الیکشن کمیشن کے فیصلے

ذوالفقار احمد چیمہ  بدھ 26 اکتوبر 2022
zulfiqarcheema55@gmail.com

[email protected]

ملک پر اگر کوئی آمر قابض ہو تو تمام بڑی سیاسی جماعتیں اور سیاسی لیڈر جمہوریت کو یاد کر کے اس کے نوحے پڑھنا شروع کردیتے ہیں۔

جمہوریت کے بارے میں عوام کے ذہنوں میں بھی وہ ہر وقت یہی ڈالتے رہتے ہیں کہ تُو ہے تو دنیا کتنی حسیں ہے، جو تو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے۔ ہمارے لیڈرانِ ملت کے ذہنوں میں جمہوریت کا بڑا واضح تصور موجود ہے۔

جائز اور ناجائز ذرائع سے کمائے گئے بے تحاشا پیسے اور دھونس سے لیے گئے ووٹوںکے ذریعے اقتدار اور اختیار حاصل کرنا اور اس اقتدار کے ذریعے اپنی اور اپنے خاندان کی دولت، طاقت اور سیاسی اثرورسوخ میں مزید اضافہ کرنا ہی ان کاتصورِ جمہوریت ہے۔

مگر جمہوریت کے نام پر اقتدار حاصل کر کے وہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں کو فراموش کردیتے ہیں بلکہ پاؤں تلے روند ڈالتے ہیں۔

مخالف نظریات کا وجود تسلیم کرنا، سیاسی مخالفین کا احترام کرنا اور دوسروں کے ساتھ اختیارات اور وسائل شئیر کرنا جمہوریت کا بنیادی اصول ہے مگر جمہوریت کے تمام علمبردار اس بنیادی اصول سے پوری ڈھٹائی اور سینہ زوری کے ساتھ انحراف کرتے ہیں۔ یورپ ہو یا امریکا جمہوریت کی کسی درسگاہ میں یہ نہیں پڑھایا جاتا کہ بلدیاتی حکومتوں کے بغیر بھی جمہوریت کا کوئی تصور موجود ہے۔

بلدیاتی حکومتوں کو پورے جمہوری نظام کی پہلی سیڑھی اور بنیاد مانا جاتا ہے اور مہذب جمہوری ملکوں میں انہیں کمزور کرنے یا ان کے اختیارات اور فنڈز میں کمی کرنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ نیویارک اور لندن ہی نہیں، استنبول اور تہران کے میئر بھی بہت بااختیار ہوتے ہیں، جو اربوں روپے کے میگا پروجیکٹ منظور کرتے ہیں اور ان کی تکمیل کے بعد وہی ان کاافتتاح کرتے ہیں۔

لندن، تہران اور استنبول میں ہر بڑے پل اور مفادِ عامہ کی ہر بڑی عمارت پر میئرکی تختی تو نظر آتی ہے مگر کسی پر بھی صدر، وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کی تختی نظر نہیں آتی۔ مگر ہمارے ہاں عجیب رسم ہے کہ ’’جمہوریت‘‘ بحال ہوتی ہے تو اس کے علمبردار خود اس کی ٹانگیں کاٹنے لگتے ہیںاور اس کی بنیاد کا ہی خاتمہ کردینے پر تُل جاتے ہیں۔

بنیاد کے بغیر کیا کوئی عمارت کھڑی رہ سکتی ہے؟ ہمارے ہاں ’’جمہوریت‘‘ کے علمبرداروں میںفراخدلی کا اس قدر فقدان ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ کسی پرائمری اسکول کی دیوار بنانی ہوتو اس پر بھی وزیراعلیٰ کی تختی لگی ہو۔ کہیں سڑک مرمت کرنے کے لیے پیسے درکار ہوں تو عوام کو یہی بتایا جائے کہ اس کے لیے بھی فنڈز وزیراعلیٰ صاحب نے عنایت فرما کر علاقے پر احسانِ عظیم فرمایا ہے۔

اس معاملے میں مسلم لیگ ہو یا پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی ہو یا جے یو آئی سب ہم خیال ہیں، کوئی بھی بلدیاتی اداروں کو Empower نہیں کرنا چاہتا، سب بلدیاتی حکومتوں کو سوتیلی اولاد سمجھتے ہیں اور انہیں مخاصمانہ نظرسے دیکھتے ہیں۔

تمام تر دعوؤں کے باوجود مذکورہ بالا پارٹیوں نے اپنے اقتدار میں بلدیاتی اداروں کے انتخابات کبھی برضاو رغبت نہیں کروائے۔ اگر سپریم کورٹ کے دباؤ کے تحت انہیں بلدیاتی اداروںکے الیکشن کروانے بھی پڑے ہیں تو ان کے ساتھ یتیموں جیسا سلوک کیا گیا اور انہیں اس قدر کمزور کر دیا گیا کہ وہ غیر موثر اور irrelevant  ہوگئے۔

اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ میگا شہروں میں اگر ترقیاتی کام ہوئے ہیں تو وہ بلدیاتی اداروں کے ذریعے ہی ہوئے ہیں۔ کراچی کے بارے میں تو لوگوں کی متفقہ رائے ہے کہ عبدالستار افغانی نے (میئر کی حیثیت سے) عوام کے مسائل حل کیے یا پھر نعمت اللہ خان نے میئر بن کر زبردست کام کرائے جو لوگوں کو آج بھی یاد ہیں۔ سندھ میں کئی دہائیوں سے پیپلزپارٹی کی حکومت ہے۔

ایم کیو ایم بھی کسی نہ کسی طریقے سے اقتدار میں شریک رہی ہے مگر دونوں کے اقتدار کا نتیجہ یہ ہے کہ کراچی میں بستیوں کی بستیاں کچرا کنڈی میں تبدیل ہوچکی ہیں، صاف پانی کی دستیابی ایک خواب و خیال ہے، ٹینکر مافیا شہریوں کو لوٹ رہا ہے۔

تعلیمی اداروں میں دھول اُڑ رہی ہے اور سرکاری ہسپتال بربادی کا عبرتناک نقشہ پیش کرتے ہیں، یہی حال ٹریفک اور ٹرانسپورٹ کا ہے۔ اچھی گورننس کی کوئی علامت دور دور تک نظر نہیں آتی۔

کراچی، ملک کا مالیاتی مرکز ہے، کسی زمانے میں یہ شہر علم و دانش کا بھی گہوارہ ہوا کرتا تھا۔ 1970 میں شہر کی قیادت مولانا شاہ احمد نورانی، پروفیسر غفور احمد اور مولانا ظفر احمد انصاری جیسی بلند پایہ شخصیات کے ہاتھ میں تھی۔

پھر اسے کسی کی نظر لگ گئی اور ایسا زوال آیا کہ جرائم اور دہشت گردی میں ملوث عناصر شہر پر قابض ہوگئے (فوج نے بڑی مشکل سے ان کا قبضہ چھڑایا ہے) پچھلے تیس پینتیس سالوں سے جو پارٹیاں اقتدار پر قابض ہیں انہوں نے روشنیوں کے شہر کو صرف کرپشن، بری گورننس، تشدد، بھتے اور دہشت گردی کے تحائف دیئے ہیں۔

جن سے لوگ تنگ آچکے تھے، لہٰذا جب نئی پارٹی (پی ٹی آئی) میدان میں اتری تو عوام نے اسے پذیرائی بخشی۔ مگر جس طرح عمران خان اور ان کی حکومت نے اپنے چارسالہ دورِ اقتدار میں قوم کو بے حدمایوس کیا، اسی طرح کراچی میں بھی ان کے نمائندوں کی کارکردگی انتہائی ناقص رہی اور کراچی کے عوام ایک بارپھر 1970؁ء کی طرح کے اعلیٰ کردار کے حامل افراد کو تلاش کرنے لگے۔

بالآخر ان کی نظر یں حافظ نعیم الرحمن پر آکر ٹھہرگئیںجو باکردار بھی ہیں، صاحبِ ایثار بھی ہیںاورعوامی خدمت کے جوش و جنون  سے سرشار بھی ہیں۔ کراچی میئر کے انتخاب کی تاریخ مقرر ہوچکی تھی اور سب زور و شور سے مہم چلارہے تھے۔

تمام سروے بتارہے تھے کہ کراچی کے لوگ اپنی سیاسی پسند و ناپسند سے بالاتر ہوکر شہر کی قیادت کی پگ اور شہری مسائل حل کرنے کی ذمے داری حافظ نعیم الرحمان کو سونپنے کا فیصلہ کرچکے ہیں، مگر کئی دہائیوں سے شہر پر قابض قبضہ گروپ یہ کیسے برداشت کرتا۔ چنانچہ حکومتِ سندھ کی طرف سے الیکشن کمیشن کو خط لکھوائے گئے کہ بارشوں کے باعث کراچی میں الیکشن نہیں ہوسکتا، چنانچہ الیکشن ملتوی ہوگیا مگر ایک نئی تاریخ دے دی گئی۔ نئی تاریخ سے پہلے کراچی میں قومی اسمبلی کی ایک نشست کے ضمنی الیکشن بھی ہونا تھے۔

سیلاب کا بہانہ بناکر اس کے التواء کی بھی کوشش ہوئی مگر وہ الیکشن ملتوی نہ ہوئے اور مقررہ تاریخ پر منعقد ہوگئے جو سندھ کی حکومتی پارٹی نے جیت لیے مگر الیکشن کمیشن نے ناقابلِ فہم فیصلہ یہ کیا کہ ’کراچی میں ضمنی انتخاب تو کرا دیا مگر میئر کا الیکشن ملتوی کردیا‘ یعنی قومی اسمبلی کا ضمنی الیکشن کرانے کے لیے حالات سازگار ہیں مگرمیئر کے الیکشن کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں۔

یہ منطق انتہائی کمزور ہے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے میئر کے  الیکشن کسی کی خواہش اور دباؤ پر ملتوی کیے ہیں جس سے الیکشن کمیشن اور اس کے سربراہ کی ساکھ پر دھبہ لگا ہے اور ادارے کی آزادی اور خودمختاری پر انگلیاں اُٹھ رہی ہیں۔

الیکشن کمیشن کی یہ آئینی ذمے داری ہے کہ وہ فوری طور پر کراچی میئر کے انتخاب کی نئی تاریخ مقرر کرے اور پھر ان انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنائے۔  الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمے داری سے روگردانی کرے گا تو سنگین جرم کا مرتکب ہوگا۔

اپنی نااہلی کے فیصلے کو اگر عمران خان صاحب کسی دباؤ کا نتیجہ قرار دیتے ہیں تو انہیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ میاں نوازشریف کی نااہلی بھی دباؤ کا نتیجہ تھی، حالانکہ ان کی نااہلی کی بنیاد انتہائی کمزور تھی جبکہ خان صاحب کے خلاف قانونی طور پر کیس مضبوط تھاکیونکہ انہوں نے توشہ خانے (آج کے بیت المال) سے مہنگی چیزیں اٹھالیں اور بازار میں بیچ کر کروڑوں روپیہ بنایا(توشہ خانے میں جو تھوڑی سی رقم جمع کرائی وہ بھی تحفے بیچنے کے بعد جمع کرائی)۔ پھر اس پیسے کو چھپایا اور اس کا انتخابی گوشواروں میں اندراج نہیں کیا۔

لہٰذا قانونی طور پر تو فیصلہ یہی بنتا تھا، مگر میرے خیال میں اصل جرم دوست ممالک کے سربراہوں سے ملنے والے تحفے بیچنے کی نیچ حرکت کرکے ملک کو بے توقیر کرنا ہے۔  گوشواروں میں اندراج نہ کرنا کوتاہی یا بھُول تو ہوسکتی ہے مگر یہ ایسا جرم نہیں جس پر پورا الیکشن ہی کالعدم ہوجائے، یہ قانون تبدیل ہونا چاہیے۔ باہر سے ملنے والے تحائف کو نیلام کرکے رقم غریب طلباء کی تعلیم پر خرچ کی جانی چاہیے۔

کچھ لوگ کپتان کی نااہلی کو مکافاتِ عمل قرار دے رہیں، مگر مجھے ان سیاستدانوں کی باتیں یاد آرہی ہیں جو کہا کرتے تھے کہ عمران خان بھی بالآخر نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے ٹرک پر آکر بیٹھے گا۔ میں عمران خان کو اُسی جانب گامزن دیکھ رہا ہوں۔

لوگ کہتے ہیں مقبول بہت ہے! او بھائی اسے تو اپنی مقبولیت کے عروج میں کسی ایک حلقے سے بھی دو تہائی اکثریت نہیں مل سکی، اسمبلی میں دو تہائی لینا تو ابھی اس کا خواب ہے، جبکہ نواز شریف کے امیدوار ایک ایک لاکھ کی لیڈ سے جیتتے رہے اور خود اسے قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل تھی جب اُسے نااہل قرار  دے دیا گیا۔

اس سے وزارتِ عظمیٰ چھین لی گئی اور اپنی پارٹی کی صدارت سے بھی محروم کردیا گیامگر اس کے بعد کیا ہوا، چند جلسے، ہلکا پھلکا احتجاج اور ختم۔ اب بھی یہی ہوگا، کچھ مزید دھکے کھانے اور ورکر مروانے کے بعد عمران خان بالآخر سیاسی قوتوں کے پاس ہی آئے گا،  اُسے انہی کے پاس آنا پڑے گا اور تمام سیاسی جماعتوں سے مل کر ایک نیا میثاقِ جمہوریت تشکیل دینا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔