اور اب موسم کی بے ایمانی
ہماری حکومت طالبان سے سرکاری سطح پر مذاکرات کر رہی ہے اور امن کی متلاشی ہے۔
ایک مولانا جو ان دنوں پس منظر میں چلے گئے ہیں یا بھیج دیے گئے ہیں اپنی اس سبکی کا انھوں نے یوں اظہار کیا تھا کہ طالبان حکومت کے ساتھ اور حکومت طالبان کے ساتھ مذاق کر رہی ہے۔ یہ ان مبینہ مذاکرات کے ابتدائی ایام کی بات ہے جب مذاکرات مسلسل التوا کے شکار تھے اور یہ جو کچھ بھی تھا اس کا کرتا دھرتا مولانا کی جگہ ان کا رقیب مولانا سمیع الحق تھا تو انھوں نے محرومی اور تلخی کے کسی عالم میں کہا تھا کہ سب ایک دوسرے کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں۔ اب اس مذاق میں موسم بھی شامل ہو گیا ہے۔ فلمی گانے کا حوالہ لیا جائے تو موسم بڑا بے ایمان نکلا ہے اور مذاکرات کی نئی فہم کو بھی مایوس کر دیا ہے۔ موسم کی خرابی کا نتیجہ یہ نکلا ہے اس میں ہیلی کاپٹر وغیرہ نہیں اڑ سکتے اور بعض شرکاء گفتگو اس قدر ضعیف اور میری طرح گئے گزرے ہیں کہ ان پہاڑوں کے راستوں پر سفر کی صعوبت برداشت نہیں کر سکتے اس لیے موسم ساز گار ہونے کا انتظار ہے تا کہ کمیٹی رواں اور مکمل ہو سکے۔ پہلی کمیٹی تو زائد المیعاد ہو چکی ہے اس کی جگہ اس نئی کمیٹی نے لی ہے جو موسم کی خرابی سے بے کار ہو گئی ہے۔ اب خدا کرے موسم کبھی ساز گار ہو جائے اور یہ کام آگے چل سکے۔ اب تو ہر پاکستانی جانتا ہے کہ ہماری حکومت طالبان سے سرکاری سطح پر مذاکرات کر رہی ہے اور امن کی متلاشی ہے۔
ہمارے جیسے ایک عام پاکستانی کی بات بڑے لوگ نہ سنتے ہیں نہ اس پر توجہ دینے کو تیار ہوتے ہیں لیکن وہ جن کی یعنی طالبان کی سنتے ہیں طالبان ان کی بات بھی سنی ان سنی کر دیتے ہیں اور انھیں ابہام میں مبتلا رکھتے ہیں۔ کئی موسم آئیں گے اور گزر جائیں گے برفیں پڑتی اور پگھلتی رہیں گی اور ان دنوں طالبان جو تیاری بھی کر رہے ہیں وہ جب ان کے خیال میں مکمل ہو گی تو پھر برف پگھلنے کے بعد نئے سرے سے ''مذاکرات'' شروع ہوں گے اور ہمارے بڑے لوگ ملک سے بھاگ کر ان بینکوں کے آس پاس جا کر ڈیرے ڈالیں گے جن میں ان کے اربوں ڈالر جمع ہیں اور ان میں سے کوئی ایک بھی ہمارے روپے کو اپنی پناہ میں لے سکتا ہے۔ مشہور یہ ہے بلکہ افواہ یہ ہے کہ کسی سعودی عرب وغیرہ نے یہ رقم نہیں دی بلکہ یہ پڑوس سے آئی ہے جس کے ساتھ ہم پیار کی جپھیاں ڈالنے کے لیے بے تاب ہیں۔ بیچ میں ایک دیوار حائل ہے جو جلد ہی ان ڈالروں کی دھمک سے ملبے کا ڈھیر بن جائے گی اور پھر آملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک۔ مجھے دکھ اس بات کا نہیں کہ یہ مال کہاں سے آیا دکھ یہ ہے کہ بہت کم ہے لیکن اس کی شاید قیمت بہت زیادہ ہے اتنی زیادہ کہ تاریخ اپنے کئی پرانے صفحات پھاڑ کر اور جلا کر نئے سرے سے لکھے گی۔
بات مذاکرات کی کمیٹی سے شروع کی تھی۔ لیکن ان دنوں دماغ اس قدر پریشان اور گھبرایا ہوا رہتا ہے کہ بات کہیں سے کہیں تک نکل جاتی ہے اور موضوع بدلتے رہتے ہیں۔ بہر حال مذاکرات کے ابتدا میں ہی عرض کیا تھا بلکہ نقار خانے میں اس طوطی نے کہا تھا کہ یہ مذاکرات کسی صورت میں بھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ اگر اسلام آباد میں بیٹھے ایک عالم صاحب زمانے سے بے خبر ہو کر اور عقل سلیم کو خیرباد کہہ کر لایعنی 'فتوے' دے سکتے ہیں تو ان کے بھائی بندوں سے کوئی بات چیت کیسے ہو سکتی ہے۔ طالبان نے صاف الفاظ میں کہہ رکھا ہے کہ وہ پاکستان میں اسلامی نظام کا قیام چاہتے ہیں جس کی ایک جھلک اسلام آبادی عالم دین نے پاکستانیوں کو دکھا دی ہے۔
کچھ لوگوں کے لیے یہ ایمان کا معاملہ ہے اور وہ اپنے ایمان کو ترک نہیں کر سکتے اگر ہم پاکستانی منافقت چھوڑ کر مقاصد کی قراردادیں اور آئین کی شقیں ہی نہ بناتے رہتے اور پاکستان کی سرزمین پر بھی کچھ کر دکھاتے تو طالبان قسم کے لوگوں کا سامنے آنا ممکن نہیں تھا لیکن ہم نے نہ صرف تحریک پاکستان کے کروڑوں مسلمانوں سے دھوکہ کیا اور ان کی بات کو محض ایک نعرہ سمجھا کہ 'پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ، اور اس سے دور بھاگتے رہے تو اب وہ وقت آ گیا جب اس نعرے پر عملدرآمد کی ایک جھلک اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ نے دکھا دی ہے اور طالبان نے اس پر عملدرآمد کی ایک متوقع جھلک قوم کے سامنے پیش کر دی ہے اور اس عزم کے ساتھ کہ اب گو ہماری حکومت مذاکرات پر زور لگا رہی ہے لیکن ان کی ناکامی یقینی ہے۔ آپ ان کی بات مان لیں ان کی مرضی کا اسلام لے آئیں تو مذاکرات ایک لمحے میں کامیاب ورنہ مذاکرات بھی جاری رہیں گے اور حکمرانوں کی دہشت بھی اور اس کے ساتھ پوری قوم کی زندگی بھی عذاب میں مبتلا رہے گی۔
ہماری حکومت کے نہ جانے کون مشیران کرام ہیں جن کی عقل میں یہ بات بھی نہیں آتی کہ اس طرح کی غیر سرکاری اور محدود نوعیت کی تنظیموں کو کسی ریاست کی حیثیت نہیں دی جاتی۔ ہم نے یعنی حکومت پاکستان نے طالبان کو اپنے برابر کی حیثیت دے کر ان کے ساتھ مذاکرات شروع کر دیے۔ مجھے تو حکومتی پالیسیوں سے ڈر لگنے لگ گیا ہے اگر ان کو سوجھ بوجھ ایسی ہی ہے تو اس چالاک دنیا میں یہ مشیران کرام ہمیں کہاں لے جا کر ماریں گے۔ یہ ملازم قسم کے مشیر صرف ملازمت کر سکتے ہیں قیادت نہیں کر سکتے۔ ہمارے حکمرانوں کو جرات کے ساتھ مذاکرات کو کسی موڑ پر خیرباد کہہ دینا چاہیے کیونکہ فریق ثانی نے جو کرنا ہے وہ کرنا ہی ہے مذاکرات یا ان کے بغیر۔