کراچی پسماندہ شہر رہے گا

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 16 نومبر 2022
tauceeph@gmail.com

[email protected]

کیا کراچی کبھی دنیا کے جدید شہروں کی فہرست میں شامل ہوگا؟ پیپلز پارٹی کی حکومت با اختیار بلدیاتی نظام کی اسی طرح مخالف ہے ، جس طرح جنرل ضیاء الحق 1973 کے آئین کے تحت عام انتخابات کے مخالف تھے۔

سندھ ہائی کورٹ کی بنچ جو جماعت اسلامی کی جانب سے بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف عرض داشت کی سماعت کر رہی ہے، الیکشن کمیشن کے وکیل نے اس بنچ کے سامنے خط جمع کرایا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بلدیاتی انتخابات 23 اکتوبر کو منعقد ہونے تھے مگر حکومت سندھ کے سیکیورٹی کے انتظامات کرنے سے معذوری کے بعد یہ پھر ملتوی ہوئے ۔

اب پھر حکومت سندھ کا یہ مؤقف ہے کہ پولیس کی نفری سیلاب زدہ علاقوں میں تعینات ہے۔ اسلام آباد کے آئی جی کو سندھ پولیس کے پانچ ہزار پولیس والے حوالہ کیے گئے ہیں جو تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے شرکاء کو قانون کی حدود میں احتجاج کے لیے اسلام آباد پولیس کی معاونت کریں گے۔ سندھ حکومت نے ایک نیا عذر معزز عدالت کے سامنے پیش کیا۔

حکومت کا کہنا ہے کہ بچوں کو کورونا سے بچاؤ کی ویکسین لگانے کی مہم کی حفاظت کے لیے پولیس کے دستے تعینات کیے گئے ہیں۔

کراچی شہر میں بین الاقوامی دفاعی سامان کی نمائش آئیڈیاز 2022منعقد ہوگی۔ اس نمائش میں دنیا بھر سے خریدار آئیں گے۔ ان کی حفاظت کے لیے بھی پولیس کی نفری تعینات ہوگی۔ یوں سندھ کی حکومت اگلے تین ماہ تک بلدیاتی انتخابات منعقد نہیں کروا سکتی۔

اب ایم کیو ایم کا مؤقف بھی تبدیل ہوگیا ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر نے سندھ ہائی کورٹ میں زیرِ التواء مقدمہ میں یہ عرض داشت داخل کی ہے کہ جب تک نیا بلدیاتی قانون نہیں بن جاتا انتخابات نہیں ہونے چاہیئیں۔ اس صورتحال کی بناء پر ملک کے دو بڑے شہر کراچی اور حیدرآباد بلدیاتی نظام سے محروم رہیں گے۔

گزشتہ سال کراچی میں بلدیاتی نظام کے نچلی سطح تک اختیارات کے تناظر میں خاصا ہنگامہ رہا تھا۔ سندھ حکومت نے منتخب بلدیاتی اداروں کی میعاد ختم ہونے پر ایڈمنسٹریٹر مقرر کیے تھے۔ پیپلز پارٹی کی مخالف سیاسی جماعتوں نے بلدیاتی نظام کو با اختیار بنانے کے لیے سپریم کورٹ میں عرضداشت دائر کی تھی۔

سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس گلزار احمد نے اپنی ریٹائرمنٹ کے آخری دن ایک مفصل فیصلہ میں بلدیاتی قانون کی بعض شقوں کو آئین کی خلاف ورزی قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔ پہلے جماعت اسلامی نے ایک ماہ تک سندھ اسمبلی کے سامنے دھرنا دیا اور پھر پیپلز پارٹی کی حکومت نے میئر کے اختیارات بڑھانے کے لیے ایک معاہدہ کیا۔

مصطفیٰ کمال کی جماعت پاک سر زمین پارٹی نے پریس کلب کے سامنے کئی ہفتوں تک دھرنا دیا۔ صوبائی وزراء نے جماعت اسلامی جیسا معاہدہ مصطفیٰ کمال کے ساتھ بھی کیا جب کہ ایم کیو ایم نے وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے مظاہرہ کیا۔

پولیس نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے گولے پھینک کر اپنا بنیادی فریضہ انجام دیا۔ پولیس نے ایم کیو ایم کے صوبائی اسمبلی کے کچھ اراکین پر تشدد کیا تھا۔ بعد میں وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اس تشدد پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔

اس سال کے آغاز پر سابق صدر آصف علی زرداری نے عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے لیے تحریک انصاف کی اتحادی جماعتوں سے مذاکرات کیے۔

ایم کیو ایم نچلی سطح تک اختیارات کے بلدیاتی نظام کے لیے قانون سازی، سندھ پبلک سروس کمیشن کی تنظیمِ نو اور کوٹہ سسٹم پر عملدرآمد ، اس کے علاوہ کراچی اور حیدرآباد میں نئی یونیورسٹیوں کے قیام کے لیے پیپلز پارٹی کے ساتھ ایک دفعہ پھر ایک معاہدہ پر متفق ہوئی تھی۔

اس دفعہ میاں شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن نے بطور ضامن معاہد ہ پر دستخط ثبت کیے تھے مگر پیپلز پارٹی نے ماضی کی روایت برقرار رکھتے ہوئے تینوں جماعتوں سے کیے گئے وعدوں کو فراموش کیا۔ ایم کیو ایم اس دوران کراچی میں منعقد ہونے والے دو ضمنی انتخابات ہار گئی۔

ایم کیو ایم کے کارکنوں میں مایوسی بڑھ گئی اور ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی میں اختلافات اتنے بڑھ گئے کہ اس کی گونج ذرایع ابلاغ میں سنائی دی۔ آسمان سے بجلی گرانے والی قوتوں نے کامران ٹیسوری کو سندھ کی گورنر شپ کی حیثیت سے تقرری کا فیصلہ کیا۔

کامران ٹیسوری نے ایم کیو ایم کے کارکنوں میں اپنی ساکھ کو بہتر بنانے کے لیے پیپلز پارٹی کی قیادت پر دباؤ ڈالا۔ سابق میئر وسیم اختر نے پیپلز پارٹی سے اتحاد ختم کرنے کی دھمکی دی اور کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن ضامن کی حیثیت سے مداخلت کریں۔ اس دباؤ سے مجبور ہو کر صوبائی حکومت کے وزراء نے دوبارہ ایم کیو ایم کے رہنماؤں سے مذاکرات کیے۔

گزشتہ ہفتے سندھ کی کابینہ کا اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں مسودہ قانون کی منظوری دی گئی۔ اس مسودہ کے بارے میں جو تفصیلات ظاہر ہوئی ہیں ان کے مطابق پیپلز پارٹی کی قیادت کراچی کے میئر کو کچھ اختیارات منتقل کرنے پر آمادہ ہوچکی ہے۔

اخبارات میں شایع ہونے والی اطلاعات کے مطابق اب میئر کراچی سندھ سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ بورڈ ، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اور کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی گورننگ باڈی کا سربراہ ہوگا۔ اس ترمیم کے بعد  محکمہ بلدیات کے وزیر اور سیکریٹری کے کچھ اختیارات میئر کو منتقل ہوں گے۔

کراچی کے بارے میں تحقیق کرنے والے اور این ای ڈی یونیورسٹی کے ڈین ڈاکٹر نعمان احمد نے اپنے ایک آرٹیکل میں تحریر کیا ہے کہ سندھ کی حکومت نے میئر کو جو اختیارات منتقل کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ ان سے میئر مکمل طور پر با اختیار نہیں ہوں گے بلکہ یہ اختیارات نمائشی ہیں۔

حکومت سندھ کے اربوں روپوں کی زمینوں کی الاٹمنٹ کے اختیارات میئر کے بجائے وزیر بلدیات اور وزیر اعلیٰ کے پاس ہی رہیں گے، یوں کراچی کی آمدنی کا بڑا حصہ بلدیہ کراچی کو نہیں ملے گا۔ ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اور اربن ٹرانسپورٹیشن ، امن و امان، بلڈنگ اور زوننگ کنٹرول (Building and Zuning Control) اربن اور ریجنل پلاننگ اور ثقافتی ورثہ جیسے اہم شعبے حکومت سندھ کے کنٹرول میں رہیں گے۔

اس مسودہ قانون کے تحت ان امور کو صرف نگرانی Oversightکا فریضہ انجام دیں گے۔ قانون کے طالب علموں کا بیانیہ ہے کہ منتخب اراکین بلدیاتی کونسل میں ان امور پر صرف بحث و مباحثہ کریں گے۔

جمہوری نظام پر تحقیق کرنے والے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ منتخب طلبہ یونین، مزدور یونین اور نچلی سطح کے اختیارات کے بلدیاتی ادارے نوجوانوں میں جمہوریت کا شعور پیدا کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ شہری منصوبہ بند ی کے ماہرین تو اس بات پر متفق ہیں کہ غربت کا خاتمہ اور شہروں کی ترقی میں بلدیاتی ادارے بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔

امریکا ، یورپ ، جاپان ، بھارت اور دیگر ممالک میں بااختیار بلدیاتی نظام انتہائی مضبوط ہے۔ اس نظام کے تحت منتخب اراکین تعلیم، صحت، پبلک ٹرانسپورٹ، امن وا مان، ماحولیات اور دیگر شعبوں کی ترقی کے لیے بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔

برطانیہ میں کاؤنٹی اپنے علاقے کے طلبہ کے لیے یونیورسٹی میں تعلیم کے لیے مالیاتی معاونت کرتی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ برطانیہ میں وزیر اعظم کے بعد لندن کے میئر کو سب سے زیادہ اختیارات حاصل ہیں۔ سندھ کی کابینہ نے بلدیاتی قانون میں ترامیم کی منظوری تو دے دی مگر انتخابات تین ماہ تک ملتوی کرنے یا غیر معینہ مدت تک ملتوی کرنے پر اتفاق بھی کرلیا۔ اب پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے مؤقف کے بعد سندھ ہائی کورٹ ہی انتخابات کے بارے میں کوئی فیصلہ کرسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔