ڈھاکا، فوجی یا سیاسی ناکامی ؟ (دوسرا اور آخری حصہ)

جاوید قاضی  بدھ 7 دسمبر 2022
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

سانحہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے سیاسی لسٹ میں سب سے پہلا نام میرے محبوب لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کا ہے۔ ایک اور پہلو ہے بھٹو کا۔ جب شیخ مجیب رہا ہوئے ، ہمارے نوے ہزار قیدی ہند وستان میں تھے۔

اب ان کو کیسے آزاد کرایا جائے؟ بھٹو صاحب میرے والد کے دوست تھے، سیاسی اختلاف اپنی جگہ۔ یہ بات شیخ مجیب کو بھی پتہ تھی۔ شیخ مجیب جب راولپنڈی سے، لندن جانے والے تھے تو خواہش ظاہر کی کہ وہ میرے والد جو کہ عوامی لیگ کے سینئر وائس پریذیڈنٹ بھی تھے، ان سے ملنا چاہتے ہیں۔ میرے والد راولپنڈی پہنچے، دوسری صبح گیارہ بجے ان کی پرواز تھی۔

روانگی سے پہلے شیخ مجیب سے میرے والد کی ملاقات رکھی گئی تھی، لیکن اچانک پروگرام تبدیل ہوا ، شیخ مجیب کچھ خطرات کے پیش نظر رات کوہی روانہ ہوگئے ، اور میرے والد کی شیخ مجیب سے ملاقات نہ ہوسکی۔

میر ے والد نوابشاہ لوٹ گئے، دو دن ہی گذرے ہوں گے ، ایس پی نوابشاہ سرکاری پیغام لے کر آئے کہ ان کا لندن جانے کا بندوبست کر دیا گیا ہے اور وہ وہاں جاکر شیخ مجیب سے ملیںاور بھٹو صاحب کا پیغام ان کو پہنچائیں۔ میرے والد لندن روانہ ہوئے، شیخ مجیب سے ملنے اور بھٹو صاحب کا سندیس پہنچانے۔ جس کا ذکر انھوں نے اپنی سوانح حیات میں شاید نہیں کیا مگر یہ ضرور لکھا ہے کہ شیخ مجیب نے میرے والد کو یہ ضرور کہا کہ ’’ ان کی جان پچانے میں بہرحال ذوالفقار علی بھٹو کا بہت بڑا کردار ہے۔‘‘

بات گھوم پھر کر میرے پاس کچھ اس طرح آئی کہ میری 2013 میں بنگلہ دیش کے سفیر کے ساتھ ملاقات ہوئی، وہ ان کے وزیر خارجہ کا دعوت نامہ لے کر آئے جس میں میرے والد کو ان کی حکومت کی طرف سے تمغہ دیا جائے گا،ان کا بنگالیوں کے ساتھ اس بھیانک وقت میں کھڑے ہونے کے اعتراف میں۔ غالبا اس سفیر کا نام سہراب تھا۔

انھوں نے بتایا ’’آپ کو پتا ہے جب شیخ مجیب الرحمان، پنڈی سے لندن گئے اور لندن سے دہلی پہنچے ڈھاکا جانے کے لیے تو دہلی میں شیخ صاحب نے پریس کو کہا تھا کہ’’ بھٹوکا ان کے پاس پیغام آیا ہے کہ بنگلہ دیش اور پاکستان میں کنفیڈر یشن ہوسکتی ہے۔‘‘ یہ پیغام بھٹو صاحب کا لندن میں قاضی فیض صاحب نے پہنچایا تھا۔ مجھے یوں لگا اگر یہ بات سچ ہے تو پھر یہ جو ’’ادھر تم ادھر ہم‘‘ کی باز گشت ہوتی تھی 1970 کے انتخابی نتائج کے بعد یہ بھی تو کنفیڈر یشن کی ایک شکل تھی۔

اس ساری رواداد کو نہ سیاسی ناکامی کہا جاسکتا ہے نہ فوجی ناکامی۔ بس ایک ناکامی ہی کہا جاسکتا ہے، جس کی بنیاد 1947کے وقت ہی پڑ گئی تھی، ایک کمزور پارٹی اور سیاسی قیادت کو پاکستان کی قیادت ملی، جو اس سے چھین لی گئی اور آگے جاکے آمریتوں کی نظر میں مشرقی پاکستان درد سر تھا۔

اس سے جان چھڑوانا چاہتے تھے ہم۔ ہم مغربی پاکستان والے سب اتنے حساس نہیں تھے اسی وجہ سے مسلسل آمریتوں کے ہم نوا رہے۔ وہ چلے گئے اور اگر وہ ہوتے تو ہماری جمہوریت بہت مضبوط ادارہ بن کے ابھر چکی ہوتی۔

میرے والد لکھتے ہیں کہ 1967 میں ان کی تین ماؤں کا یکے بعد دیگر انتقال ہوا، ایک ان کی سگی ماں ، دوسری ایلسا قاضی، جوعلامہ آئی آئی قاضی کی زوجہ تھیں (جو میرے والد کے روحانی والد تھے) اور تیسری ماں فاطمہ جناح تھیں۔ شیخ مجیب، جنرل ایوب کے خلاف جب فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑے ہوئے، شانہ بشانہ، تو یہ پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وہ پاکستان توڑنے والے ہیں۔ دراصل ہم نے انھیں دیوار سے لگادیا ۔

قصہ یہاں ختم نہیں ہوتا، یہ جو دو لیڈر تھے، شیخ مجیب اور ذوالفقار علی بھٹو ، ایک مشرقی پاکستان سے تھااورایک مغربی پاکستان سے۔دونوں مارے گئے آمریتوں کے ان نشانوں سے۔

والد صاحب ذوالفقارعلی بھٹو کے زمانے میں جلاوطن ہوئے، پہلے ڈھاکا پہنچے، اس وقت شیخ مجیب وزیر اعظم بنگلہ دیش تھے۔ انھوں نے میرے والد کو کہا کہ ’’ وہ بچوںسمیت ڈھاکا چلے آئیں اور یہاں کے شہری ہوجائیں۔‘‘ میرے والد کو جلاوطن رہنا تھا۔ شیخ مجیب بھانپ گئے تھے کہ پاکستان میں ان کے خلاف کھچڑی پک رہی ہے۔

میرے والد نے بھی یہی سمجھا کہ یہاں سے کوچ کیا جائے ، یہ فطری بھی تھا۔ والد جلاوطنی کاٹ کرجب ایک سال بعد کراچی پہنچے تو انھیں جیل میں بھیج دیا گیا۔وہ جیل ہی میں تھے جب شخ مجیب الرحمان ڈھاکا میں بنگلہ فوجیوں کے ہاتھوں مارے گئے۔

میرے والد جب قید سے آزاد ہوئے تو بھٹو مارے گئے۔ دونوں اگر آپس میں ساتھ بیٹھتے خاص کر بھٹو صاحب اگر اس وقت کے آمرانہ سوچ کے ہاتھوں استعمال نہ ہوتے اور اگر شیخ مجیب وزیر ِ اعظم ہوتے ! پاکستان بننے کے بعد پورے تیئس سال مغربی پاکستان کا اقتدار پر قبضہ رہا،جب کہ ہم اقلیت تھے،جب ان کی باری آئی انھوں نے نہیں، ہم نے پاکستان توڑ دیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔