قانون کی رادھا

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 12 نومبر 2022
barq@email.com

[email protected]

قانون بھی مذہب، وطن، ملک اورآزادی کی طرح ان چیزوں میں شامل ہے جو بنیادی طورپر تو اچھی ہوتی ہیں لیکن اشرافیہ کے ہاتھوں پہنچ کر عوام کے خلاف ایک ہتھیار بنا دی جاتی ہیں ۔

عام طور پر دجلہ وفرات کے ایک استوری بادشاہ حمورابی کو قانون کا موجد یا بانی یا بنانے والا سمجھا جاتاہے جو لگ بھگ دوہزار (ق م) میں گزرا ہے اس نے تقریباً ڈھائی سو دفعات پر مشتمل ایک مسودہ قانون بنایا تھا۔

ایک دیواری نقشہ میں دکھایاگیاہے کہ حمورابی اپنا مسودہ قانون دیوتا مردوک کو پیش کر رہاہے ۔ جدید تحقیق کے مطابق قوانین کااجرا حمورابی سے بھی پہلے کچھ اور بادشاہوں نے کیا تھا، حمورابی نے صرف ان قوانین میں اصلاح کرکے انھیں مدون کیاہے ۔

بدیہی طور پر ’’قانون‘‘ کی ابتدا اس وقت سے ہوئی جب ’’لٹیرے‘‘ نے لوٹ کر جانے کی بجائے حکمران اور محافظ کا روپ دھارن کر لیا ، ظاہر ہے کہ حاکم اور زبردست کے منہ سے نکلنے والے الفاظ قانون ہی ہواکرتے تھے لیکن جیسے جیسے حکمران یا محافظ کا دائرہ اثر بڑھتاگیا اور اس کا تسلط مضبوط ہوتاگیا ،قانون کادائرہ بھی وسیع ہوتاگیا جس کا دوسرامطلب یہ ہے کہ عوامیہ یاآدمیہ مزید محصور،مجبوراورمحروم ہوتی گئی کیوں کہ اب حکمران یا اشرافیہ کے ہاتھ میں تلوار کے ساتھ ساتھ کچھ اور عوامل بھی پیدا ہونے لگے اور اگر گہرائی سے سوچا  جائے تو قوانین کو عوام کی بجائے ’’خواص‘‘ کا ہتھیار بنانا جاری رہا ورنہ اگر حقیقت ڈھونڈی جائے تو جرائم کی ابتدا خواص سے ہوئی ہے ، قانون کے مطابق مجرم چور ہوتا  ہے لیکن اصل میں مجرم ہوتاہے جس نے زور زبردستی یا چھل کیٹ سے’’ زیادہ‘‘ لیاہوا ہوتاہے یا یوں کیہے کہ اصل مجرم چورنہیں بلکہ ’’تالا‘‘ یا تالہ لگانے والاہوتا ہے۔ تالا لگانے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اس شخص کے پاس ایسا کچھ ہے جو دوسروں کے پاس نہیں اور جو دوسروں کے پاس نہیں صرف اس کے پاس ہے تو وہ ناجائزہوتاہے ، تالا لگانے والا ہی جرم کاآغازکرتا ہے لیکن چونکہ وہ اشراف ہے اس لیے جو کچھ وہ زیادہ حاصل کرنے کے لیے کرتاہے وہ قانون کی روسے جرم نہیں ہوتاہے لیکن تالا توڑ کر اپناحصہ حاصل کرنے والا چور اور مجرم بن جاتاہے۔

اس سلسلے میں ہارون الرشید کا واقعہ ہے کہ ایک دن بہلول دانا نامی بزرگ اس کے پاس بیٹھا ہواتھا کہ ہارون الرشید نے قطع ید کے بارے میں پوچھا یعنی چورکا ہاتھ کاٹنے کے بارے میں۔ بہلول دانا نے کہا اگر چور نے چوری مستی میں کی ہے تو اس کا ہاتھ کاٹناچاہیے لیکن اگر اس نے چوری نیستی کے مارے کی ہے تو پھر سر کاٹنا چاہیے، حاکم وقت کا۔

حمورابی کے دورکے بعد جو بھی انسانی معاشرہ جب بھی اورجہاں بھی قائم ہواہے اس میں اشرافیہ یا  حکمران طبقہ مزید ظالم اور استحصالی ہوتارہاہے اورقوانین میں ایسی ترامیم ہوتی رہیں کہ اشراف کی کمائیوں کو قانون کی زد سے بچایاجائے اور قوانین کو زیادہ سے زیادہ عوامیہ پر لاگوکیاجائے۔

حمورابی کے قوانین میں ایک دفعہ یہ تھی کہ اگر کوئی معمار کسی کامکان تیارکرے اور بعد میں وہ گرجائے تو وہ نقصان معمار اداکرے گا اگر مالک مکان اس میں مرا ہے تومعمار کو قتل کیاجائے گا اگراس کابیٹا بیٹی یاکوئی اور رشتہ داردب کر مرا ہے تو معمار کا ویسا ہی عزیزماراجائے گا لیکن چوں کہ معمار یا ٹھیکیدار اکثر اشرافیہ یا اس کے منظورنظر افراد ہوتے ہیں اس لیے آج کل کے قوانین میں ایساکوئی دفعہ نہیں ہے ،کم سے کم اس حد تک تو ہونا چاہیے کہ مکان کاخرچہ اس سے لیاجائے ۔

دوسرا دفعہ اس سے بھی دلچسپ ہے کہ اگر کوئی کسی پر دعویٰ کرے یا الزام لگائے اور وہ اس الزام کو ثابت نہ کر سکے تو جھوٹے مدعی کو وہی سزا دی جائے گی جو اس جرم کے مجرم کے لیے مقررہے اوراس دفعہ کااطلاق زیادہ ترحکومت اور اس کے اداروں پر ہوتاہے کیوں کہ موجودہ دور میں تقریباً ساری حکومتیں اپنے مخالفین کو اسی حربے سے مارتی ہیں، ان کے خلاف جھوٹے مقدمے بناکر پکڑتی ہے، مہینوں اور سالوں جیلوں میں سڑاتی ہے اورجب وہ بے شمار تکالیف اور اخراجات اٹھا کر بری ہوتاہے تو پکڑنے والوں اور مقدمہ قائم کرنے والوں کو کچھ بھی نہیں کہا جاتا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔