سسٹم ، ایک منظم مافیا

امتیاز بانڈے  اتوار 20 نومبر 2022

چند روز قبل سرجانی ٹائون میں ایک فلاحی ادارے کی زمین پر کیے گئے قبضہ کو چھڑوانے کے لیے اینٹی انکروچمنٹ یونٹ اور ریوینو ڈیپارٹمنٹ کے افسران و اہلکار جب سائرہ بی بی گوٹھ پہنچے تو وہاں پر موجود قبضہ مافیا کے کارندوں نے ان پر براہ راست فائرنگ کردی۔ جس سے ایک مختیار کار جاں بحق اور ایک تپیدار اور مزید تین اہلکار زخمی ہوگئے۔

ایس ایچ او، اینٹی انکروچمنٹ کا کہنا تھا کہ ہم سندھ ہائی کورٹ کے حکم کی تعمیل میں یہاں آئے تھے۔ اس سے قبل بھی جب یہ افسران و اہلکار کسی قبضہ کی جگہ کو خالی کروانے گئے تو ہر جگہ سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور یہ پٹ کر اور زخمی ہو کر ہی واپس آئے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ قبضہ مافیا اتنی بے خوف اور مضبوط کیوں ہے کہ سرکاری اہلکاروں پر حملہ کرنے سے بھی نہیں چوکتی؟

آئیے! اس کا جائزہ لیتے ہیں۔اسکیم۔33 ، سرجانی ٹائون ، تیسر ٹائون ، ناردرن بائی پاس پر موجود سرکاری اور پرائیویٹ سوسائٹیزکی زمین اس وقت قبضہ مافیا کے لیے سونے کی کان کی حیثیت رکھتی ہے۔ سندھ میں اور بالخصوص کراچی میں ان پر قبضہ ایک ’’سسٹم‘‘ نامی نظام کی مدد اور معاونت سے کیا جا رہا ہے۔

یوں تو سندھ کے تمام سرکاری اداروں میں ’’سسٹم‘‘ کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے لیکن ہمارا آج کا موضوع سرکاری زمینوں پر قبضہ مافیا کا راج ہے۔ اس لیے ہم اسی پر بات کرتے ہیں۔ یہ ’’سسٹم‘‘ ہے کیا ؟ عام آدمی کے لیے یہ محض ایک لفظ ہوسکتا ہے لیکن سرکاری افسران و ملازمان اس سے بخوبی واقف ہیں۔ ہم اسے ایک منظم اور طاقتور ’’ مافیا ‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ میں نے ’’سسٹم‘‘ کے نمایندوں کی فون کالز پر بڑے بڑے سرکاری افسران کو ڈھیر ہوتے دیکھا ہے ، اگر یہ دیکھا جائے کہ یہ ’’سسٹم‘‘ کون چلا رہا ہے تو اس کے تانے بانے حکومتی ایوانوں سے جا کر ملتے ہیں۔

بظاہر یہ سسٹم ایک ’’ہائوس‘‘ سے چلایا جا رہا ہے لیکن اسے چلانے والا کوئی ایک نہیں ہے بلکہ اسے چلانے والوں نے اپنے اپنے علاقے بانٹے ہوئے ہیں۔ یوں سمجھ لیں یہ ایک طرح کا ٹھیکیداری نظام ہے جس کا ٹھیکہ ان لوگوں کو دیا جاتا ہے جو اس ٹھیکہ داری نظام کو ٹھیک طرح چلاسکے اور قبضہ سے ملنے والی بھاری رقوم اپنے اپنے ’’سسٹم‘‘ کے سربراہ تک باقاعدگی سے پہنچاتا رہے اور ایسے ٹھیکیدارکو ’’سات خون بھی معاف ہیں‘‘ یہ سسٹم چلانے والے مختلف اشخاص ایک دوسرے کے علاقے میں دخل اندازی نہیں کرتے۔

سسٹم کے ہرکارے جب اپنے سربراہ کو کسی زمین کی نشاندہی کرتے ہیں تو سب سے پہلے اس پر قبضہ کی “feasibility” بنا کر سسٹم کے سربراہ کو بجھوائی جاتی ہے تاکہ اسے پہلے سے علم ہو کہ اس زمین پر قبضہ کروانے سے اسے کتنا ’’ فائدہ‘‘ ہوگا ، جس کے بعد وہ زمین جس علاقے میں موجود ہو اس علاقے کے متعلقہ اداروں مثلا پولیس، اینٹی انکروچمنٹ اور ریونیو ڈیپارٹمنٹ کے افسران کو پیغام بھجوا دیا جاتا ہے کہ ’’ہمارے لوگ‘‘ یہاں کام شروع کرنے والے ہیں انھیں کوئی تکلیف نہ ہو۔

عموماً ایسے علاقوں میں سسٹم کی مرضی کے ڈی ایس پیز، ایس ایچ اوز، مختیار کار اور اینٹی انکروچمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے افسران پہلے سے متعین ہوتے ہیں لیکن اگر کوئی افسر سسٹم کے رابطے میں نہ بھی ہو تو اسے بھی یہ میسیج پہنچ جاتا ہے۔ اب اس افسر کی کیا مجال کہ وہ سسٹم کے کام میں مداخلت کرے اور اگر کوئی زیادہ ’’ اسمارٹ ‘‘ بننے کی کوشش کرے تو اس کا تبادلہ کروانا سسٹم کے دائیں ہاتھ کا کھیل ہے، لیکن ’’ سمجھدار ‘‘ افسران ایسا کرتے نہیں ،کیونکہ انھیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے بالا افسران بھی سسٹم ہی کی مرہون منت اپنی پوسٹنگز پر موجود ہیں۔

سب سے پہلے تو مختیار کار کے آفس سے موجودہ کھاتے میں تبدیلی کروائی جاتی ہے اور یہ کام کرنے کے لیے ایک زیرک مختیار کار اور تپیدار کی ضرورت ہوتی ہے ، جو اپنی تمام ’’صلاحیتوں‘‘ کو بروئے کار لاتے ہوئے جعلی دستاویزات تیار کرتا ہے، تاکہ کسی عدالتی کارروائی کی صورت میں ہمیشہ کے لیے نہیں تو کم از کم اتنی مدت کے لیے اصل کھاتے دار کو الجھایا جاسکے کہ قبضہ مکمل ہوجائے اور زمین بیچ دی جائے اور ایک بار قبضہ کی زمین فروخت کر دینے کے بعد اس کی تمام تر ذمے داری بیچارے خریدار پر ڈال دی جاتی ہے۔

علاقہ پولیس کا کام صرف ایسے قبضے کی ’’چوکیداری‘‘ کرنا ہوتا ہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی ’’بڑے‘‘ کام میں ڈی ایس پی، ایس ایچ او اور مختیار کار دفتر کا حصہ نہ ہونے کے برابر یا پھر بہت تھوڑا ہوتا ہے، کیونکہ اس قبضے کے بدلے میں انھیں ان کی پوسٹنگ برقرار رہنے کی نوید سنا دی گئی ہوتی ہے لیکن میرا مشاہدہ یہ ہے کہ پولیس والے کچھ نہ کچھ اپنا حصہ لے ہی لیتے ہیں۔

اسکیم33 میں نہ صرف سرکاری زمین بلکہ بے شمار پرائیویٹ سوسائٹیز کی زمینیں بھی موجود ہیں جن میں سے بیشتر پر قبضہ ہو چکا ہے ، گو کہ ان سوسائٹیز کے عہدیداروں نے زمین پر قبضہ چھڑوانے کے لیے پہلے تو متعلقہ اداروں سے رابطہ کیا جس میں یقینا انھیں کوئی مثبت جواب نہیں مل سکا کیونکہ وہاں سسٹم کا غلبہ ہے۔ اس لیے بہت سی سوسائٹیز نے عدالت عالیہ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا ہے اور ان کے مقدمات ان عدالتوں میں گزشتہ کئی سالوں سے پینڈنگ ہیں۔ اس دوران ان سوسائیٹیز کی زمینوں پر غیر قانونی تعمیرات یا تو ہو رہی ہیں یا پھر مکمل ہو چکی ہیں۔

اس وقت دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ جب کوئی فریادی اپنی زمین پر قبضہ کی شکایت لے کر متعلقہ تھانے جاتا ہے تو وہاں سے جواب ملتا ہے نئے قوانین کے تحت یہ معاملہ اب اینٹی انکروچمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کردیا گیا ہے۔ جب کہ ایسے قبضے والے جگہ سے متعلقہ تھانہ اپنا حصہ بقدر جثہ باقاعدگی سے لے رہا ہوتا ہے لیکن قبضہ چھڑوانے کی ’’اتھارٹی‘‘ اسے نہیں ہے۔

میں 2021 میں اسکیم ۔33 کے تھانے میں بطور انویسٹی گیشن انچارج متعین تھا۔ تھانے کے بالکل سامنے، چند گز کے فاصلے پر تقریبا 1/15 ایکڑ خالی پلاٹ جو دعویٰ کے مطابق ایک سوسائٹی کی ملکیت ہے، دیکھتے ہی دیکھتے، دن دیہاڑے، چند دنوں میں بائونڈری وال بنا کر باقاعدہ گیٹ لگا دیا گیا، جب میں نے ایس ایچ او سے دریافت کیا تو اس کا جواب تھا۔ ’’ہائوس سے فون آیا تھا، اس میں مداخلت نہیں کرنی۔‘‘ بلکہ اس کا یہ بھی گلہ تھا کہ ہمیں تو یہاں سے کچھ نہیں مل رہا۔

ایسی بے شمار زمینیں ہیں جہاں پولیس قبضہ ہوتے دیکھتی رہتی ہے، اینٹی انکروچمنٹ والے آنکھوں پر کالی پٹی باندھ لیتے ہیں کیونکہ ’’سسٹم‘‘ کے خلاف کوئی جانے کی ہمت نہیں کرسکتا۔ اسی تھانے میں ایک دن ایس ایچ او کی پارٹی کسی قبضہ والی جگہ سے کچھ مزدور اور کھدائی کا سامان اٹھا کر تھانے لے آئے۔ مجھے اپنے زونل آفیسر کے ریڈر نے فون کیا اور کہا صاحب کہہ رہے ہیں پتہ کرکے بتائیں کہ ایس ایچ او ان بندوں کو تھانے پر لایا تھا کہ نہیں۔

جب میں نے تصدیق کر دی تو تھوڑی ہی دیر بعد ان مزدوروں کو ان کے سامان سمیت اسی قبضہ والے پلاٹ پر واپس بھجوا دیا گیا۔ بعد میں علم ہوا کہ ’’بڑے صاحب‘‘ کو ’’ہائوس‘‘ سے فون آیا تھا اس لیے ان کا بلڈ پریشر لو ہوگیا تھا۔ انھوں نے ایس ایچ او کی سرزنش بھی کی اور حکم دیا آیندہ اس پلاٹ پر تھانے کا کوئی اہلکار نہ جائے۔ یہ ’’سسٹم‘‘ گزشتہ کئی سالوں سے کام کر رہا ہے اور اربوں روپے کی سرکاری اور سوسائٹیز کی زمینوں کو ہڑپ کر چکا ہے۔

دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ وفاق میں دو پارٹیوں کو اقتدار کی جنگ میں الجھا کر سندھ میں ’’ سسٹم‘‘ اپنا کام خاموشی سے جاری رکھے ہوئے ہے اور جن کے پاس اس ’’سسٹم‘‘ کو قابو کرنے کے اصل ختیارات ہیں وہ ادارے بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور خاموش تماشائی یہاں کسی لالچ یا مفاد کے بناء کہاں بن پاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔