چھوٹی ٹیموں کو بڑا خطرہ نہ بننے دیں

سلیم خالق  جمعرات 27 اکتوبر 2022
کوشش ہو گی کہ اسٹیڈیم سے آنکھوں دیکھا حال آپ تک پہنچاؤں۔ فوٹو: سوشل میڈیا

کوشش ہو گی کہ اسٹیڈیم سے آنکھوں دیکھا حال آپ تک پہنچاؤں۔ فوٹو: سوشل میڈیا

پرتھ کا نام سنتے ہی بچپن کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں، واکا کی تیز ترین پچ پر جب بھی کوئی میچ ہوتا بیٹرز کی ٹانگیں کانپتی نظر آتی تھیں، بڑے بڑے کھلاڑی وہاں جدوجہد کرتے،مگر اب نئے پرتھ اسٹیڈیم کی پچ اتنی خطرناک نہیں۔

یہ کثیر المقاصد اسٹیڈیم 2017 میں بنا اور اگلے برس باقاعدہ افتتاح کیا گیا، اس میں 61ہزار سے زائد شائقین کی گنجائش ہے، یہاں کرکٹ کے ساتھ آسٹریلوی فٹبال لیگ اور رگبی میچز بھی ہوتے ہیں، واکا میں گذشتہ 12 برس سے کوئی ٹیسٹ یا ون ڈے انٹرنیشنل نہیں ہوا، آخری ٹی ٹوئنٹی ہوئے تو12 برس بیت چکے۔

پاکستانی ٹیم نے واکا میں پریکٹس کی تھی مگر میچ پرتھ اسٹیڈیم میں ہونا ہے، وہاں کی پچ سے بھی پیسرز کو مدد مل سکتی ہے، انگلینڈ نے افغانستان کو 112 رنز پر ڈھیر کر دیا تھا، تمام 10 وکٹیں فاسٹ بولرز نے ہی لی تھیں۔

حالیہ ٹور سے قبل میں آخری بار 2019 میں آسٹریلیا آیا تھا، تب ٹی 20 میچ کی کوریج کیلیے پرتھ اسٹیڈیم جانا ہوا تو اس کی خوبصورتی دیکھ کر دنگ رہ گیا،اب آسٹریلیا اور سری لنکا کے درمیان میچ کیلیے گیا تب بھی کچھ ایسی ہی کیفیت رہی،اسٹیڈیم کے عقب میں دریا بھی موجود ہے، حیران کن طور پر میزبان ٹیم کا میچ ہونے کے باوجود اسٹیڈیم آدھا بھی نہیں بھر سکا۔

پاکستان کے زمبابوے سے مقابلے میں بھی زیادہ تر نشستیں خالی رہنے کا امکان ہے،میچ میں پاکستانی صحافی نہیں آئے، میں بھی یہ سوچ کر چلا گیا تھا کہ اسٹیڈیم میں بیٹھ کر ہی کام کر لوں گا،اسٹوئنس کی برق رفتار بیٹنگ نے شائقین کو خوب محظوظ کیا،انھوں نے یقینا نیٹ ریٹ ریٹ کی اہمیت کو ذہن میں رکھ کر ہی ایسا کیا ہوگا۔

پاکستان کو بھی یہ بات مدنظر رکھنا ہوگی، واپس جاتے ہوئے چھوٹے پل سے نیچے دریا اور عقب میں روشنیوں میں نہائے پرتھ اسٹیڈیم کا نظارہ بیحد دلکش لگا،دن میں میرا مقامی اسکول جانا ہوا جہاں میرے دوست اپنے بچوں کو لینے آئے تھے،میں نے معلومات حاصل کیں تو پتا چلا کہ گورنمنٹ اسکول کی کوئی فیس نہیں مگر اس میں تمام سہولتیں موجود تھیں۔

آسٹریلیا میں اسپورٹس کا کلچر نمایاں ہے، اسکول میں بھی باسکٹ بال سمیت کئی کھیل جاری تھے، لائبریری بھی خاصی بڑی تھی،ہماری مہنگے پرائیوٹ اسکولز بھی ایسے نہیں ہوں گے جیسا یہاں سرکاری اسکولز ہیں،میرے دوست نے اپنی 8 سالہ بچی کو کار میں بٹھایا مگر 12 سالہ بچہ سائیکل پر الگ جانے لگا۔

میں نے وجہ پوچھی تو کہا کہ اس سے یہ پْراعتماد بنے گا، راستے میں چند رضا کار بھی نظر آئے جو اسکولز کی چھٹی کے وقت ٹریفک کو کنٹرول کرتے ہیں تاکہ بچے آسانی سے گھر چلے جائیں،مجھے کرکٹ پاکستان ویب سائٹ کیلیے اپنا شو ٹاک کرکٹ بھی ریکارڈ کرنا تھا، میں نے سوچا کہ آؤٹ ڈورریکارڈنگ کروں، گھر کے سامنے ہی بڑا سا گراؤنڈ ہے وہاں چلا گیا، جاتے ہوئے چند افراد کو نیٹ پریکٹس کرتے دیکھا تو وہاں دیکھنے گیا۔

ایک تو فیملی تھی جس کی ایک خاتون بھی کھیل رہی تھیں، اگلے نیٹ میں ایک باپ اپنے چھوٹے بیٹے کو پریکٹس کروا رہا تھا، تیسرے نیٹ میں امیچر کلب کرکٹرز کی مشقیں جاری تھیں،پاکستانی نژاد عثمان خواجہ کی آسٹریلوی ٹیم میں شمولیت نے ایشینز کا حوصلہ بڑھا دیا ہے اور وہ بھی اپنے بچوں کی کرکٹ پر خاصا وقت صرف کرتے ہیں ۔

آسٹریلیا میں فٹبال اور رگبی بھی عوام میں مقبول ہیں،پاکستانی ٹیم بھارت سے شکست کے بعد دباؤ کا شکار ہے ، افتخار احمد نے میڈیا کانفرنس میں اس ہار کے دکھ کو بھی بیان کیا، کوئی ایک غلطی جلد واپسی کا انتظام کرا سکتی ہے گرین شرٹس اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں، اسی لیے آج 2 بار پریکٹس سیشنز کیے،فخر زمان کی فٹنس میں بہتری سے مینجمنٹ کے حوصلے تھوڑے بلند ہوئے ہیں۔

پاکستان اور بھارت میں کرکٹرز کا کسی وزیر سے کم پروٹوکول نہیں ہوتا مگر آسٹریلیا،نیوزی لینڈ اور یورپی ممالک میں انھیں ایئرپورٹ پر اپنا سامان بھی خود اٹھانا پڑتا ہے، زیادہ ناز نخرے برداشت نہیں کیے جاتے، دیسی کھانے مل تو جاتے ہیں لیکن ظاہر ہے آئی سی سی بریانی، قورمہ یا بھارت کو اڈلی ڈوسہ وغیرہ تھوڑی بنوا کر دے گی، اس لیے بہت سے کرکٹرز کو کھانے پسند نہیں آتے۔

بھارتی ٹیم نے تو باقاعدہ ناراضگی کا اظہار بھی کیا، کوویڈ کی پابندیاں ختم ہونے کے بعد اب تو آسانی ہے کھلاڑی باہر سے بھی کھانا منگوا سکتے ہیں، ہر شہر میں ایسے دوست یا مداح بھی مل جاتے ہیں جو کھانا ہوٹل تک پہنچا دیتے ہیں،پہلے راؤنڈ میں کئی اپ سیٹ نظر آئے تھے،اب سپر12 میں آئرلینڈ نے انگلینڈ کو حیران کن شکست دے دی،اس سے واضح ہے کہ کوئی بھی کسی کو ہرا سکتا ہے۔

کسی کو تر نوالہ نہ سمجھیں، چھوٹی ٹیموں کے خلاف تو زیادہ دباؤ ہوتا ہے کیونکہ ناکامی پر سب کی توپوں کا رخ آپ کی جانب ہو جاتا ہے،پاکستانی ٹیم کے کوچز کا کردار زیادہ تر خاموش تماشائی جیسا ہے، کپتان اور چند سینئر کرکٹرز ہی حاوی نظر آتے ہیں، بابراعظم کی قائدانہ صلاحیتوں کا بھی ورلڈکپ ایک امتحان ہے۔

بھارت سے میچ میں انھوں نے بعض غلطیاں کیں جو واضح بھی ہو گئیں، اب انھیں بھی بولرز کو دیکھ بھال کر استعمال کرنا ہوگا، ویسے یہ مسٹری اب تک حل نہیں ہوئی کہ اسپنر محمد نواز کو آخری اوور میں فاسٹ بولنگ کا کس نے کہا تھا،پھر وائیڈ اور نوبال نے کام مزید خراب کر دیا، اب اگر کسی میچ میں ایسے اعصاب شکن لمحات آئیں تو پینک ہوئے بغیر ان سے نمٹنا ہوگا۔

شان مسعود نے رنز تو بنائے مگر انھیں اسٹرائیک ریٹ بڑھانا چاہیے، بظاہر پاکستانی ٹیم کے مسائل اب بھی برقرار نظر آتے ہیں مگر امید یہی کرنی چاہیے کہ کھلاڑی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے وننگ ٹریک پر آ جائیں گے، کیچنگ کا معیار بڑھانا ہوگا، خودساختہ پاور ہٹرز کو بھی کچھ کرنا چاہیے،خیر اب زمبابوے سے میچ میں دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے،کوشش ہو گی کہ اسٹیڈیم سے آنکھوں دیکھا حال آپ تک پہنچاؤں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔