں بھی گراں قدر علمی ذخیرہ چھوڑ رکھا ہے لیکن ان کی اردو انگریزی لغت اور میر امن کی طبع زاد داستان باغ و بہار کا انگریزی ترجمہ ممتاز مقام کا حامل ہے۔

فاربس کی لغت بنام: A dictionary, Hindustani and English  جو پہلی بار 1848ء میں شائع ہوئی تھی، ابتدائی اردو لغت نویسی کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان ابتدائی کاوشوں میں جان گلکرسٹ (1759-1841) اور جان شیکسپیئر (1774-1858) کی اردو انگریزی لغات بھی شامل ہیں۔ بعدازآں لغت نویسی کی اس روایت کو ایس ڈبلیو فیلن (1817-1880) اور جان ٹی پلیٹس (1830-1904) کی اردو انگریزی لغات نے آگے بڑھایا۔

یہاں یہ کہنا بے محل نہ ہوگا کہ متعدد مغربی مفکرین اُن دنوں لفظ ‘ہندوستانی’ اس زبان کے لیے استعمال کرتے تھے جو شمالی ہندوستان میں بولی جاتی تھی۔ آج کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہندوستانی کہہ کر یہ مفکرین ہندی اور اردو دونوں زبانیں مراد لیتے ہیں۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ کچھ کتابیں برطانوی ہندوستان (1) میں ایسی بھی شائع ہوئیں جو لفظ ہندوستانی کو اردو زبان کا دوسرا نام سمجھتی تھیں۔

مثلاً جان ٹی پلیٹس کی جو پہلی کتاب 1874ء میں شائع ہوئی تھی اس کا نام A Grammar of the Hindustani or Urdu language  (ہندوستانی یا اردو زبان کے قواعد) تھا۔ لفظ ہندوستانی کی ترقیم سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہندی اور اردو دو مختلف زبانیں تھیں۔

چناں چہ فاربس کی Hindustani English Dictionary  در اصل اردو انگریزی لغت ہے، جس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ اس لغت کے الفاظ اردو رسم الخط میں لکھے گئے ہیں جو کہ فارس عربی رسم الخط کی تبدیل شدہ شکل ہے۔ اس ترمیم شدہ رسم الخط کے حروف میں کچھ ایسی آوازیں بھی شامل ہیں جو کہ عربی اور فارسی میں ناپید ہیں۔ لیکن اردو میں اپنا وجود رکھتی ہیں۔

ہندی زبان، جیسا کہ ہم جانتے ہیں دیوناگری میں نہ صرف لکھی جاتی تھی بلکہ اب بھی لکھی جاتی ہے۔ لیکن فاربس نے ان ہندی الفاظ پر بھرپور توجہ دی ہے جو کسی نہ کسی طرح اردو کا حصہ ہیں اور اردو (فارس عربی) رسم الخط کے ساتھ ساتھ انہیں دیوناگری رسم الخط میں بھی لکھا ہے۔ مزید یہ کہ ہر ہر لفظ کا تلفظ رومن رسم الخط میں بھی دیا گیا ہے۔

اس لغت کا پہلا ایڈیشن جو 1848ء میں لندن سے شائع ہوا تھا اب کم یاب ہے، بلکہ 1866ء میں شائع ہونے والا دوسرا ایڈیشن بھی آسانی سے دست یاب نہیں ہوتا۔ خوش قسمتی سے کچھ سال قبل راقم الحروف کو فاربس کی لغت کا دوسرا ایڈیشن کراچی کے علاقے صدر کے ایک فٹ پاتھ سے بکھری ہوئی حالت میں ملا۔ جہاں ہر اتوار کو پرانی کتب فروخت ہوتی ہیں۔

کتاب کی پشت پر اشاعتی ادارے ”کراس بائی لاک ورڈ اینڈ سنز” نے ان کتابوں کی فہرست بھی درج کی ہے جو ان کے ادارے سے شائع ہوئیں۔ اس فہرست میں ہندوستانی اور ہندی کتب بھی شامل ہیں، جس کا واضح مطلب یہی نکلتا ہے کہ ہندوستانی اور ہندی دو الگ زبانیں سمجھی جاتی تھیں۔

فاربس کی اردو انگریزی ڈکشنری کی قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ دو لسانی انگریزی اور اردو لغت ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ اردو انگریزی ڈکشنری کی حیثیت سے خدمات فراہم کرتی ہے۔ لیکن لغت کا دوسرا حصہ انگلش کے الفاظ ان کے اردو مترادفات کے ساتھ فراہم کرتا ہے۔ تاہم اس دوسرے حصہ کے کم از کم تین سو صفحات ہیں، جب کہ اردو انگریزی لغت آٹھ سو صفحات پر مشتمل ہے۔

فاربس کی ڈکشنری پر تبصرہ کرتے ہوئے مولوی عبد الحق کہتے ہیں کہ فاربس نے اپنے پیش روؤں کے مقابلے میں اپنی لغت میں زیادہ الفاظ اور مترادفات شامل کیے ہیں۔ اس لغت کو ہندوستان سے 1968ء میں دوبارہ چھاپا گیا جو کہ دوسرے ایڈیشن کی ہو بہو نقل تھی۔ یہی نقل سنگ میل پبلی کیشنز نے 2002ء میں شائع کی۔

ہندوستانی سوانح سے متعلق سی ای بک لینڈ نے اپنی ڈکشنری میں ڈنکن فاربس کا ایک مختصر سا خاکہ دیا ہے۔ ڈکشنری آف نیشنل بائیو گرافی (ڈی این بی) نے بھی تھوڑی معلومات فراہم کی ہے۔ بکلینڈ اور ڈی این بی کے مطابق، ڈنکن 27 اپریل 1798ء کو پرتھ شائر اسکاٹ لینڈ کے گاؤں کینارڈ میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔

فارس کے ماں باپ نے 1801ء میں امریکا کی طرف ہجرت کی اور فاربس کی دیکھ بھال کی ذمے داری ان کے دادا کے سپرد کی۔ فاربس کی اسکول کی تعلیم بہت تھوڑی تھی اور تیرہ سال تک وہ انگریز زبان سے نا بلد رہے تھے۔ لیکن محض اپنی اہلیت اور محنت سے وہ ایک اسکول میں سترہ سال کی عمر میں استاد بن گئے۔ فاربس نے 1823ء میں ایس ٹی۔ اینڈریوز یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ اسی سال نومبر میں وہ کلکتہ اکیڈمی سے منسلک ہونے کی غرض سے کلکتہ پہنچے۔ لیکن خرابیٔ صحت کے باعث 1824ء کے اوائل میں ہی انگلستان لوٹ گئے۔ اسی سال فاربس مشہور مستشرق جان گلکرسٹ کے ما تحت معاون مقرر ہوئے۔

1837ء میں فاربس کا کنگ ایڈورڈ کالج میں مشرقی زبان کے پروفیسر کی حیثیت سے تقرر ہوا۔ وہ کچھ عرصہ برطانوی عجائب گھر میں بھی ملازم رہے جہاں انہوں نے فارسی کے مخطوطات کی فہرست تیار کی۔ 1847ء میں انہیں ایس ٹی اینڈریوز یونیورسٹی کی طرف سے اعزازی طور پر ایل ایل ڈی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

ڈنکن فاربس نے مشرقی زبانوں، قواعد اور لغات پر متعدد کتابچے لکھے اور کچھ کلاسیکی ادب کے تراجم کیے اور کچھ کو مرتب بھی کیا۔ ان کا سب سے عالی شان کام باغ و بہار (1846ئ) ہے۔ باغ و بہار میرامن کا شاہ کار ہے، جس میں مشکل الفاظ کی فہرست بھی شامل ہے۔ فاربس نے 1842ء میں اس کا اردو سے انگریزی میں ترجمہ کیا۔

انہوں نے 1852ء میں توتا کہانی کا بھی اردو متن تیار کیا۔ فاربس نے بیتال پچیسی کا انگریزی ترجمہ کرنے کے لیے جان ٹی پلیٹس کے ساتھ بھی اشتراک کیا جو کہ سنکسرت میں لکھی ہوئی ایک کلاسیکی داستان ہے۔ ان کی دیگر کتب میں دی ہندوستانی مینول (1845ئ)، اے گرامر آف لینگوج (1846ئ)، اے اسمالر ہندوستانی اینڈ انگلش ڈکشنری (1841ئ)، اے گرامر آف بنگالی لینگوج (1841ئ) اور دا ایڈونچرز آف حاتم طائی (1830ئ) (3) شامل ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔