وہ تو جب آتے ہیں مائل بہ کرم آتے ہیں

رفیع الزمان زبیری  جمعـء 28 اکتوبر 2022

عبدالرؤف ملک نے فیض سے اپنی دیرینہ وابستگی، انس اور مدحت کے اظہار کے لیے ان کی شاعری ، فکر و فن اور شخصیت پر اہل قلم کے لکھے ہوئے کچھ مضامین مرتب کرکے شایع کیے ہیں اور اس مجموعے کا نام مشہور روسی دانشور ، ڈاکٹر لدمیلا کے مضمون کے عنوان پر رکھا ہے۔ وہ تو جب آتے ہیں مائل بہ کرم آتے ہیں۔ سید سجاد ظہیر ، فیض کے ساتھ راولپنڈی سازش کیس میں حیدرآباد جیل میں تھے۔

اپنے مضمون میں وہ لکھتے ہیں ’’ ان دنوں ہم لوگ ہر پندرہ دن پر چھٹی کے دن جب جیل میں ہمارے مقدمے کی سماعت نہیں ہوتی تھی ، ایک طرحی مشاعرہ کرتے تھے جس کے لیے شعر کہنا ہر قیدی کے لیے لازمی تھا۔ دراصل یہ فیض کے خلاف ایک سازش تھی تاکہ ان کو شعر لکھنے پر مجبورکیا جائے۔ انھی حالات میں فیض نے وہ غزل لکھی۔

تم آئے ہو نہ شبِ انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے

اور اب آپ بھی یہ سمجھ سکتے ہیں کہ اس مشہور شعر کے محرک کون سے حالات تھے۔

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہیں
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے

پروفیسر سلامت اللہ خاں اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’’ فیض کی شاعری میں جو چیز ابتدا سے کھٹکتی ہے وہ ان کی روح کی تنہائی ہے ، خواہ وہ ایک نظم ہو یا پورا مجموعہ لیکن پڑھتے ہوئے قاری ان کی روح کی تنہائی کبھی نظر انداز نہیں کرسکتا۔ بہت کچھ شیلے کی طرح ان کی اکتائی اکتائی سی نظریں گرد و پیش پر پڑتی ہیں، اپنے دور کی زوال پذیر نظروں سے مایوس ہوتی ہیں اور پھر وہ اس نئے دور کی منتظر رہتی ہیں جب یہ تاریک غبار چھٹ جائے گا۔

پروفیسر قمر رئیس لکھتے ہیں ’’ فیض اپنی اسیری کے تجربے کے حوالے سے کہتے ہیں کہ عاشقی کی طرح جیل خانہ بھی ایک بنیادی تجربہ ہے جس میں فکر و نظر کا ایک آدھ دریچہ خود بخود کھل جاتا ہے۔ باہر کی دنیا کا وقت اور فاصلے دونوں باطل ہو جاتے ہیں۔ نزدیک کی چیزیں بہت دور ہو جاتی ہیں اور دور کی نزدیک۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب اسیری میں یوں زماں و مکاں کا شعور یا اس کے فاصلے مٹتے ہیں تو وجود کے اندر احساس کی لو اونچی ہو جاتی ہے، دکھی انسانیت سے درد مندی کا ازلی رشتہ کسی پرانے زخم کی طرح چمک اٹھتا ہے۔‘‘

پروفیسر محمد حسن اپنے مضمون میں لکھتے ہیں ’’ شاعر کی عظمت کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ وہ غم سے کس طرح نبٹتا ہے، اس سے کس سطح پر اور کس طرح کا معاملہ کرتا ہے۔ غم کے گیت گانا آسان ہے، غم و اندوہ کی پیاسی لہروں میں بہہ جانا دشوار نہیں۔

ایسے کئی اچھے بلکہ عظیم ہونے کے مستحق شاعر تھے جو ان نہروں میں بہہ گئے اور پھر نہ ابھرے مگر غم کو رگ و پے میں اتارنا ، اسے جزو شاعری بلکہ جزو زیست سمجھ کر اپنانا دراصل یہی شاعرانہ عظمت کی شرط ہے۔ فیض نے یہی کہا ہے اور چونکہ غم کا وہ زہر جو انھوں نے پیا ہمارا اپنا بھی تھا اس لیے جب اس کی گہرائی اور تڑپ فیض کے شعروں میں ابھر کر سامنے آتی ہے تو جانے انجانے طور پر اس طرح تڑپا جاتی ہے جیسے کسی نے دکھتی رگ کو چھو دیا ہو یا کوئی جلتا انگارہ ہاتھ میں آگیا ہو۔‘‘

پروفیسر حسن کہتے ہیں کہ فیض محض ایک شاعر نہیں ہیں، اس سے کہیں زیادہ اور بہت کچھ ہیں اور یہ بہت کچھ ان کی شخصیت اور ان کی افتاد میں بھی مضمر ہے جسے انھوں نے ’’ جنوں میں جتنی بھی گزری بیکار گزری ہے‘‘ کے لفظوں میں ادا کیا ہے۔قرۃ العین حیدر ’’سرودِ شبانہ‘‘ کے عنوان سے لکھتی ہیں۔ ’’ فیض ایک سپر اسٹار ہیں۔ اردو افسانہ و ناول نگار کے برعکس اردو شاعر ایک پرفارمنگ آرٹسٹ بھی ہوتا ہے۔

مشاعروں کے ذریعے اس کا گہرا رابطہ عوام سے قائم رہتا ہے اور وہ براہ راست لوگوں کے دلوں سے بات کرتا ہے۔ فیض ، ان خوش قسمت شعرا میں سے ہیں جو خواص و عوام دونوں کو خوش آتے ہیں حالانکہ موصوف بہت قابل ذکر پرفارمنگ آرٹسٹ نہیں ہیں۔ نہ ترنم سے پڑھتے ہیں اور نہ ان کا تحت الفظ تہلکہ خیز ہے، مگر ان کا کلام اتنا سحر انگیز اور دل پذیر ہے اور وہ شخصیت کا ایسا Charisma رکھتے ہیں جو بہت کم لوگوں کو میسر آیا ہے۔‘‘

عزیزہ بانو اپنے مضمون میں فیض کی شاعری کے بارے میں لکھتی ہیں کہ ’’ انسان اور انسانیت کے تئیں سچا جذبہ فیض کی شاعری کا ایک اہم اور نمایاں حصہ ہے، انھیں بین الاقوامی شہرت کا حامل بناتا ہے ، اس سے انھیں جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔ انھوں نے شاعری کی ابتدائی منزل میں جو نظریہ حیات اپنایا تھا ، اس کی ترجمانی ساری عمر کرتے رہے۔

حقیقت یہ ہے کہ فیض اپنی ایک الگ آواز رکھتے تھے جس میں ان کا ذاتی کرب اپنے عہد کی کشمکش بن کر سامنے آیا ہے۔ یہی ان کی انفرادیت ہے اور یہی ان کی عظمت کا راز ہے۔ڈاکٹر لدمیلا وسیلووا کا مضمون فیض کی شاعری اور فکر و فن سے ہٹ کر ان کی شخصیت اور ان سے ذاتی وابستگی کا تذکرہ ہے۔ وہ لکھتی ہیں ’’ لاہور اور دہلی کی طرح ماسکو بھی فیض صاحب کا محبوب شہر رہا ہے اور ماسکو والوں نے بھی فیض کو ٹوٹ کر چاہا ہے۔

اس شہر میں ان کے دوستوں، رفیقوں اور ان سے والہانہ محبت کرنے والوں کی تعداد کبھی کم نہیں رہی ہے۔ وہ جب آتے تھے تو ہم اردو والوں کے لیے اس شہر کی رونق بڑھ جاتی تھی۔ ہر شام زیادہ رنگین اور خوبصورت ہو جاتی تھی۔ اس میں ان کی دل نواز شخصیت اور شاعری دونوں کا دخل ہوتا تھا۔ اب یہ سوچ کر اندر اور باہر ایک عجیب ویرانی کا احساس ہوتا ہے کہ فیض صاحب اب کبھی ماسکو نہیں آئیں گے، اب کبھی فون پر ان کی بھاری اور پرخلوص آواز سنائی نہیں دے گی۔‘‘

فیض سے لدمیلا کا تعارف یوں ہوا کہ ماسکو یونیورسٹی میں طالب علمی کے زمانے میں انھیں اردو شاعری کا شوق ہوا۔ پھر لکھنو اور دلی میں جہاں وہ طالبہ کی حیثیت سے زبان کی ٹریننگ کے لیے تقریباً ایک سال کے لیے بھیجی گئی تھیں، یہ شوق اور گہرا ہو گیا۔

1967 میں جب ماسکو میں غالب کی صد سالہ جوبلی منانے کی تیاریاں ہو رہی تھیں اور فیض ماسکو آئے ہوئے تھے تو ان کی ملاقات فیض سے ہوئی۔ ان کی درخواست پر فیض نے انھیں غالب کے اشعار کے انتخاب میں مدد دی، غالب کے مشکل اشعار بھی پڑھائے اور مجموعی طور پر اردو شعر و شاعری کے کچھ اسباق بھی۔ لدمیلا لکھتی ہیں کہ فیض صاحب سے اس قسم کے سبق لیتے رہنے کا وقتاً فوقتاً 17 برس کے دوران برابر موقعہ ملتا رہا۔

سید جعفر احمد اپنے مضمون میں لکھتے ہیں۔ فیض کے انسان دوستی کے تصور کو سمجھ کر ہی ہم ان کی شاعری کے شعری محاسن سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور ان کے فلسفہ حیات کے پس منظر ہی میں ان کی غنائیت، ان کا خوب صورت ڈکشن، ان کے ہاں عشقیہ اور سیاسی موضوعات کا امتزاج اور ان کی رجائیت وغیرہ صحیح معنوں میں ہم پر واضح ہوتی ہے۔ فیض کے اسی تصور حیات سے ان کا حب الوطنی کا تصور بھی وابستہ ہے۔ ان کے نزدیک اپنے وطن سے وابستگی یا وفا داری حکومتوں یا ان کے طفیلی اداروں سے وابستگی کی مرہون منت نہیں ہے۔

نہ ہی حب الوطنی کے لیے کسی دربار سے سند کی ضرورت ہے بلکہ حب الوطنی تو اپنے ملک کے انسانوں سے محبت کا نام ہے اور اس حب الوطنی کی سند خود انسان کا ضمیر ہے۔ اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ فیض کی شاعری ابنائے وطن سے محبت کی شاعری ہے۔ انھوں نے اپنے اشعار میں اہل وطن کے دکھ درد کی تفسیر بڑے فن کارانہ پیرائے میں بیان کی ہے اور اگر انھیں مصائب میں دیکھا ہے تو نجات کی نوید دی ہے۔

صبا نے پھر درِ زنداں پہ آ کے دستک دی
سحر قریب ہے دل سے کہو نہ گھبرائے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔