پی ٹی وی کے 58 سال… کیا کھویا کیا پایا؟

سرور منیر راؤ  اتوار 27 نومبر 2022
msmrao786@hotmail.com

[email protected]

پاکستان ٹیلی ویژن نے کل ہفتے کے دن اپنی 58ویں سالگرہ منائی۔ پی ٹی وی پاکستان کے ان اداروں میں سرفہرست ہے جنھوں نے قیام پاکستان کے بعد جنم لیا۔

پی ٹی وی Colonial Legacy نہیں رکھتا، یہ ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت وجود میں آیا۔ اس کی کہانی 5 دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے پر محیط ہے۔ اس نے 30سال سے زائد عرصے تک ایوب خان، یحییٰ خان، ضیا ء الحق اور پرویز مشرف کے آمرانہ دور اور باقی عرصہ نام نہاد جمہوری دور کے تابع گزرا۔

اس پورے عرصے میں صرف انتخابات کے دوران قائم نگران حکومتوں میں پی ٹی وی نے چند ماہ ایک قومی ادارے کے طور پر کام کیا، باقی تمام عرصے میں یہ قومی ادارہ حکمرانوں کی خواہشات کے مطابق چلتا رہا۔ مختلف حکمرانوں نے باصلاحیت افراد کے بجائے زیادہ تر ’’اپنے آدمی‘‘ کو ہی اس ادارے کا ایم ڈی مقرر کیا اور قومی کے بجائے ذاتی ہدف حاصل کیے۔

پاکستان ٹیلی ویژن ایک ایسا قومی ادارہ ہے جسے پاکستان میں الیکٹرانک میڈیاکی ’’ماں‘‘ کہا جاتا ہے۔ آج ملک میں جتنے بھی نجی ٹی وی چینلز چل رہے ہیں، ان کے لیے ابتدائی افرادی قوت، تکنیکی صلاحیت اور پیشہ وارانہ رہنمائی پی ٹی وی کے پروفیشنلز نے ہی فراہم کی۔

1975میں جب میں نے پی ٹی وی کو بطور نیوز پروڈیوسر، رپورٹر جوائن کیا تو اس کی عمر بمشکل گیارہ سال تھی۔ ان ایام میں بھی نیوز اور حالات حاضرہ میں درخواست دینے کی اہلیت کم از کم ایم اے سیکنڈ ڈویژن ہوا کرتی تھی۔ 36سال تک پی ٹی وی میں نیوز پروڈیوسر، رپورٹر، جنرل منیجر، ڈائریکٹر نیوز اینڈ کرنٹ افئیرز رہتے ہوئے میں نے 26 ایم ڈیز کے دور میں کام کیا۔

ان ادوار کے دوران پی ٹی وی کو کس طرح استعمال کیا گیا، وہ سب میرے حافظے میں بہت حد تک محفوظ ہے۔1964سے لے کر 2003 تک پاکستان کے سیاسی نظام میں پی ٹی وی کی مناپلی قائم رہی، نجی ٹی وی چینلز کے آنے کے بعد پی ٹی وی کی الیکٹرانک مناپلی تو ختم ہو گئی لیکن حکومتی ترجمان کے طور پر اس کا کردار اب تک حاوی ہے۔

یہ ادارہ جو 1964میں ریڈیو پاکستان کے ایک گوشے(کینٹین کو پہلا ٹی وی اسٹوڈیو بنایا گیا) سے شروع ہوا، اب پھیل کر ایک سلطنت بن چکا ہے۔ پی آئی اے کی طرح پی ٹی وی بھی ملک کے اندر اور باہر پاکستان کی پہچان تصور کیا جاتا ہے۔

پی ٹی وی کی پہلی دہائی ہنی مون کا گولڈن پیریڈ تھا۔ دوسری دہائی میں پروفیشنل ازم اور ٹیکنالوجی متعارف ہوئی، تیسری دہائی گلیمر اور اشتہارات کی رہی ۔ چوتھی دہائی میں اس کی مناپلی ختم ہوئی اور مسابقت کا دور آیا جو اب بھی جاری ہے۔ آج کے دور میںبھی پی ٹی وی پاکستان کا سب سے بڑا نشریاتی نیٹ ورک رکھتا ہے۔ اس کے پاس سب سے بہتر تکنیکی سہولتیں ہونے کے ساتھ ساتھ تجربہ کار، تربیت یافتہ پروفیشنلز کا گروپ موجود ہے۔

یہ ادارہ اب بھی ایک متحرک نیٹ ورک ہونے کی وجہ سے ملک کے سماجی، ثقافتی، تعلیمی اور سیاسی رویوں پر اثر انداز ہونے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ سب کام تب ہی ہو سکتے ہیں جب حکومتی سطح پر پی ٹی وی کی اس صلاحیت کا ادراک ہو اور اسے ایک حکومتی کے بجائے قومی ادارے کے طور پر چلانا چاہیں۔ پی ٹی وی میں بیڈگورننس، غیرضروری سیاسی تقرریاں اور مالی وسائل کو ذاتی اور سیاسی طور پر استعمال کرنے کا جائزہ لیے بغیر اس ادارے کا تجزیہ ممکن نہیں۔

پاکستان ٹیلی ویژن میں سیاسی بنیاد پر بھرتیوں اور بڑی بڑی تنخواہوں کے پیکیج دینے سے یہ ادارہ مالی اعتبار سے کھوکھلا ہو رہا ہے۔ سرکاری کارپوریشنوں اور اداروں میں اخراجات کو متناسب سطح پر رکھنے کا فارمولا یہ ہے کہ تنخواہوں اور اسٹیبلشمنٹ کا خرچ 25 اور 28 فیصد سے زائد نہ ہونے دیا جائے۔

پی ٹی وی بھی اسی فارمولے کے تحت 1988 تک عمل کرتا رہا لیکن بڑھتے بڑھتے یہ تناسب 60 فیصد سے بھی زائد ہو گیا ہے۔ پی ٹی وی کی مالی صورتحال تو یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ریٹائرڈ افراد کو پنشن کے حصول میں بھی دقت کا سامنا ہے۔ ایک مروجہ اصول کے تحت ہر ادارے میں پنشنرز کے لیے پنشنرز ٹرسٹ فنڈ قائم کیا جاتا ہے۔ پی ٹی وی غالباً واحد قومی ادارہ ہے جہاں یہ ٹرسٹ فنڈ قائم نہیں کیا گیا۔

ایک اندازے کے مطابق پی ٹی وی کو ٹی وی لائسنس فیس کی مد سے سالانہ پانچ ارب روپے حاصل ہوتے ہیں جب کہ کمرشل اشتہارات سے بھی تقریباً دو ارب سالانہ آمدنی ہوتی ہے، اس کے باوجود پی ٹی وی کا خسارے میں جانا نہ صرف قابل توجہ ہے بلکہ قابل تحقیق بھی ہے۔ اس ادارے میں بڑا Potential ہے۔

یہ ادارہ نہ صرف یہ کہ مالی اعتبار سے با آسانی منافع بخش بنایا جا سکتا ہے بلکہ پی ٹی وی دوسرے ٹی وی چینلز کے لیے ایک اکیڈیمی اور قومی رویوں کی تعمیر اور جمہوری قدروں کے فروغ میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس وقت پورے ملک میں سرکاری سطح پر کوئی ٹیلی ویژن اکیڈمی نہیں۔

مجبوراً ہر چینل محدود وسائل اور حالات کی بناء پر جزوقتی تربیت کا اہتمام کرتا ہے، اسی بناء پر اکثر ٹی وی چینلز میں معیاری پروگرامنگ اور صحافتی اخلاقیات کے عمل میں کمی کا احساس ہوتا ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ ٹیلی ویژن اکیڈیمی جیسے اہم شعبے کو متحرک کیا جانا ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔