خوب صورت منظر، پیارے لوگ، تباہ ہوتی تاریخی عمارتیں

ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بخاری  اتوار 4 دسمبر 2022
سیلاب کی تباہی کے شکار بلوچستان کا اس سرزمین کے عشق میں ڈوبا ایک سفر ۔ فوٹو : فائل

سیلاب کی تباہی کے شکار بلوچستان کا اس سرزمین کے عشق میں ڈوبا ایک سفر ۔ فوٹو : فائل

خان پور: بلوچستان سے میرا عشق نیا نہیں ہے۔

یہ تب کی بات ہے جب میں شعور کی منزلوں میں قدم رکھ رہا تھا۔

اللہ بھلا کرے ابا جی کے زمانۂ طالب علمی کے دوست ”جبار خان” کا جو کوئٹہ میں رہتے تھے۔ ان سے ہمارے بہت اچھے اور خاندانی تعلقات تھے۔ ان کی بدولت مجھے کوئٹہ اور بلوچستان تب دیکھنے کا موقع ملا جب میں ملتان، لاہور، کراچی اور فیصل آباد جیسے بڑے اور قریبی شہروں سے روشناس تک نہ تھا۔ یوں خانپور میں رہنے والے اس چھوٹے بچے کے لیے بلوچستان کی سرزمین وہ پہلا حیرت کدہ تھا جو اس کی سوچ و تخیل کو جھنجھوڑ گیا۔

بچپن میں جب میں تقریباً آٹھ یا نو سال کا تھا تو خالہ کے ساتھ بذریعہ ریل اکیلے کوئٹہ کا پہلا سفر کیا۔ یہ سفر آج بھی میرے ذہن کے کسی نہال خانے میں کسی فلم کی طرح محفوظ ہے۔

میری زندگی کا غالباً پہلا بڑا سفر۔

کوئٹہ ایکسپریس رات کو نکلی تھی خانپور جنکشن سے اور تب یہ چھوٹا لڑکا کھڑکی والی سیٹ پر قبضہ جما کر بیٹھ گیا۔ یہ سیٹ اس کی پسندیدہ تھی کہ بہت سے نظارے دیکھنے کو ملتے تھے۔

ٹرین کا سفر مبہوت کر دینے والا تھا۔ روہڑی سکھر اور جیکب آباد تک تو وہی نظارے تھے جو پنجاب میں دیکھنے کو ملتے ہیں، اصل مزہ تو اس کے بعد شروع ہوا۔

یہ لڑکا بس کہنی کھڑکی سے ٹکائے رات کو آدھے چاند کی روشنی میں اس سر زمین کو دیکھے جا رہا تھا جس سے اسے عشق ہونے والا تھا۔ اردو اس کا پسندیدہ مضمون تھا، سو وہ شوق سے مدھم روشنی میں اسٹیشنوں کے منفرد نام پڑھتا جا رہا تھا۔

ڈیرہ اللہ یار، ڈیرہ مراد جمالی اور سبی گزرا تو اس سرزمین کے اِسرار اور بڑھ گئے۔ آبِ گم، مچھ، کولپور اور سپیزند کے اسٹیشنوں نے ایک عجیب سا تاثر قائم کر دیا تھا۔ دن میں رات کر دینے والی بولان کی سرنگوں سے اُسے ڈر نہیں لگا بلکہ وہ منہمک ہو کہ گنتا گیا اور ساتھ گزرتی سڑک کو دیکھتا رہا۔

خالہ جان پوچھتی رہیں کہ کچھ کھانا ہے۔۔۔۔انکار

دودھ پینا ہے۔۔۔۔انکار

کچھ دیر سو جاؤ بیٹا۔۔۔۔ نیند نہیں آ رہی

کیوں کہ اسے تو دیکھنا تھے وہ منظر جو شاید اسی کے لیے تخلیق کیے گئے تھے۔ وہ سر زمین جو اپنے آپ میں ایک حیرت کدہ ہے۔ صبح تک وہ دیکھتا رہا۔ یہاں تک کہ اسے بلوچستان کے چھوٹے چھوٹے اسٹیشنوں پر نیلے ڈرم میں بِکتا ہوا پانی بھی یاد ہے جس پر اُس کے چھوٹے سے ذہن نے یہ سوچا تھا کہ یہاں پانی پیسوں سے کیوں ملتا ہے؟؟

ہماری طرح یہ مفت پانی کیوں نہیں پی سکتے؟؟

کیا یہ لوگ انسان نہیں؟؟؟

اور جب ایک جگہ ٹرین رکی تو اسے بتایا گیا کہ یہاں ٹرین کو دوسرا انجن لگے گا

اس کا دل کیا کہ ٹرین سے اترے اور اس دوسرے انجن کو ریل سے جڑتا دیکھے۔ لیکن اس کے بڑوں نے اسے جانے نہ دیا کہ وہ بہت چھوٹا تھا۔

ٹرین چلتے چلتے جب کوئٹہ پہنچ گئی تو اس شہر کی ہوا اس کے جسم سے ٹکراتے ہی اسے دیوانہ کر گئی اور اس چھوٹے سے پہاڑی شہر کی دیوانگی سمجھو خون میں رچ بس گئی۔ اسی کی بدولت پھر کوئٹہ کے تین سفر اور ہوئے۔

اب وہ لڑکا سمجھ دار ہو چکا تھا۔

2008 میں کوئٹہ کا چوتھا اور آخری سفر ہوا۔ تب کچھ ہوش آ چکا تھا۔ جعفر ایکسپریس نے رات کو رحیم یار خان اسٹیشن چھوڑا تو کچھ دیر بعد نیند کے جھونکے آنے لگے۔ تب ماں جی ساتھ تھیں۔ تھکن کے مارے نیند ایسی آئی کہ صبح ہی آنکھ کھلی۔ فجر کا وقت گزرے کچھ ہی دیر ہوئی تھی۔

جعفر ایکسپریس کی بڑی بڑی شفاف کھڑکیوں سے وہ وہ منظر دیکھے کہ آنکھیں دنگ رہ گئیں۔ ٹرین تیزی سے بلوچستان کے لق و دق صحرا سے گزر رہی تھی۔

پہاڑوں کو پیچھے چھوڑ رہی تھی اور دور کہیں ان پہاڑوں سے سورج ابھر رہا تھا۔ چھوٹی چھوٹی ندیاں اور نالے اس کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔ میری نیند سے اٹی آنکھیں فوراً پھیل گئیں۔

یہ کیا تھا۔۔۔بلوچستان کا حسن۔

ویرانے، صحرا، پہاڑ، ندیاں، پل، سرنگیں، پرانے اسٹیشن، بیابان اور قدرت

یہ وہ کنوارا حسن تھا کہ چھونے سے بھی میلا ہو جائے۔ اچھا ہوا کہ تب موبائل جیسی بلا میرے پاس نہیں تھی ورنہ سارا وقت تصاویر اتارتے گزر جاتا۔

ہائے بس وہ مناظر آنکھوں میں کھب کہ رہ گئے اور آج۔۔۔آج وہی مناظر اس لڑکے کو چودہ سال بعد اس دھرتی پر لے گئے جہاں جانے کے لیے وہ تڑپتا تھا۔

لیکن اس بار کچھ نئی جگہیں اور نئے تجربات اس کے منتظر تھے۔ رب کو اس بار بھی اس پر کچھ آشکار کرنا تھا۔

کچھ مناظر، کچھ قدرت کے شاہ کار، کچھ ناانصافیاں، کچھ درد، کچھ آنسو اور کچھ اپنے لوگ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لاہور سے اپنے شہر ٹرانسفر کے بعد کب سے بلوچستان جانے کا سوچ رہا تھا۔ فیس بک پر ملنے والے دوست ”محمود کھوسہ” وہاں کی تصاویر لگا لگا کر دل جلاتے اور ہم منصوبہ بندی کر کے پھر کسی مجبوری کے تحت بیٹھ جاتے۔ آخر 2022 کے سیلاب کے بعد پکا ارادہ کیا کہ اب تو ان علاقوں میں جانا ہی جانا ہے۔ دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے بھی اور حالات کا جائزہ لینے کے لیے بھی۔

اس بار پھر پلان بنا کہ دو بار ٹالنا پڑا لیکن ارادہ مضبوط تھا سو نومبر کے پہلے ہفتے ملک میں چل رہے احتجاجی دھرنوں کے باوجود ہم اپنا سامان باندھ، ادویات کے ڈبے اٹھا کہ رات ایک بجے سکھر بائی پاس پہ کھڑے تھے۔

ڈیرہ اللہ یار سے تعلق رکھنے والے ہمارے پیارے دوست محمود کھوسہ اپنے تین کزنز اور دوستوں سمیت وہاں موجود تھے۔ آفتاب احمد، وحید کھوسہ اور ذوالفقار کھوسہ بھائی اتنی اپنائیت سے ملے کہ پہلی ہی ملاقات میں برف پگھل گئی اور رات کو ہم گپ شپ کرتے ضلع جعفر آباد کے صدر مقام ڈیرہ اللہ یار پہنچ گئے۔

جیکب آباد کے پاس واقع ضلع جعفر آباد، ڈیرہ اللہ یار (جھٹ پٹ) کی تحصیل پر مشتمل ہے۔ ضلع کا نام تحریک آزادی کے سپاہی اور قائداعظم کے ساتھی ”سردار جعفر خان جمالی” کے نام پر رکھا گیا ہے۔ صدر مقام ڈیرہ اللہ یار کو پہلے جھٹ پٹ کہا جاتا تھا لیکن مقامی سردار ”میر اللہ یار کھوسہ” کی وفات کے بعد اِسے ان کے نام سے موسوم کردیا گیا۔

یہ علاقہ جمالی، کھوسہ اور مگسی قبائل کا گڑھ ہے۔ تعلیمی لحاظ سے یہ علاقہ بہت پسماندہ ہے۔ سندھ سے بذریعہ ریل بلوچستان کی طرف جائیں تو سب سے پہلا ضلع جعفرآباد کا ہے۔ کچھی کے میدان کے باعث یہ بلوچستان کے زرخیز اضلاع میں سے ایک ہے۔

اگلی صبح ناشتے سے فارغ ہو کر سامان باندھا اور پروگرام کے مطابق جھل مگسی کی راہ لی۔ سکھر کو کوئٹہ سے ملانے والی مرکزی شاہراہ پر ڈیرہ مراد جمالی اور نوتال تک سفر کیا جس کے بعد ہم مغرب کی جانب مڑ گئے۔

یہاں سے ہمارا اصل امتحان شروع ہوا۔ ضلع جھل مگسی کے صدر مقام گنداواہ کو جانے والی یہ سڑک بالکل نئی تعمیر کی گئی تھی لیکن سیلاب کی تباہ کاریوں نے اسے جگہ جگہ سے اکھیڑ دیا تھا۔ پل ٹوٹ چکے تھے اور سیلابی پانی کو راستہ دینے کے لیے بہت سی جگہوں پر کٹ لگائے گئے تھے۔

کہیں آف روڈ سفر تو کہیں پکی سڑک پر سفر کرتے کرتے ہم فتح پورشریف سے ہو کر گنداواہ پہنچ گئے۔ گنداواہ جو ضلع جھل مگسی کا صدر مقام ہے ایک پرانا اور چھوٹا سا شہر ہے جہاں صرف سرکاری عمارتیں ہی بہتر حال میں نظر آئیں۔ جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر اور سہولیات کا فقدان۔ یہاں سے کچھ ضروری سامان پکڑا اور کوٹرہ سے ہو کہ ہم جنوب مغرب میں واقع پیر چھتل نورانی پہنچ گئے جو ضلع کا اہم ترین سیاحتی مقام ہے۔

جھل مگسی نصیرآباد ڈویژن کا دوسرا بڑا ضلع ہے جس میں جھل مگسی و گنداواہ کی تحصیلوں سمیت میر پور سب تحصیل شامل ہے۔ 1991 سے پہلے یہ ضلع کچھی کا حصہ تھا۔ ضلع کا نام ”جھل” شہر کے نام پر ہے جو مشہور بلوچ قبیلے مگسی کا گڑھ مانا جاتا ہے۔

جھل مگسی اپنے خوب صورت قدرتی مقامات جیسے درگاہ و چشمہ پیر چھتل نورانی ، دریائے مُولا، اور پیر لاکھہ کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔

مقبرہ میاں صاحب، مقبرہ موتی گہرام، بھوتانی مقبرہ، فتح پورشریف کی درگاہیں، مقبرہ اِلتاز خان اور خانپور اس علاقے کی تاریخی جگہیں ہیں۔ جھل مگسی کے صحرا میں ہر سال جیپ ریلی بھی منعقد کی جاتی ہے۔ رتو ڈیرو کو خضدار سے ملانے والی موٹروے اس ضلع سے ہو کر گزرتی ہے۔ دریائے مُولا یہاں کا اہم دریا ہے۔ یوسف عزیز مگسی اور ذوالفقار علی خان مگسی یہاں کے اہم نام ہیں۔

بات ہو رہی تھی پیر چھتل نورانی کی۔ جھل مگسی کے بیابانوں میں آباد اس جگہ پر حضرت پیر چھتل شاہ نورانی کی درگاہ ہے۔ یہ مزار ایک چبوترے پر واقع ہے جس کی چھت نہیں ہے شاید اس لیے انہیں پیر چھتہ بھی کہا جاتا ہے۔

اس جگہ کی وجہ شہرت یہاں کھجور کے درختوں کے بیچ واقع وہ خوب صورت تالاب ہے جس کے زمُردی مائل پانی میں سنہری مچھلیاں (ڈمبرا) تیرتی پائی جاتی ہیں۔ تالاب کا پانی اتنا شفاف ہے کہ تہہ میں پڑے پتھروں سمیت یہ مچھلیاں دور سے ہی تیرتی نظر آ جاتی ہیں۔ لمبی لمبی معصوم سی مچھلیاں انسانوں کو دیکھتے ہی تالاب کے کنارے پر ہوجاتی ہیں۔

یہ مچھلیاں بالکل بے ضرر ہیں اور ان کو پکڑنے یا شکار کرنے پر پابندی ہے۔ اس اقدام کی وجہ سے نہ صرف ان کی افزائش بہترین طریقے سے ہو رہی ہے بلکہ اس جگہ کا حسن بھی قائم ہے۔ چھتل نورانی تالاب کا پانی ایک پُراسرار پتھر میں سے نکلتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ تالاب کبھی نہیں سوکھتا۔ اس کی ایک اہم خاصیت یہ ہے کہ اس کا پانی سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں سرد ہوتا ہے۔

یہ بلاشک و شبہ بلوچستان کا خوب صورت اور منفرد مقام کہلانے کا حق دار ہے۔ یہاں ہم نے تالاب میں نہانے سمیت مچھلیوں کے ساتھ تصاویر بنوائیں۔ دور دور سے لوگ اس جگہ پکنک منانے آتے ہیں۔

یہاں محمود بھائی کے مقامی دوست سلیم بھائی نے ہماری تواضع روایتی مصالحے دار مٹن، گنوار کی سبزی اور ٹماٹر کے سالن سے کی۔ روایتی اس لیے کہ ہر علاقے کے اپنے مخصوص مصالحے اور پانی ہوتا ہے جس کی وجہ سے کھانوں کا ذائقہ بدلتا رہتا ہے۔ اور یہاں کا ذائقہ انتہائی لاجواب تھا۔

کھانے سے فارغ ہو کہ ہم نے اپنا سامان باندھا اور گاڑی سے بائیکس پر منتقل کیا۔ کیوںکہ آگے کا راستہ صرف جیپ، ڈالے، بیل گاڑی یا موٹر سائیکل پر طے کیا جا سکتا تھا۔

چار موٹرسائیکلوں پر ہم لوگ سوار ہوئے جن میں سلیم بھائی اور ان کے تین مددگار دوست بھی شامل تھے۔ چوںکہ میزبانوں کی طرف سے کیمپنگ اور کھانے کا سامان پہلے ہی یہاں تک پہنچا دیا گیا تھا سو گاڑی سے ضروری اشیاء پکڑیں اور سفر شروع کیا گیا۔

کھجوروں کے جھنڈ میں سفر شروع ہوا اور دیکھتے دیکھتے پکی سڑک ختم۔ ایک کٹھن اور یادگار سفر کی شروعات ہوگئی۔ جھل مگسی کے بہترین لینڈ اسکیپ سے لطف اندوز ہوتے ہم پتھریلے راستوں پر رواں دواں تھے۔

کبھی پہاڑ تو کبھی بیابان، کبھی کھجور کے جھنڈ تو کبھی رنگ برنگ جھاڑیاں۔ ذوالفقار بھائی کی مہارت نے مجھے وقت پہ اس جگہ لا پہنچایا جہاں بس پتھر ہی پتھر تھے۔ بڑے، چھوٹے، کائی سے لپٹے ہوئے اور سنگِ مرمر کی طرح سفید پتھر ہر جگہ بکھرے ہوئے تھے۔

اِس جگہ کو میں نے ”پتھروں کا صحرا” کا نام دیا۔ ان پتھروں کے پیچھے نالے کی صورت میں دریائے مُولا بہہ رہا تھا اور دور چٹیل پہاڑوں کے پیچھے سورج غروب ہونے کو تھا۔ بائیکس ایک جگہ کھڑی کر کہ ہم کچھ آگے گئے اور نیکریں پہن کہ دریا پار کیا۔ ایک بہترین جگہ دیکھ کہ خیمے وہیں لگا دیے اور کچھ دیر دریا میں غسل سے لطف اندوز ہوتے رہے۔

دریا سے نکل کر میں پتھروں پر آ بیٹھا۔ شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے اور خنکی بھی بڑھتی جا رہی تھی۔

پتھروں پہ بیٹھے بیٹھے پیاس محسوس ہوئی تو اچانک کسی نے جگ میں دریائے مُولا کا پانی بھر کہ تھما دیا۔ میں پیاس کا مارا جگ کو منہ لگا کہ غٹک گیا اور دریائے مولا کے پانی نے بلوچستان کی پوشیدہ محبت کو چودہ برس بعد، میرے روم روم میں جگا دیا۔ اِس پانی نے بچپن کی اُس محبت پر امر ہونے کا ٹھپا لگا دیا جو میں دل میں لیے گھوم رہا تھا۔

دریائے مُولا اس علاقے کا سب سے بڑا اور واحد دریا ہے جو اپنی معاون ندیوں سمیت ضلع جھل مگسی کے بہت سے علاقوں کے لیے پانی کا واحد ذریعہ بھی ہے۔

یہ دریا ضلع خضدار میں وسطی براہوی کے چٹیل پہاڑوں سے نکلتا ہے اور بہت سے ندی نالوں کا پیٹ بھرتا ہوا جھل مگسی تک آتا ہے۔ اس کے کنارے مولا چھٹوک سمیت بہت سے دل کش قدرتی مقامات موجود ہیں۔ کئی ایک مخفی بھی ہیں جن میں سے ایک جگہ ہم نے کیمپنگ کی جو کوہان کے قریب ضلع خضدار کی حدود میں آتی تھی۔

رات خیمے لگانے کے بعد کپڑے بدلے اور لکڑیاں جلا کر سلیمانی قہوہ تیار کیا گیا۔ جان میں جان آئی تو مقامی دوستوں سے گپ شپ کا دور چلا۔ چاند اپنے جوبن پر تھا لیکن شرارتی بادل بار بار اس کے چہرے کو چھپانے کی کوشش میں تھے جیسے کسی دوشیزہ کی لَٹیں ہوا سے اُڑ اُڑ کہ اس کے چہرے کو چھپا رہی ہوں۔

کُھلے آسمان تلے بیٹھ کر ہم نے دنیا جہان کی باتوں پر تبادلہ خیال کیا۔ سیاحت، بلوچستان کے حالات، سیاست، یہاں کے مسائل، بلوچ نوجوان اور شعور، تعلیم و ترقی، علاقے کی صورت حال سمیت کئی ایک معاملات پر میں نے اپنے بلوچ ساتھیوں کا موقف جاننے کی کوشش کی۔

یہاں میں یہ بتا دوں کہ یہ سب لوگ پڑھے لکھے، کاروباری اور باشعور لوگ تھے جو اس ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ملانے کا اتنا ہی شوق رکھتے ہیں جتنا کہ ہم۔ ان کے خیالات جان کر بہت خوشی ہوئی اور افسوس بھی کہ کاش ان کے علاقوں کو وہ سہولیات میسر ہوتیں جو ہمارے پاس ہیں۔

اتنی دیر میں سلیم بھائی کے ساتھ آئے ایک مقامی بزرگ جنہیں سب نانا کہہ رہے تھے، دریائے مُولا سے مچھلیاں پکڑ کہ آ گئے۔ عمر رسیدہ نانا نے کسی بھی طریقے سے بڑھاپے کو خود پر سوار نہیں ہونے دیا۔ ہر لحاظ سے چاق و چوبند نانا نے رات کو اس وقت دریا پَار کیا جب اس کی موجیں تیز تر ہو چکی تھیں۔

نانا جی نے علیحدہ سے دو طرف آگ جلائی اور سجی کے لیے بکرے کی ران کو صاف کر کے سلاخ میں پِرو دیا۔ دو سلاخوں کو کچھ فاصلے سے پتھروں میں اس طرح گاڑا کہ دونوں طرف سے آگ کا سیک برابر پہنچے۔ یہ سجی چوںکہ آگ کی حِدت سے پکتی ہے سو اس کو تیار ہونے میں ایک لمبا وقت درکار تھا۔ تب تک سلیم بھائی مٹن کا سالن بھون رہے تھے اور ہم سب دوست فوٹوگرافی میں مصروف تھے۔

ہنسی مذاق کرتے وقت کب گزر گیا پتا بھی نہیں چلا۔ نئی جگہوں کی یہ بات مجھے بہت پسند ہے کہ ان کی خوب صورتی اور پراسراریت میں بندہ ایسا مدہوش ہوجاتا ہے کہ وقت اپنی رفتار سے آگے نکل جاتا ہے اور محسوس بھی نہیں ہوتا۔ نانا کی اسپیشل سجی تیار تھی جب کہ مچھلیاں بھی تیل میں تڑ تڑ کر رہی تھیں۔ مُولا کی یہ مچھلی بغیر کسی مرچ مسالے کے نمک لگا کر فرائی کی گئی تھی۔ کھانے کی سب سے منفرد چیز تھی یہاں کی مقامی روٹی جسے ”کُرنو یا کَاک” کہتے ہیں۔

یہ پتھر کو گرم کر کے اس پر پکائی جاتی ہے۔ گوندھے ہوئے آٹے کی موٹی تہہ ایک گرم اور گول پتھر پر لگائی جاتی ہے جسے چاروں طرف سے ڈھکنے کے بعد آگ کے پاس رکھ دیا جاتا ہے۔ پکنے کے بعد اس سخت روٹی کو توڑ کر ٹکڑوں میں دسترخوان کی زینت بنایا جاتا ہے جس کا باہر کا حصہ سخت اور اندر کا نرم ہوتا ہے اور یہ سب کو پسند نہیں آتی۔

ہمارے دوست آفتاب کے مطابق اسے رات کو تازہ کھانے کے ساتھ، جب کہ صبح چائے کے ساتھ بھی شوق سے کھایا جاتا ہے۔

مولا کے شور میں لذیذ اور منفرد کھانے سے فارغ ہو کر ہم نے پتھروں پہ لمبی واک کی اور اس علاقے کو چاند کی روشنی میں دریافت کیا۔ دو گھنٹوں بعد پھر قہوہ نوش کیا اور ایک بجے کے قریب سب سونے کے لیے اپنے اپنے خیمے میں چلے گئے۔

رات کے کسی پہر میری آنکھ کُھل گئی۔ وقت دیکھا تو ڈھائی بج رہے تھے۔ ارے واہ، یہ وقت ضائع کرنا تو گناہ ہوتا، سو میں اٹھ کہ باہر آ گیا۔

دریا سے پانی پیا اور چاند کی روشنی میں بیٹھ گیا۔ انجان علاقوں میں تھکاوٹ کے باوجود خود کے ساتھ وقت گزارنا بھی ایک عیاشی ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ رات کا یہ پہر، جب جسم ڈھیلا اور دماغ تروتازہ ہوتا ہے، انسان کے سوچنے اور فیصلہ کرنے کی قوت کے لیے بہترین ہوتا ہے سو ہم نے بھی کل اور پرسوں کے پلان کو ترتیب دیا اور آدھا گھنٹے مٹرگشت کرنے کے بعد کیمپ میں آ سوئے۔

رات گئے اس چہل قدمی کے بعد تو بڑی زبردست نیند آئی اور صبح ڈرون کی آواز سے آنکھ کھلی جب محمود بھائی ڈرون سے تصاویر و ویڈیوز بنا رہے تھے۔

چوںکہ آج ہمارے پلان میں سیاحت کے ساتھ ساتھ سماجی سرگرمیاں بھی شامل تھیں سو جلدازجلد نانا جی کے لائے تازہ دودھ (جو وہ پہاڑ پر بنے ایک چرواہے کے گھر سے لائے تھے) کی چائے اور بسکٹ سے ناشتہ کیا گیا اور کیمپنگ کی جگہ صاف کر کے سامان سمیٹا۔ سب نے اپنے اپنے حصے کا سامان اٹھا کر دریا کو پار کیا اور اس جگہ کو الوداع کہا۔ بائیکس پر دوبارہ سفر شروع ہوا اور ہم پھر سے چھتل شاہ نورانی پہنچ گئے۔

باقی دوستوں کو تالاب پر بھیج کر میں سلیم اور محمود بھائی کے ساتھ اس علاقے کی طرف آ گیا جہاں شدید بارشوں سے ہونے والی تباہی کی داستانیں بکھری ہوئی تھیں۔ راستے میں ایک عظیم استاد درخت تلے کوئی آٹھ نو بچوں کو پڑھا رہا تھا۔

یہاں مختلف گھروں کا دورہ کیا اور معلومات لیں۔ اپنے دوستوں کی بھیجی گئی امانتیں مستحقین کے حوالے کیں اور ہم بھی واپس تالاب پر آ گئے۔

اس کی خوب صورتی کے ڈسے ہوئے سیاحوں نے یہاں ایک بار پھر ڈبکی لگائی اور کپڑے بدلنے کے بعد کوٹرو کی راہ لی۔

کوٹرو یا کوٹرہ، گنداواہ کے جنوب مغرب میں ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جہاں کی ہر دیوار پر غربت اور کسمپرسی کی علیحدہ داستان لکھی ہوئی ہے۔ یہ بھی سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں شامل ہے۔ یہاں کے بوائز اسکول کی دیوار گر چکی ہے جب کہ بہت سے گھر بھی بری حالت میں ہیں۔ یہاں ایک کمرے پر مشتمل بوسیدہ سے کسی سرکاری ریسٹ ہاؤس میں ہم نے اپنا میڈیکل کیمپ لگایا۔ کمرے میں ادویات ترتیب سے رکھ کر باری باری اہلِ علاقہ کو اندر بلایا گیا۔

علاقے میں پہلے ہی کیمپ کا بتا دیا گیا تھا سو یہ تمام لوگ پہلے سے یہاں موجود تھے۔ چوںکہ یہ بلوچی بولنے والوں کا علاقہ ہے سو مابدولت کو ایک ترجمان بھی دے دیا گیا جس کی ضرورت ویسے کم ہی پڑی کہ میری سمجھ میں ان کی بہت سی باتیں آنے لگی تھیں۔ ایک ڈاکٹر کو مختلف ثقافتوں سے لازمی روشناس ہونا چاہیے اور پھر مریض کے درد کی زبان تو ہر ڈاکٹر ہی سمجھ لیتا ہے۔

خیر، آہستہ آہستہ مریض آنا شروع ہوئے اور ہماری توقع کے برعکس اس چھوٹے سے شہر کے کیمپ میں اچھا خاصا رش لگ گیا۔

روایتی بلوچی پگڑی باندھے بوڑھے بابے، خوب صورت کڑھائی والی قمیصیں پہنے خواتین، گھیر والی روایتی شلوار پہنے لڑکے، ہنستے مسکراتے اور مجھے حیرانی سے دیکھتے بچے، خمیدہ کمر اور سر پر دوپٹہ لیے بوڑھی دادیاں، جن کے محنت کش اور کھردرے ہاتھ اتنے پیارے لگے کہ میرا دل چاہا انہیں چوم لوں۔

ہم نے مریضوں کو بیماریوں سے احتیاط اور بچاؤ کی تجاویز بھی دیں اور کچھ پڑھے لکھے لوگوں کو ملیریا، ڈینگی اور ہیضہ جیسی بیماریوں سے اپنے طور پر نمٹنے کا طریقہ بھی بتایا، تاکہ وہ علاقے کے دیگر لوگوں کو بھی سمجھا سکیں۔

کیمپ سے فارغ ہو کر ایک چکر میں نے یہاں کے پرانے بازار کا لگایا اور ہم سب سلیم بھائی کے گھر آ گئے۔ یہاں درختوں کے بیچ خوب صورت رَلیوں پر دوپہر کا کھانا چُن دیا گیا۔

دسترخوان پر اُبلے ہوئی چاول، تلے ہوئے آلو، سلاد اور یہاں کا خاص ٹماٹروں کا سالن تھا۔ گھر کے پکے سالن کا نہایت منفرد ذائقہ جو لمبے عرصے تک مجھے یاد رہے گا۔ یہاں کے ہر کھانے میں بلوچستان کی خوشبو سمیت ہمارے میزبانوں کا خلوص بھی شامل تھا جو اس کے ذائقے کو بہتر سے بہترین بنا رہا تھا۔

کھانے سے فارغ ہو کر سلیم بھائی کے ساتھ واپسی کے سفر پر روانہ ہوئے جہاں راستے میں مختلف مقبروں کا دورہ بھی کرنا تھا۔ سب سے پہلے ہم ”میراِلتاز خان” کے مقبرے پر رکے جو بارشوں کے باعث کافی حد تک تباہ ہوچکا تھا۔

خان آف قلات میر التاز خان قمبرانی کا یہ مقبرہ لگ بھگ ساڑھے تین سو سال پرانا ہے جسے روایتی انداز میں تعمیر کیا گیا تھا۔ دو منزلہ مقبرے کے چاروں طرف محرابیں ہیں اور اس پر ایک بڑا گنبد تعمیر کیا گیا تھا جو حالیہ بارشوں میں ڈھے چکا ہے۔ یہ مقبرہ دریائے مُولا اور سڑک کے بیچ میں اپنی تباہی کی داستان سنا رہا تھا۔

اس کے بعد فتح پور شریف آیا جہاں پیر چیزل شاہ اور دکھل شاہ کے مقبروں کو دیکھا۔ پیر چیزل شاہ کا سنہری مقبرہ بالکل جدید انداز میں تعمیر کیا گیا ہے۔

فتح پور سے روانہ ہوئے اور بیابانوں کی بھول بھلیوں سے ہو کر مُولا کی پھیلی ہوئی شاخوں میں سے ایک کے قریب موجود ”مقبرہ موتی گہرام” پر آ ٹھہرے۔ سردار گہرام لاشاری اور موتی کے اس مقبرے کو اس کی خوب صورتی کی وجہ سے ”بلوچستان کا تاج محل” کہا جاتا ہے۔ نیلے رنگوں کا خوب صورت کام، چہار جانب ایستادہ محرابیں، دو منزلہ گنبد اور اندر محرابوں پر بنے خوبصورت نقش و نگار۔ اس تاریخی مقبرے کو دیکھ کر دل کٹ کہ رہ گیا۔ ایک تاریخ تھی جو بس مٹنے کو تھی۔ سامنے ایک بدحال سا مقبرہ ایک قدیم مسجد کے ساتھ کھڑا تھا جو شاید کسی مسیحا کے انتظار میں ہے۔

یہاں سے سلیم بھائی نے ہمیں رخصت کیا اور ہم اسی کچی پکی سڑک سے ہو کر براستہ نوتال واپس ڈیرہ اللہ یار پہنچ گئے۔ سب بہت تھکے ہوئے تھے سو مجھے ڈیرے پر چھوڑ کہ فریش ہونے چل دیے۔ رات کا کھانا سب نے اکٹھے کھایا اور گپ شپ کہ بعد دوستوں نے رخصت چاہی۔

اگلے دن ایک نئی قوت اور جذبے سے بیدار ہوا کہ آج کے دن زیادہ تر سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرنا تھا۔ ذوالفقار بھائی کے ڈیرے کی عکس بندی کی جو ان کے ماموں چیف آف ممل کھوسہ، میر فیض محمد خان کھوسہ کی تصاویر سے مُزین تھا۔

یہاں کی اہم چیز فریم میں لگی وہ تلوار تھی جو 1935 میں برٹش گورنمنٹ جرگہ کے ممبر اور اس وقت کے چیف، ”میر مَسو خان کھوسہ” کو برطانوی حکومت کی طرف سے اعزازی طور پر دی گئی تھی۔ صبح کے ناشتے کے بعد ہم نے جعفرآباد سے صحبت پور کی طرف سفر شروع کیا۔

ڈیرہ بگٹی اور سندھ کے اضلاع جیکب آباد و کشمور کے درمیان ایک چھوٹا سا ضلع صحبت پور ہے، جسے 2013 میں جعفرآباد سے الگ کر کے ضلع کا درجہ دیا گیا۔ مانجھی پور، سعید خان کنرانی، ہیر دین، فرید آباد، پنھور اور صحبت پور اس ضلع کی چھے تحصیلیں ہیں۔ یہ نصیرآباد ڈویژن کا سب سے چھوٹا ضلع ہے۔

ماضی میں یہاں ایک تاریخی قلعہ ہوا کرتا تھا جس کے اندر شہر کی مکمل آبادی رہتی تھی۔ قلعے کے اندر پانی کے تالاب، خوب صورت بازار ایک بہت بڑی اور انتہائی خوب صورت مسجد موجود تھی جو آج بھی دیکھی جا سکتی ہے۔

مسجد کے اندر اور باہر انتہائی خوب صورت نقاشی کا کام دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ قلعہ سو سال سے بھی زیادہ عرصے تک اپنی اصل حالت میں موجود رہا مگر 2010 اور 2012 کے سیلاب نے اس کو مکمل طور پر تباہ کردیا۔ یہاں کے قبرستان میں ایک تاریخی مقبرہ موجود ہے جو خان بہادر سردار سخی صحبت گولہ کی آخری آرام گاہ بتایا جاتا ہے۔

صحبت پور میں سب سے پہلے قمر دین کھوسہ تحصیل فرید آباد کے ایک ٹینٹ اسکول کا دورہ کیا۔ یہ سڑک کنارے ”پین فاؤنڈیشن” کا قائم کیا گیا چھوٹا سا ٹینٹ اسکول تھا جہاں مختلف کلاسوں کے تقریباً پچاس بچے اور بچیاں زیرتعلیم ہیں جو نہایت چاق وچوبند تھے۔

بچوں کو پڑھانے والے مقامی استاد عطا اللہ، نوجوان اور محنتی ہیں۔ بچوں سے مختلف باتیں کیں اور ان کا حوصلہ بڑھایا۔

یہاں سے آگے بڑھے تو صحبت پور کے نواحی علاقے آدم پور کھوسہ کی راہ لی جہاں کی جامع مسجد ہمارے انتظار میں تھی۔ تقریباً 125 سال پرانی یہ مسجد ”میر آدم خان کھوسہ” کی تعمیرکردہ ہے جس کے تین نہیں بلکہ سات گنبد ہیں۔

مسجد کے مرکزی دروازے کے اوپر ایک چار محرابی کمرا ہے جس پر گنبد بھی ہے۔ یہ جگہ پرانے وقتوں میں اذان دینے کے لیے بنائی جاتی تھی تاکہ اونچی جگہ اذان دینے سے دور دور تک سنائی دی جا سکے۔ اس جگہ تک پہنچنے کے لیے مسجد کے اندر سے سیڑھیاں جاتی ہیں۔

اس کے بعد ہم نے صحبت پور کی قدیم مسجد، سردار سخی صحبت خان گولا مسجد دیکھی جو کسی زمانے میں قلعے کے اندر ہوا کرتی تھی۔

اس مسجد کا ذکر اوپر بھی کیا جا چکا ہے۔ نیلے ٹائل اور سفید بڑے گنبدوں پر مشتمل اس مسجد میں لکڑی کا نہایت خوب صورت کام دیکھنے کو ملتا ہے۔ حالاںکہ اب اس کی تزئین و آرائش کر دی گئی ہے لیکن دیکھنے سے کہیں کہیں پرانے آثار بھی مل جاتے ہیں۔ اس علاقے میں زیادہ تر مساجد کا نام انہیں تعمیر کرنے والوں یا تاریخی شخصیات کے نام پر رکھا گیا ہے۔

صحبت پور سے ڈیرہ اللہ یار واپس آتے ہوئے راستے میں سڑک سے ذرا ہٹ کہ ایک پرانا اور بدحال سا مقبرہ کھڑا ہے جس کی اینٹیں نیچے سے اکھڑ چکی ہیں اور اندر کوئی قبر موجود نہیں ہے۔ یہ تباہ حال مقبرہ اپنے دور کے عظیم جنگ جُو بلوچ سردار نوری نصیر خان کا بتایا جاتا ہے۔

خان آف قلات، میر نصیر خان بلوچ (1749–1794) اٹھارھویں صدی کے دوران بلوچستان کے حکم راں تھے۔ انہیں ”نوری نصیر خان عظیم” کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ وہ اس خطے کے پہلے حکم راں تھے جنہوں نے مختلف قبائل اور قوموں کے ساتھ صحت مند دوستانہ تعلقات قائم کیے، اور بلوچوں کے بکھرے ہوئے قبائل کو ایک وحدت بنایا۔ انہوں نے اسلامی شریعت اور بلوچ روایات پر کام کرنے کے لیے ایک بلوچ پارلیمنٹ بھی قائم کی۔

ان کے دور میں پوری ریاست میں مساجد تعمیر کی گئیں، اور زکوٰۃ جمع کرنے کے لیے سرکاری سطح پر انتظامات کیے گئے۔ اسلامی تصورات کے خلاف عسکری قوانین کو منسوخ کر دیا گیا۔ ایک خصوصی حکم نامے کے ذریعے انہوں نے تمام مسلم خواتین کے لیے پردے کو ان کی عمر سے قطع نظر لازمی قرار دیا۔ سب سے اہم بات کہ قدیم نام ”توران” کو ختم کر کہ اس سرزمین کا نام بلوچستان رکھ دیا گیا۔ نوری نصیر خان یہاں کیسے آئے اور یہ مقبرہ کب تعمیر کیا گیا اس کے حوالے سے کوئی تاریخی شواہد نہیں ملے۔

بلوچستان کے اس تاریخی ورثے کی حالتِ زار پر آنسو بہا کہ ہم اوستہ محمد کو چل دیئے جہاں ”نور محمد جمالی” اپنے دوست کے ہمراہ ہمارے منتظر تھے۔

نور محمد جمالی پیشے سے ایک معلم اور لکھاری ہیں جنہوں نے سیلاب کے دنوں میں اپنے علاقے گنداخہ میں کافی فلاحی کام کیا ہے۔ وہ اس علاقے کے چپے چپے سے واقف ہیں سو کشتیوں کے ذریعے بھی بہت سے علاقوں تک پہنچے ہیں۔ وقت کی قلت کے باعث انہیں گنداخہ سے اوستہ بلا لیا گیا۔ سڑک کنارے ایک ٹرک ہوٹل پر ہماری پہلی ملاقات ہوئی اور ہم برسوں کے دوستوں کی طرح گپیں لگانے لگے۔

بلوچستان اور خصوصاً اوستہ محمد کی صورت حال اور میری کتاب سمیت دیگر موضوعات پر گھنٹہ بھر گفتگو ہوئی۔

اس دوران انہوں نے ہمیں آگے چلنے کے لیے بہت کہا لیکن مغرب ہوچکی تھی اور ہمیں واپس پہنچنا تھا، سو نور بھائی کو ادویات کے ڈبے اور مستحقین کی امانتیں تھمائیں اور ہم نے واپسی کی راہ لی۔

رات آفتاب بھائی کی طرف سے پُر تکلف عشائیے کا اہتمام تھا جس میں تلی ہوئی مچھلی، چاول، دیسی مرغ اور کراری بھنڈیاں شامل تھیں۔ رات کو چائے پر خیمہ بستیوں میں مقیم سیلاب زدگان کے حوالے سے گفتگو ہوئی اور کچھ پراجیکٹس کو حتمی شکل دے کہ ہم سوگئے۔

اگلا دن میرا یہاں آخری دن تھا۔ سو ہم سب آرام سے تیار ہوئے اور جھٹ پٹ کی سیر کو نکل گئے۔ محمود بھائی، وحید اور ذوالفقار بھائی نے راقم کو اعزازی طور پر بلوچی پگڑی پہنائی جسے پہن کر میں کسی بلوچ سردار جیسا محسوس کر رہا تھا۔

ان دوستوں کی معیت میں شہر کی قدیم جیل، انگریز دور کا چھوٹا سا ریلوے اسٹیشن اور مسجد دیکھی۔ اس کے بعد شہر کے نواح میں مرکزی سڑک پر ان حضرات کی بسائی گئی خیمہ بستی کا دورہ کیا جس کے دونوں طرف پانی ہی پانی کھڑا تھا۔

افسوس کہ بلوچستان حکومت نے ابھی تک سیلاب کے پانی کے اخراج کا کوئی بندوبست نہیں کیا ہے۔ مقامی لوگ عورتوں اور بچوں سمیت یہاں کسمپرسی کی حالت میں رہ رہے تھے۔ مردوں سے بات چیت کی اور ان کی ضروریات اور مسائل دریافت کیے۔ اس سے مجھے یہ اندازہ ہو گیا کہ اگلی بار یہاں کس قسم کا سامان لے کر آنا ہے۔

ان احباب سے اجازت لے کہ ہم جیکب آباد کی طرف روانہ ہوگئے۔ یہاں میرے میزبانوں نے مجھے جیکب آباد کا مشہور وکٹوریہ ٹاور، بخاری مسجد اور بازار دکھایا اور سکھر شہر کے لیے مجھے بس اڈے پر اتار دیا۔ بہت سی دعاؤں، محبتوں اور خلوص کے ساتھ ہم نے ایک دوسرے کو الوداع کہا اور دوبارہ آنے کے وعدے پر میں نے سکھر کی جانب سفر شروع کیا۔

سکھر سے بذریعہ بس ہم نے اپنے گھر کی راہ لی کہ

شام ڈھلے ہر اک پنچھی کو گھر جانا پڑتا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔