مایا ہے سب مایا ہے

سعد اللہ جان برق  جمعرات 24 نومبر 2022
barq@email.com

[email protected]

جدید سیاست کو اگر ہم طلسم ہوشربا کہیں تو یہ بھی صحیح تشبیہ نہیں ہوگی کیوںکہ ہماری موجودہ سیاست طلسم ہوشربا سے کئی گنا زیادہ حیران کن اور پراسرار ہے اوراس کے لیے سب سے بہتر تشبیہ ، ہندی اصطلاح ’’مایا‘‘ ہے۔ اس مایا پر ابن انشاء نے ایک نظم بھی لکھی ہے جو عطاء اللہ نیازی نے گائی ہے۔

مایا ہے سب مایاہے۔جو شاعروں نے بتایا ہے، دانشوروں نے فرمایاہے ،گائیکوں نے گایا ہے، تاریخ نے لکھوایا ہے ،لیڈروں نے دکھایا ہے،مایا ہے سب ’’مایا‘‘ ہے۔

مایا ہندی دھرم کی ایک ایسی چیزہے کہ اردو الفاظ میں اس کا مفہوم بتایا ہی نہیں جاسکتا، نظرکا فریب،دھوکہ ،جادو، چھلاوہ، ایسے بہت سے الفاظ ہیں جو مایا کا مفہوم سمیٹنے میں ناکام رہ جاتے ہیں، البتہ ایک مشہور مقولے میں اس کاکسی قدر احاطہ کیاجاسکتاہے کہ جو ہوتاہے وہ دکھائی نہیں دیتا اورجو دکھائی دیتاہے وہ ہوتا نہیں۔ ہندی دھرم میں یہ جو کچھ سامنے موجود ہے یا ہورہا ہے، یہ سب کا سب عارضی اور نظرکادھوکہ ہے، اصل سب کاآتما یا روح ہے۔

یہ دیوتا، یہ انسان یہ زمین و آسمان سب کچھ صرف ایک ہی مادر وجود کی کثرت ہے جو پرماتما کہلاتا ہے اوریہ سب کچھ اسی پرم آتما یا پرماتما میں جاکر مل جائے گا لیکن جو پرم آتما ہے، وہ ہے بھی اور نہیں بھی، اس کا ایک ’’برمیہ ‘‘ ہے اورصرف ایک بھرم ہے۔ اگر ہم مانیں تو ہے نہ مانے تو نہیں ہے، گویا سب کچھ ہماری سوچ میں ہے باقی مایا ہے سب مایاہے۔

اب یہ سامنے والے اسٹیج کو دیکھیے ،جس پر مختلف پارٹیوں کے سیاستدان ہیں ،کسی کو کچھ دکھائی دیں گے اورکسی کوکچھ۔ کسی کی نگاہ میں یہ لوگ ہیرو ہیں تو کسی کی نظر میں زیرو،اصل چیز سامنے کا منظر نہیں ہوتی بلکہ دیکھنے والی نظر ہوتی ہے،یوں کہے کہ منظر باہرنہیں ہوتا ہے، دیکھنے والے کے اندر ہوتاہے اور جو منظر اس کے اندر ہوتاہے وہ ہی منظر اسے باہر بھی دکھائی دیتاہے بلکہ خودہی کو دکھاتارہتا ہے ۔

آپ نے نشیؤں کو دیکھا ہوگا، نشہ کرنے کے بعد وہ خود کو گل وگلزار میں پاتے ہیں، ہرطرف بہار ہی بہارہوتی ہے، وہ خود کو پھولوں اور کلیوںکے درمیان پاتے ہیں جب کہ ہم اسے کسی کوڑے کے ڈھیر پر یاگٹرمیں دیکھتے ہیں ، یہی وہ مایا جال ہے جو کسی کو کچھ اورکسی کو کچھ نظر آتاہے۔

ہم نے شاید اپنے اس دوست کا قصہ سنایا بھی ہوگا جو پشاور سے اسلام آباد کے ایک تربیتی پروگرام میں شامل ہواتھا، اس نے کہا کہ ہمارے ساتھ اس تربیتی پروگرام میں ایک خاتون بھی تھی جسے ہم ہفتے کے روز دیکھتے تو انتہائی کالی کلوٹی اور بدصورت بلکہ کریہہ المنظر نظر آتی لیکن اتوار کو کچھ گورا لگتی، اس طرح جمعرات تک وہ کم بخت حور پری بن جاتی، جمعے کو چھٹی ہوتی تھی اور ہم گھر چلے جاتے پھر جب ہفتے کو آتے تو وہ پھر حد درجہ بدصورت نظر آتی ۔

ہمارے رشتہ داروں میں ایک شخص جس کی ایک لڑکے سے گہری دوستی تھی لیکن یہ بات تھی کہ کبھی تو اس لڑکے کو دیکھنے کے لیے میلوںسفرکرنے سے بھی نہیں چوکتا تھا اورگھنٹوں انتظار بھی خوشی خوشی کر لیتا تھا اورکبھی ایسا بھی ہوتاکہ وہ سامنے ہوتا لیکن یہ نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا تھا اور اگر توجہ دلاتے کہ لالہ دیکھو سامنے تو دیکھے بغیرکہتا ،دفع کرو۔

ہمیں تجسس ہوگیا کہ لالہ پر دھوپ چھاؤں کا یہ کیاعالم ہے کیوں کہ نفرت کا دورگزرتے ہی وہ پھر اس کے دید کے لیے دیوانہ ہوجاتا اور آخر کار ہم نے وہ رازپالیا۔وہ لڑکا جب بوسکی کاایک جوڑا پہنتاتھا تو لالہ اس پر سوجان سے نثار ہوتا رہتا لیکن جب وہ دوگھوڑا بوسکی کا وہ جوڑا نہیں پہنے ہوتا تو لالہ کو اس میں کوئی کشش محسوس نہیں ہوتی تھی۔

مطلب اس سارے قصے کا یہ ہے کہ سارا چکر انسان کے اپنے اندر ہوتاہے، جادو یا مداری کے پروگرام آپ نے دیکھے ہوتے ہیں، اس میں جادوگر اتنا کرتاہے کہ تماشائیوں کو وہ کچھ دکھاتا ہے وہ اصل میں ہوتا نہیں ۔

ہمارے پاکستان کی اس پچھترسالہ تاریخ میں دیکھیے تو صرف یہی ہوتا رہا ہے کہ ایلوژنیشٹ اور میجیشنز عوام کو مایاجال میں پھنسا کر وہی کچھ دکھاتے ہیں جو وہ دیکھنا چاہتے ہیں یعنی مایا ہے، سب مایاہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔