ملک کو درپیش مسائل

ناصر الدین محمود  اتوار 11 دسمبر 2022

عمران خان کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کے بعد سے ہی ان کی ہر حکمت ِ عملی ناکامی کا شکار رہی۔ اول تو وہ اپنے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کو ناکام نہیں بنا سکے اور اس کا سارا بوجھ انھوں نے امریکا پر ڈالنے کی ناکام کوشش کی۔

بعد ازاں انھوں نے پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے حوالے سے امریکا پر جھوٹے اور من گھڑت الزامات عائد کر کے قومی مفادات کو بھی داؤ پر لگا دیا۔ عمران خان اپنی حکومت کے خاتمے کو مسلسل امریکا کی سازش سے تعبیر کرتے رہے اور پھر اس سازش کو کامیاب بنانے میں پاکستان کی اشرافیہ کو موردالزام قرار دیتے رہے۔

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے نتیجے میں برسر اقتدار آنیوالے جمہوریت پسند سیاسی جماعتوں کے اتحاد کو بھی ان کی جانب سے شدید ردعمل کا سامنا رہا۔ عمران خان نے ملک گیر سطح پر حکمراں اتحاد میں شامل تمام سیاسی جماعتوں کے خلاف منظم مہم چلائی۔ انھوں نے بڑی مہارت کے ساتھ معاشرے میں امریکا اور ملک کی اشرافیہ کے خلاف پہلے سے موجود جذبات اور احساسات کو اجاگر کر کے اپنا حامی بنانے کی کوشش کی۔

عمران خان نے اپنی سوشل میڈیا کی پیشہ ور، انتہائی موثر اور ماہر ٹیم کے ذریعے معاشرے میں یہ تاثر پیدا کروایاکہ کرپشن، اقربا پروری اور سماجی ناانصافی کے خلاف لڑنیوالا عمران خان، اب پاکستان کی خودمختاری کے لیے امریکا کے خلاف بھی صف آرا ہو گیا ہے۔ چنانچہ اب قوم پر لازم ہو گیا ہے کہ وہ پاکستان کی حقیقی آزادی کی اس تحریک میں عمران خان کا ساتھ دے۔

موقع غنیمت جانتے ہوئے عمران خان نے امریکی سازش اور حکومت کے خلاف حقیقی آزادی کی تحریک کا آغاز کر دیا۔ اس احتجاجی تحریک کا آخری معرکہ لانگ مارچ کو قرار دیا گیا اور بتایا گیا کہ اس کی کامیابی کے ساتھ ہی موجودہ حکومت کو گھر بھیج دیا جائے گا اور نئے الیکشن کی تاریخ حاصل کر لی جائے گی، لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس عمران خان نے لانگ مارچ کا آغاز تو کر دیا لیکن لانگ مارچ میں عوام کی عدم شرکت کے باعث انھیں جلد ہی اس امر کا احساس ہو گیا کہ وہ اپنے مطالبات میں کامیابی حاصل نہیں کر سکیں گے۔

اس مرحلے پر مجبوری یہ درپیش تھی کہ آیا اس لانگ مارچ کو درمیان ہی میں کس طرح سے ختم کر دیا جائے؟ کیونکہ درمیان میں اس کو ختم کرنا زیادہ بڑی ناکامی تصور کیا جاتا لہٰذا عمران خان نے اپنے اوپر ہونیوالے قاتلانہ حملے میں زخمی ہونے کو بنیاد بنایا اور خود بیڈ ریسٹ پر چلے گئے لیکن لانگ مارچ کو جاری رکھا اور آخر کار راولپنڈی میں ایک جلسے سے خطاب میں انھوں نے مستقبل میں پارٹی رہنماؤں اور اتحادیوں سے مشاورت کے بعد اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے لانگ مارچ کو مطلوبہ مقاصد کے حصول کے بغیر ہی ختم کر دیا۔

عہد حاضر میں کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کے لیے وہاں سیاسی استحکام اور داخلی انتشار سے محفوظ امن و امان پر مشتمل معاشرہ سب سے اہم عنصر تصور کیے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے آج ہمارا ملک ان دونوں حوالوں سے شدید بحرانوں کی زد میں ہے۔ ایک طرف عمران خان اقتدار سے معزولی کے بعد سے اب تک ملک میں مسلسل سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، تو دوسری طرف اچانک اب ٹی ٹی پی نے حکومت پاکستان کے ساتھ کیے گئے امن معاہدے کے خاتمے کے اعلان کر دیا ہے۔

ٹی ٹی پی کی جانب سے امن معاہدے کے خاتمے کے اعلان کے نتیجے میں ملک داخلی طور پر خلفشار کا شکار ہو سکتا ہے۔اب عمران خان اپنے مطالبات کو تسلیم کروانے کے لیے جلسے، جلوس، لانگ مارچ، دھرنے اور اسمبلیوں سے استعفوں سمیت اسمبلی تحلیل کروا کر قبل از وقت انتخابات کروانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

وہ اپنی احتجاجی تحریک کے ذریعے پورے ملک میں بے یقینی کی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ حکومت ان سے مذاکرات پر مجبور ہو کر گفتگو کا آغاز کرے جب کہ حکمراں اتحاد ان سے مذاکرات تو کجا محفوظ راستہ بھی دینے کو تیار دکھائی نہیں دیتا۔ حکومت، عمران خان کی بلیک میلنگ میں آ کر ان سے مذاکرات کرنے کے بجائے قوم کے سامنے ان کی سیاسی قوت اور ان کی سیاسی بصیرت کا پول کھول دینا چاہتی ہے۔ اس مرحلے پر عمران خان شدید تذبذب کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔

ایک جانب ان کی پارٹی کے رہنما اور اتحادی صوبائی حکومتیں چھوڑ کر اسمبلیاں تحلیل کرنے کے خلاف ہیں تو دوسری جانب حکومت ان سے مشروط مذاکرات پر آمادہ دکھائی نہیں دیتی۔عمران خان کا مستقبل میں پارلیمانی سیاست میں کردار ادا کرنے کا یہی راستہ ہو سکتا ہے کہ وہ جو کہ اب تک کئی مواقعوں پر اپنے موقف سے یوٹرن لے کر پچھلے مؤقف سے متضاد پوزیشن لینے کی شہرت رکھتے ہیں اس بار ایک مثبت یوٹرن لے کر قومی اسمبلی میں واپسی کا اعلان کر دیں۔

آج کے حالات میں ان کے لیے یہی سب سے بہتر آپشن ہو سکتا ہے کیونکہ قومی اسمبلی میں واپسی کے بعد ہی ان کے لیے یہ ممکن ہو سکے گا کہ وہ عبوری حکومت کے قیام، الیکشن قوانین میں کسی نوعیت کی ترامیم اور الیکشن کمیشن سمیت دیگر امور پر حکومت کے ساتھ مشاورت کے عمل میں شریک رہ کر اپنے چند مطالبات کو تسلیم کرواسکیں گے بصورتِ دیگر وہ اس پورے انتخابی عمل سے دور رہ جائیں گے۔ ایسے میں عمران خان اگر 2023 کے انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کر سکے تو ان نتائج کے خلاف ان کے لیے کسی قسم کی احتجاجی تحریک بھی ممکن نہ ہو سکے گی۔

عمران خان کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ اب وہ حکومت کے خلاف کس طرح کوئی موثر تحریک چلا کر مستقبل کی حکومت کو دباؤ میں لا سکیں گے؟ عمران خان کے لیے سب سے بہتر آپشن یہی ہے کہ وہ ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں سے اپنے سیاسی نظریات میں اختلاف کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ قائم کریں اور سیاسی عمل کو جمہوری انداز میں آگے بڑھائیں۔

اس وقت حکومت کے سامنے دو مسائل دیوقامت عفریت کی مانند کھڑے ہیں، ایک ملک میں موجود سیاسی عدم استحکام اور دوسرے امن و امان کی صورتحال۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد طالبان کی قائم ہونے والی حکومت نے پاکستان میں ٹی ٹی پی کو ایک بار پھر تقویت فراہم کی تھی۔ اس وقت پاکستان میں برسر اقتدار تحریک انصاف کی حکومت جو طالبان کے لیے پہلے ہی نرم گوشہ رکھتی تھی اس نے ٹی ٹی پی کے ساتھ سختی سے نمٹنے کے بجائے معاہدے کیے۔

ٹی ٹی پی نے پاکستان حکومت سے امن معاہدے کے باوجود صوبہ خیبر پختونخوا میں اپنے اثرورسوخ میں دن بدن اضافہ جاری رکھا۔ نومبر 2022 میں ٹی ٹی پی نے پاکستان حکومت سے کیے گئے امن معاہدے کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے اپنی سرگرمیوں کا ایک بار پھر باقاعدہ آغاز کر دیا۔

ٹی ٹی پی کی جانب سے حکومت پاکستان سے کیے گئے امن معاہدے کے خاتمے کا بغور جائزہ لے کر مستقبل کے لیے حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ حکومت عالمی اور علاقائی صورتحال کے پیش نظر ملک اور قوم کے عظیم تر مفاد میں فیصلے کرے گی جسے تمام ریاستی اداروں کی مکمل حمایت حاصل ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔