بہادری اور شجاعت (پہلا حصہ)

سعد اللہ جان برق  اتوار 23 اکتوبر 2022
barq@email.com

[email protected]

یہ تو میں تسلسل سے بتاتا رہا ہوں کہ جب طاقتور طبقوں نے ’’کھشتریا‘‘ کا روپ دھارن کر کے حکمرانی کی بنیاد ڈالی اور ’’گائے‘‘ کو کاٹ کرکھانے کے بجائے ’’دوھ‘‘ کرکھانا شروع کیا تو کافی عرصے تک ’’تلوار‘‘ سے کام چلتا رہا لیکن جب اس نے دیکھا کہ تلوار سے تو جسم کو قابو کیا جا سکتا ہے لیکن اب انسان صرف جسم نہیں رہا ہے بلکہ اس کے اندر اب دماغ جیسی غیرمادی چیز بھی پیدا ہو رہی ہے اور اس غیرمادی کو قابو میں رکھنے کے لیے کوئی اور غیرمادی ہتھیار چاہیے تو اس نے اپنے لیے ایک اور ساجھے دار ڈھونڈ لیا، یہ سر منڈوا پروہت تھا لیکن بالوں کی ایک چوٹی سر پر رکھی ہوئی تھی، یوں تلوار اور عقیدہ، تخت اور مندر اور تلوار اورکتاب کی ساجھے داری شروع ہوئی اور پچاسی فی صد عوامیہ کو لوٹنے کے دو مراکز قائم ہوئے، محل اور مندر۔ دیوتا اور دیوتا زادہ۔

یہ بھی کہیں بتا چکا ہوں کہ یہ ’’ساجھے داری‘‘ اتنی آسانی سے قائم ہوئی بھی نہیں۔ کافی عرصے تک ان دونوں ’’تلوار اورکتاب‘‘ یا برہمن اور کشتری کے درمیان کش مکش ہوتی رہی ہے، اس سلسلے میں ہندی اساطیرکے اندر برہمن رشی و سیشٹھ اور کشتری راجہ و شوامتری کی استعاراتی کہانیاں موجود ہیں۔

یہ کہانی بھی بتاچکا ہوں لیکن یہ کہانی اتنی اہم ہے کہ دہرانے میں بھی کوئی حرج نہیں کیوں کہ تاریخ کے اسی موڑ سے اس پندرہ فی صد اشرافیہ کی پیدائش ہوتی ہے جو تمام انسانی مظالم ، مصائب اور استحصال کی جڑ ہے۔

کہانی کے مطابق ایک کشتری راجہ وشوامتر ایک دن شکار پر گیا تو وہ ایک برہمن رشی وسیشٹھ کے آشرم پہنچ گیا۔ رشی نے راجہ اور اس کی فوج کی بڑی اچھی مہمان داری کی۔ راجہ کو حیرت ہوئی کہ اس رشی نے اس دشت و بیابان میں اتنی پرتکلف مہمان داری کا انتظام کیسے کیا، اتنے پکوان، اتنی مٹھائیاں اور اتنے پھل کہاں سے لائے۔

پوچھنے پر رشی نے بتایا کہ میری تپسیا سے خوش ہو کر دیوتاؤں نے مجھے ایک گائے عطا کی ہوئی ہے اور مجھے جس چیزکی ضرورت ہوتی ہے، اس گائے سے کہہ دیتا ہوں اور وہ پلک جھپکنے میں وہ چیزحاضر کر دیتی ہے، راجہ نے کہا کہ یہ گائے تم مجھے دو، رشی نہیں مانا تو راجہ نے فوج کوحکم دیا کہ گائے کو زبردستی لے چلو۔

رشی نے گائے سے کہا کہ راجہ کی فوج کے مقابل فوج پیدا کرو، یوں راجہ کسی بھی طرح وہ ’’گائے‘‘ نہیں لے جا سکا تو اس نے تخت و تاج کو ٹھوکر مار کر کہا کہ ایسے تخت و تاج اور حکومت سے کیا فائدہ جو ایک بے بضاعت رشی سے ایک گائے بھی نہ لے جاسکے۔

کہانی طویل ہے لیکن راجہ نے تپسیا کر کے وہی مقام حاصل کیا جو اس برہمن رشی کا تھا یعنی ’’برہم رشی‘‘ وہ مقام حاصل کرتے ہی وہ اس رشی سے گائے حاصل کرنے چل پڑا لیکن رشی نے اس کا والہانہ استقبال کرتے ہوئے کہا کہ اب تو ہم تم بھائی ہیں، گائے جتنی تیری اتنی میری۔

یہ گائے دراصل ’’عوام ‘‘ کا استعارہ ہے جو تخت کو بھی سب کچھ دیتی ہے اور مندر کو بھی اور یہ ساجھے داری ہمیشہ قائم رہتی ہے، پندرہ فی صد اشرافیہ یا استحصالی طبقے کی شکل میں۔ اس میں نہ کسی ملک کی تخصیص رہی ہے نہ زمانے کی۔ قدیم زمانے سے یہ گٹھ جوڑ چلا آرہا ہے اور ہر ملک و وطن میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے۔

مندر اور محل کے اس گٹھ جوڑ کا نام اشرافیہ ہوتا ہے جو اصل میں ابلیسہ یا استحصالیہ ہوتی ہے۔ پرانے زمانے میں جب جب عوام بے حال ہو جاتے تھے تو پروہت ان کو بتاتے کہ دیوتاؤں کو راضی کر لیں، اس طرح ان کے خون کے آخری قطرے بھی نچوڑ لیتے تھے۔ وقت کے ساتھ اس اشرافیہ میں شاعر و صورت گر، و افسانہ نویس بھی اس میں شامل ہوئے جو اس اشرافیہ کی مدح سرائیاں کر کے اپنا حصہ پاتے تھے اور ان سب کے سامنے ایک ہی مقصد ہوتا تھا۔ پچاسی فی صد عوامیہ یا آدمیہ کو طرح طرح کے حربوں اور ہتھکنڈوں سے لوٹنا۔ ان کو ’’امید‘‘ اور ’’کل‘‘ پر ٹال کر ’’آج‘‘ کو لوٹنا۔

گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے

یہ چاردن کی جدائی تو کوئی بات نہیں

گر آج اوج یہ طالع رقیب تو کیا

یہ چاردن کی خدائی تو کوئی بات نہیں

لیکن صدیاں گزرگئیں یہ چار دن ختم نہیں ہوئے۔

ہم دیکھیں گے۔ وہ دن جس کا وعدہ ہے جب ظلم وستم کے کوہ گراں روئی کی طرح اڑ جائیں گے۔ فیض نے بڑی ہنرمندی سے چند استعاروں کو استعمال کرتے ہوئے ’’امید‘‘ کی کھیتی بوئی ہے۔ نجومی اور عامل کامل بھی اس کا حصہ ہیں لیکن اس پہلو کو کسی اور وقت کے لیے چھوڑتے ہوئے اپنے مقصد کی طرف آتے ہیں۔ ان دونوں اشرافیہ اور عوامیہ کی شناخت کچھ مشکل نہیں جو کام کرتے ہیں، بناتے ہیں، اگاتے ہیں، تعمیرکرتے ہیں اور ان کی محنت کا دیا ہوا انسانوں سے لے کر چرند پرند اورکیڑے مکوڑے تک کھاتے ہیں۔

یہ عوامیہ یا آدمیہ ہوتی ہے اور اشرافیہ وہ ہے جو کچھ بھی نہیں کرتی، صرف باتیں بناتی ہیں اورطرح طرح کے ہتھکنڈوں سے عوامیہ کو لوٹتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔