کمبل مجھے نہیں چھوڑتا

جاوید قاضی  اتوار 20 نومبر 2022
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

ہماری سیاست اسٹیبلشمنٹ کے گرد گھومنے لگی ہے، یہ حقیقت تو ہے، المیہ بھی ہے، مگر اس کا حل منطقی ہونا چاہیے، خیالی و جذباتی نہیںاور اگر حل نہیں تو پھر اس کے منطقی انجام تک پہنچنے کے لیے ذرا اپنی سیٹ بیلٹ باند ھ لیجیے۔

بات اب یہاں تک پہنچی ہے کہ لانگ مارچ صرف ایک تقری کے لیے ہورہا تھا۔ اب تو چاک گریباں ہے، کوئی ادھر کو کھینچتا ہے کوئی ادھر۔جو سیاست کو اپنی زندگی کا مقصد عظیم سمجھتے ہوں اور زمینی حقائق اپنے پہلو میں رکھتے ہوں تو اس حقیقت کا ادراک ہونا ان پر لازم ٹھہرتا ہے۔ ہوگا کیا یہ اگر نیوٹرل ہو بھی گئے؟ اور اگر نہ ہوئے تو پھر کیا؟

کیا ہمارے جمہوری قوتوں میں وہ بلوغت آئی ہے جو اقتدار کی باگ ڈور سنبھال سکے جو ملاوٹ سے پاک ہو یا پھر ان کا ہاضمہ خراب ہوجائے گا۔ وہی جھگڑے آپس میں کر کے بیٹھیں گے جو میثاق جمہوریت سے پہلے کرتے تھے یا اس کے بعد بھی ’’منا بھائی‘‘ لگے ہوئے تھے کہ ایک دن خود میاںصاحب کا لا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ پہنچ گئے ،میمو گیٹ پٹیشن دائر کرنے کے لیے۔

یہ شاید پہلی بار ہے کہ میاں برادران ، بھٹوز کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ جنرل مشرف کی رخصتی پر، بے نظیر کی شہادت پر دونوں نے مخلوط حکومت وفاق میں بنائی تو تھی مگر کچھ وقت ہی چل پائی کیونکہ میاں صاحب کے پیچھے وہ سوچ بھی ساتھ تھی جسکو عمران خان لے اڑے۔ یعنی وہ والا کردار جو خان صاحب ادا کررہے ہیں وہ بھی میاں صاحب کے بغل میں پڑا تھا۔

یہ بات تب جاکے سمجھ آئی جب صاحب نے واقعی بھی بہت جرات مندانہ فیصلہ کیا کہ آرٹیکل چھ کے تحت جنرل مشرف پر مقدمے کا آغاز کیا۔ وہ سمجھے وہ پنجابی ہیں، کوئی سندھی، بلوچ یا پٹھان تو نہیں ہیں۔

اس جرات کو دیکھ کے عاصمہ جہانگیر میاں صاحب کی مداح تو بنیں مگر جب یہ پتہ چلا کہ میاں صاحب نے جوا کھیلا ہے عاصمہ جہانگیر نے بھی کہا کہ زمینی حقائق اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ یہ قدم جمہوری سفر برداشت نہیں کر سکے گا، بعد میں جاکے رانا ثناء اللہ نے بھی اقرار کیا۔

مگر اس وقت بہت دیر ہوچکی تھی، ڈان لیکس اپنا کام کرچکی تھی،یہ تو بھلا ہو عمران خان یا ہائبرڈ جمہوریت کے ناکام ہونے کا کہ میاں صاحب یاد آئے۔ ایف اے ٹی ایف کے بنائے قدغن ٹوٹے۔ ورنہ خان صاحب نے اور وہ جو خان کے پیچھے جنرل ضیاء الحق والی پرانی سوچ کھڑی تھی، اس نے تو اس ملک کی خارجہ پالیسی کے ساتھ دو دو ہاتھ کیے۔

یہ صاحب ماسکو پہنچ گئے عین اس وقت جب روس یوکرین پر حملہ کرنے جارہا تھا ۔ سمجھنے والوں کو سمجھ آگئی کہ کیا ہونے جارہا ہے۔ یہاں پر مقتدر قوتوںکے اندر ٹکراؤ تیز ہوا، وہ نیوٹرل ہوگئے اور حالات سے فائدہ اٹھاکر پی ڈی ایم نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے خان صاحب کا بستر گول کیا۔

لڑتا کوئی اور نہیں ، لڑتا سماج ہے۔ بدنصیبی سماج کو ایک مخصوص بیانیہ کے پیچھے لگا دیا گیا ، لوگوں کے ذہنوں میں مذہبی جنون اتار دیا گیا، ہر طرف فتوئوں کا بازار گرم تھا۔ ایسے میں معیشت کہاں چلتی، جن نوجوانوں نے ہنر سیکھ کے ملک کے لیے ڈالر کمانے تھے، ان کو جہادی تنظیموں کی خوراک بنا ڈالا گیا۔

افغان جنگ،طالبان اور دیگر انتہاپسند جنگجو گروپوں اوران سے جڑا کاروباری طبقے کا ذریعہ معاش ہے۔ امریکی امداد لیے جائو اور جئے جائو اور آج پورا افغانستان امنڈ آیا، ساڑھے چار کروڑ افغانی عوام اس خوراک پر جی رہی ہے جو یہاں سے اسمگل ہوتی ہے، سارا پیسہ اسمگلروں کی جیب میں جارہا ہے، بغیر کسی ٹیکس کے۔

ہماری جو جمہوری قوتیں ہیں، بالخصوص پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) ان میں اب بھی وہی جدی پشتی الیکٹبلز بیٹھے ہیں یا افغان جنگ کے مالی بینفشریز چھائے ہوئے ہیں، البتہ ان کی زیادہ تعداد پی ٹی آئی کے پاس ہے۔ سندھ میں تو یہ عالم ہے کہ ایک بھی نشست صوبائی اسمبلی کی پنچا ئیت کے اثر سے آزاد نہیں ہے۔

بھٹو کا سحر تو اب بالکل ختم ہوا ، اب پارٹی بالکل ختم، اب پارٹی صرف ’’مال کے بدلے مال‘‘ کے اصول پر گامزن ہے ،ان کو ایک لحاظ سے سندھ کے لوگوں نے بھی متحد کیا ہوا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں وڈیروں کا یہ گروپ جو بلاول بھٹو کی چھتری کے تلے بیٹھا ہے وہ اس صورتحال میں دوسرے آپشن سے بہتر ہے۔ ان وڈیروں سے جو آمریتوں میں جاکے بیٹھتے ہیں ، جن کے ساتھ بدنصیبی سے اربن سندھ کی مڈل کلاس سوچ بھی اس شامل ہوتی ہے۔

مشکل تو یہ ہے کہ ہم نے پاکستان بنایا ہوتا تو اس کا احساس بھی ہوتا۔ پاکستان بنایا اتر پردیش اور مشرقی پاکستان کے مسلمانوں نے ، ان کے پاس ایک بھرپور مڈل کلاس تھی، ورنہ پنجاب سے 1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ نہیں یونین پارٹی جیتی تھی، یہ ان خاندانوں پر مشتمل تھی جن کو انگریزوں نے پال پوس کے بڑا کیا تھا۔

خیبرپختونخوا میں جیتی کانگریس تھی۔ بلوچ بھی قلات اسمبلی میں آزاد بیٹھے تھے۔ سندھ میں بھی یا تو وڈیرے تھے یا ہندو مڈل کلاس تھی ان کے آپس میں تضادات تھے ، وڈیرہ اقتدار میں واحد طاقت بننا چاہتا تھا یا پھر مذہبی جماعتیں اور ان کے حامیوں کا طبقہ تھا،قائداعظم محمد علی جناح کے دنیا سے رخصت ہوتے ہی ماڈریت بزنس مین طبقہ کمزور پڑ گیا، جناح کی بہن فاطمہ نے آمریت کو للکارا، غدار ٹھہری۔ جاگیرداروں، مذہبی جماعتوں سے متاثر اربن مڈل کلاس، فوجی و سول افسر شاہی نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور ماڈریٹ طبقے کو سیاست سے الگ کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا، یوں پھر یہ سب فوج کے کاندھوں پر چڑھ گئے، اب فوج اپنے کاندھے چھڑوانے چاہتی ہے۔

کچھ اس طرح ہے یہ منظر کہ’’ میں کمبل کو چھوڑتا ہوں ، کمبل مجھے نہیں چھوڑ تا‘‘کے مصداق کبھی کبھی انقلاب اندرکی سوچ سے آتے ہیں، انقلاب یہ نہیں تھا جو مائو لائے تھے، لانگ مارچ کرکے۔ انقلاب تو یہ تھا کہ جب ڈینگ زیائو پینگ نے مائوکے بنائے بیانیے کو خیر آباد کہا اور موجودہ چین بنا اور اب دنیا کے بہت بڑی معاشی طاقت بن کے ابھر رہا ہے۔

انقلاب تو آیا تھا لینن والا، مگراس انقلاب کو اسٹالن یرغمال کر گیا، اور بالاخر 75 سال بعد سوویت یونین دنیا کے نقشے سے مٹ گیا اور ہمیں بھی جو جمہوریت جدوجہد سے پاکستان ملا تھا جس کی قیادت ایک کمزور پارٹی نے کی اور وہ بھی جناح کے بعد جو خلیج پیدا ہوئی ، وہ پہلے سول پھر فوجی افسر شاہی نے پر کی۔

سامراج یہاں سے گیا ہی نہیں، سرد جنگ کا مہرہ تھے ہم۔ جب سرد جنگ ختم ہوئی ہماری اسٹبلشمنٹ ، ہماری اشرافیہ یتیم ہوگئی۔اور اب ملک اس طرح بحران کا شکار ہے جس طرح گوربا چوف کے دور میں سوویت یونین تھا ۔ یہ نومبر ہماری داخلی سیاست کا انتہائی مشکل مہینہ ہے،ہوسکتا ہے۔

میاں صاحب، زرداری، فضل الرحمن، مریم نواز، بلاول اور اے پولیٹکل اسٹیبلشمنٹ پر بہت ذمے داری پڑتی ہے کہ پاکستان کی سوسائٹی کو فطری طور پر آگے بڑھنے دیں۔ کوئی مخصوص بیانیہ مسلط کرنے کی کوشش نہ کریں، تمام یونینز بحال کریں بالخصوص اسٹوڈنٹس یونینز تاکہ سیاست میں جدید تعلیم یافتہ نیا خون داخل ہوا،سیاست صرف امیروں اور شرفائوں کی رکھیل نہ ہو، اس بار اگر اس طرح نہیں ہوا تو پھر کچھ بھی باقی نہیں بچے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔