ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  جمعـء 11 نومبر 2022
advo786@yahoo.com

[email protected]

ایک بڑی خوش کن خبر ہے کہ یوم اقبال کی تعطیل کو بحال کر دیا گیا ہے۔ جس سے اقبال شناسوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اس تعطیل کو چند سال قبل بغیر کسی جواز و وجہ بتائے منسوخ کر دیا گیا تھا۔ بہرحال دیر آید درست آید۔ یہ ایک بہت اچھا اور بڑا فیصلہ ہے۔

9 نومبر کا دن حکیم الامت ڈاکٹر محمد اقبال کی نسبت سے ہماری تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک عظیم مفکر، تاریخ دان، دور اندیش سیاست دان اور قانون کے ماہر علامہ اقبال جنھوں نے انگریزوں اور ہندوؤں سے معرکہ آرائی کرکے ایک شکستہ و محروم قوم میں وہ روح بیدار کی جس سے وہ سیکڑوں سالہ غلامی و محکومی کے عذاب سے نکل کر حکمرانی کے منصب پر فائز ہوئی۔ انھوں نے صرف تصور پاکستان ہی نہیں دیا بلکہ اس کو مستحکم کرنے اور رفعت کی بلندیوں تک پہنچانے کی حکمت عملی بھی عطا کی۔

اقبال کا شاعری کے علاوہ نثر میں بھی بڑا مقام ہے ان کا کلام ، مضامین، خطوط، خطبات ہماری سیاست، معیشت، معاشرت و مذہبیت غرض زندگی کے ہر شعبے میں ہماری رہنمائی کرنے کے لیے موجود ہیں۔

اقبال کے بارے میں دانش مندوں کی رائے ہے کہ ’’ اگر انگریز اقبال کو سمجھ جاتا تو وہ ایک دن بھی قید فرنگ سے آزاد نہ رہ سکتے اور اگر مسلمان سمجھ جاتا تو ایک دن بھی محکوم نہ رہتا۔‘‘ ہماری بدقسمتی ہے کہ فکر اقبال سے بے خبری ہماری عالمی محکومیت کا باعث بنی ہے۔ آج اقبال شناسوں کا ہجوم نہ جانے کہاں گم ہو چکا ہے جس کے لیے اقبال یوں دعا گو تھے:

جوانوں کو مری آہ سحر دے

پھر ان شاہین بچوں کو بال و پَر دے

خدایا آرزو میری یہی ہے

مرا نور بصیرت عام کر دے

کلام اقبال جو ہر تقریر سے پہلے اور ہر تقریر کے بعد ، ہر خبرنامے سے پہلے اور ہر خبرنامے کے بعد اپنی اثر انگیزیوں کے ساتھ قومی ٹی وی چینل پر موجود ہوتا تھا، اسکولوں کی اسمبلیوں میں پڑھایا جاتا تھا، کتابوں کی زینت ہوتا تھا، موضوع گفتگو ہوتا تھا آج یہ تمام چیزیں اس سے تشنہ ہی نہیں بلکہ ناآشنا ہو چکی ہیں۔ جس کا شکوہ اقبال کی روح ان الفاظ میں دہرا رہی ہوگی:

شکایت ہے مجھے یا رب خداوندانِ مکتب سے

سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا

آج کے معروضی حالات میں اقبال کی نظم کے یہ الفاظ راقم الحروف کے علاوہ نہ جانے کتنے اقبال شناسوں کے ذہن کے دریچوں پر بار بار دستک دیتے ہوں گے جس کی منظر کشی انھوں نے اپنی نظم ’’ ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام‘‘ میں کچھ اس طرح کی ہے:

لا کر براہمنوں کو سیاست کے بیچ میں

زناریوں کو دیر کہن سے نکال دو

وہ فاقہ کشی کی موت سے ڈرتا نہیں ذرا

روح محمدی اس کے بدن سے نکال دو

فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات

اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو

افغانیوں کی غیرت دیں کا ہے یہ علاج

ملا کو ان کے کوہ دمن سے نکال دو

اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز

ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو

غیر مذاہب اور غیر ممالک کے محققین علامہ کے کلام کی آفاقیت کے معترف و قائل ہیں اور اس پر تحقیق کر رہے ہیں اپنی اپنی زبانوں میں تراجم کرکے اپنے لوگوں کو اس سے روشناس کرا رہے ہیں اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔

اقبال جو رہی خودی تو شاہی جو نہ رہی تو رو سیاہی کے قائل ہیں وہ چاہتے ہیں کہ فرد اپنی خودی کو پہچانے، پوشیدہ قوتوں کو عیاں کرے، کرگس اور شاہین کی پرواز میں امتیاز کرے، شاہی ایوانوں کے طواف کے بجائے اپنا طواف کرے اور اپنے مقام سے آگاہ ہو۔

اقبال نے خودی کی قوت اور نفی خودی کے نقصانات واضح کرنے کے لیے بڑی حکیمانہ طور پر شاعرانہ توجیہات پیش کی ہیں جس سے ان کی قوت فکر و رفعت تخیل کا اندازہ ہوتا ہے۔ اقبال کے ہاں خودی کا تصور درحقیقت قرآن کریم کے نیابت الٰہی کے تصور کا آئینہ دار ہے۔ فرماتے ہیں:

اس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے

جو قوم کر نہ سکے اپنی خودی سے انصاف

ساتھ ہی اس کا علاج بھی تجویز کردیتے ہیں کہ:

وجود کیا ہے؟ فقط جوہر خودی کی نمود

کر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود ترا

انھوں نے فرد کی تربیت کے لیے اسرار خودی اور جماعت کی تنظیم کے لیے رموز بے خودی لکھی اور اپنی زندگی اس کام کے لیے وقف کردی۔ ان کا کلام قرآن کی ترجمانی اور شاعری عشق رسولؐ سے سرشار نظر آتا ہے۔

ان کا ایک ایک لفظ مقصدیت، تربیت اور اصلاح کا پہلو سموئے ہوئے ہے جو جمود کو توڑ کر اور بے حسی کو چھوڑ کر عزم و ولولہ کے جذبات موجزن کرتا ہے جو قوم کو غلامی سے آزاد اور محکومی و محرومی سے حکمرانی کی طرف پیش قدمی پر گامزن کرتا ہے۔

اقبال کے نزدیک قطع آرزو موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ احساس محرومی اور مایوسی، محکومی اور ناکامیوں کو جنم دیتی ہے۔ وہ ہر نقصان، شکست و ناکامی سے امید و یاس و کامیابی و کامرانی کا باب نکالتے ہیں مثلاً یہ کہ:

گر عثمانیوں پہ ٹوٹا کوہ الم تو کیا غم

خون صد ہزار انجم سے ہوتی سے سحر پیدا

اقبال فرد کو بیدار کرکے اعتماد ذات پیدا کرنے کی جستجو کرتے ہیں۔ مرد مومن، مرد حق، مرد حُر، مرد آہن اور شاہین و عقاب جیسے خطابات وہ زندگی کے دائمی تصور اور خالق و مخلوق کے تعلق کو واضح اور جاں گزیں کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں جیسے کہ:

خدائے لم یزل کا دست قدرت تو زباں تو ہے

یقیں پیدا کر اے غافل! کہ مغلوب گماں تو ہے

اقبال نظریہ ملت اور اتحاد بین المسلمین کے خواہاں تھے۔ تہران کو عالم مسلم کا جنیوا دیکھنے کے متمنی تھے اور فرماتے تھے: ’’اس قوم پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے جو اپنے سے ناامید ہو کر اغیار پر بھروسہ کر رہی ہو۔‘‘

بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے ناامیدی

مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے

آج اقوام متحدہ، ورلڈ بینک، آئی ایم ایف جیسے دیگر ادارے اقبال کی خودی پر ضرب کاری ہیں اور ان کے فکری وارثوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

آج کے ہمارے تمام مسائل جن میں فرقہ پرستی، دہشت گردی، عالمی مالیاتی اور سیاسی اداروں کی غلامی یا مسلمانوں کے خلاف کیا جانے والا بین الاقوامی پروپیگنڈا ان تمام کا حل فکر اقبال کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ راقم کا یقین کامل ہے کہ اقبال شناسی کو عام کرکے ہم اپنے نوے فیصد مسائل ومصائب بغیر کسی تگ و دو کے ختم کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔