عمران خان کی نااہلی کا فیصلہ

فاروق عادل  پير 24 اکتوبر 2022
farooq.adilbhuta@gmail.com

[email protected]

ہونی بالآخر ہو گزری ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے فیصلہ سنا دیا اورعمران خان نا اہل ہو گئے۔صفِ اوّل کے کسی سیاست دان کی کسی ادارہ جاتی فیصلے کے ذریعے میدانِ سیاست سے بے دخلی کا معاملہ ہو یا دنیا سے ہی بے دخلی کا، اس کا تصور ہی بڑا تکلیف دہ ہے۔

سچی بات تو یہ ہے کہ ایسی بات سوچتے ہوئے بھی برا لگتا ہے۔ صرف برا نہیں لگتا ، اس کا تصور بھی مشکل ہوتا ہے۔ وہ جیسا فواد چوہدری کہا کرتے ہیں کہ کوئی عمران خان کو حکومت سے نکال کر دکھائے، کوئی انھیں پکڑ کر دکھائے، کوئی ان پر مقدمہ بنا کر دکھائے۔ بس، یہی بات ہے۔

ایک سیاسی کارکن صرف اپنے راہ نما کے بارے میں اس طرح سوچتا اور بات کرتا ہے جب کہ اپنے وطن اور جمہوریت سے سچی وابستگی رکھنے والے کوئی بھی سنجیدہ شخص ہر سیاست دان کے بارے میں اسی انداز میں سوچے گا۔

یہ انداز فکر گویا ایک اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔ سیاست میں آفاقی حیثیت رکھنے والے اس اصول پر ہمیشہ بات ہوتی رہنی چاہیے لیکن سیاسی عمل کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ وقت اور حالات اہمیت اختیار کر جاتے ہیں جیسے اب عمران خان الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تازہ فیصلے کے نتیجے میں قومی اسمبلی کی ہر اس نشست سے بھی محروم ہو گئے جس سے انھوں نے استعفیٰ دے رکھا تھا یا مستعفی ہونے کے بعد دوبارہ منتخب ہوئے تھے۔

قانونی چارہ جوئی کے بعد حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں، یہ معاملہ مختلف ہے لیکن جہاں تک الیکشن کمیشن کے فیصلے کا معاملہ ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ فیصلہ اٹل تھا اور نا اہلی خان صاحب کی قسمت میں لکھی جا چکی تھی۔

اب سوال یہ ہے کہ فیصلہ تو ہو گیا، اب اس کے بعد کیا ہو گا۔ سیاسی نقطہ نظر سے جیسے ابھی کہا گیا، اس قسم کے فیصلوں کا خیر مقدم مشکل ہونا چاہیے ۔ یہ سبق وہ تھا جو کئی دہائیوں کی دانتا کل کل کے بعد پاکستان کی سیاسی قوتوں نے سیکھا۔ یہی سبق تھا جس کے نتیجے میں میثاق جمہوریت وجود میں آیا۔

میثاق جمہوریت کیا تھا، عمران خان کا اس سلسلے میں کہنا جو بھی ہو، حقیقت یہ تھی کہ یہ ایک سنگ میل تھا۔ ایک ایسا سنگ میل جس کی مثال کسی جرگے کے نتیجے میں وجود میں آنے والی اس صلح سے دی جا سکتی ہے جس کے نتیجے میں صدیوں سے جاری کشت و خون کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔

یہ بدقسمتی تھی کہ میثاق جمہوریت کے بعد عمران خان پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر طلوع ہوئے اور انھوں نے اس تاریخی میثاق کو مک مکا کا نام دے کر میدان سیاست کو جس میں بلوغت اور سنجیدگی پیدا ہو گئی تھی،سبوتاژ کر دیا۔ عمران خان کی یہ ایسی عظیم غلطی تھی جس کا پچھتاوا انھیں عمر بھر رہنا چاہیے۔ کبھی تنہا بیٹھ کر انھوں نے اپنے سیاسی اسلوب پر ایک ناقدانہ نگاہ ڈالی تو یقین ہے کہ وہ اسی نتیجے پر پہنچیں گے۔ وہ ایسا طرز عمل اختیار نہ کرتے تو وہ اس گڑھے میں نہ گرتے جو انھوں نے دوسروں کے لیے کھودا تھا۔

ان کی ایک اور غلطی ان کے مزاج کے نہاں خانوں سے ابھری اور اس نے خان صاحب کے اس عظیم اخلاقی پیڈسٹل کو زمیں بوس کر دیا جس پر کھڑے ہو کر وہ اپنے مخالفین پر انگشت نمائی کیا کرتے تھے۔ اپنے مخالفین کو چور،ڈاکو اور بدکردار قرار دیتے ہوئے انھوں نے ایک دعویٰ کیا۔ دو نہیں ایک پاکستان۔ اپنے اسی نعرے کی تفہیم میں وہ کہا کرتے تھے کہ وہ طاقت ور لوگوں کو قانون کے شکنجے میں لائیں گے۔

اصولی طور پر ان نعروں سے کسے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ان نعروں میں وزن اسی صورت میں پیدا ہو سکتا تھا اگر عمران خان اگر ویسے نہ نکلتے جیسے وہ اس فیصلے کے بعد نکلے ہیں۔اس فیصلے تک بھی خیریت رہتی لیکن ان کے مزاج کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ہر مخالف کو تو قانون اور احتساب کے شکنجے میں جکڑ دینا چاہتے ہیں لیکن اپنی ذات قانون و احتساب سمیت ہر چیز سے بلند سمجھتے ہیں۔

جہاں تک الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کا معاملہ ہے، اس کا تعلق توشہ خانہ کے معاملات سے ہے لیکن عمران خان کے خلاف فرد جرم صرف یہیں تک محدود نہیں۔ وہ اپنے مخالفین کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ سارا ٹبر چور ہے۔ ان کے اقتدار کا زمانہ ہو یا اس کے بعد سامنے آنے والے حقائق، عمران خان اور ان کے خاندان پر اتنے سنگین الزامات سامنے آئے ہیں، ماضی میں جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔

عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی، گزشتہ شوہر سے ان کی اولاد اور فرح خان پر الزامات لگے جن کا جواز وہ کبھی پیش نہیں کر سکے۔ اسی طرح ان کے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار بھی سنگین الزامات کی زد میں ہیں۔ ان کے وزیر صحت عامر کیانی پر الزامات لگے۔ تحقیقات کے نتیجے میں الزامات ثابت ہو گئے لیکن عمران خان نے انھیں اپنی جماعت کا سیکریٹری  جنرل بنا دیا۔

چینی کا اسکینڈل اتنا سنگین تھا کہ خود حکومتی حلقوں کا کہنا تھا کہ یہ اتنی بڑی غلطی ہے جس کے نتیجے میں خود عمران خان گرفت میں آسکتے ہیں۔ یہی خوف تھا جس کے نتیجے میں قوانین میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کر دی گئی۔ مقصد یہی تھا کہ چینی اسکینڈل کے نتیجے میں متوقع قانونی کارروائی سے بچا جاسکے۔

اس قسم کے واقعات کی فہرست مرتب کرنا مقصود نہیں، کہنا یہ ہے کہ صرف عمران خان توشہ خانہ کیس میں ماخوذ نہیں ہیں اور نہ ان کی جماعت فارن یا ممنوعہ فنڈنگ کیس میں ملوث ہے بلکہ وہ، ان کا خاندان، سیاسی جماعت اور سیاسی رفقائے کار ان سب کے نام لیے جا رہے ہیں۔ عمران خان اور ان کے سیاسی قبیلے کا یہ طرز عمل ایسا ہے جس نے انھیں اسی فہرست میں لا کھڑا کیا ہے جس میں وہ اپنے مخالفین کو کھڑا کیا کرتے تھے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس فیصلے کے بعد کیا ہوگا؟ خبریں ہیں کہ مذاکرات ہو رہے ہیں۔ ماضی میں عمران خان مخالفین سے مذاکرات کرنا اپنی توہین سمجھتے تھے لیکن تادم تحریر وہ ان ہی سے پس پردہ مذاکرات میں مشغول ہیں۔ تحریک انصاف میں یہ تبدیلی حوصلہ افزا اور صحت مندانہ ہے۔

ہماری اطلاع کے مطابق ان مذاکرات کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ عمران خان اور ان کی جماعت پارلیمنٹ میں واپس لوٹ آئے۔ ایسی صورت میں آیندہ عام انتخابات اپنی آئینی مدت سے کسی قدر پہلے شاید ممکن ہو جائیں لیکن اگر عمران خان اپنی ضد پر اڑے رہے اور انھوں نے ۲۵؍مئی والے مذاکرات کی طرح ان مذاکرات میں بھی کوئی پیش رفت نہ ہونے دی تو پھر اُن کے لیے خسارہ ہی خسارہ ہے کیوں کہ پھر ریاست میں ان کی خواہشات کو پورا کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ فیصلے کے بعد معمولی ردعمل نے کئی حقائق آشکار کر دیے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔