فضائل امین و امانت

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی  جمعـء 16 دسمبر 2022
کام کے اوقات، عہد و پیمان امانت ہیں، اگر کسی شخص نے اپنے راز کی باتیں ہمیں بتائی ہیں تو وہ بھی امانت ہیں، ان کا پاس رکھنا شرعی و اخلاقی ذمے داری ہے ۔ فوٹو : فائل

کام کے اوقات، عہد و پیمان امانت ہیں، اگر کسی شخص نے اپنے راز کی باتیں ہمیں بتائی ہیں تو وہ بھی امانت ہیں، ان کا پاس رکھنا شرعی و اخلاقی ذمے داری ہے ۔ فوٹو : فائل

امانت اُس مال یا سامان کو کہتے ہیں جو کسی کے پاس رکھا جائے۔ جس کے پاس امانت رکھی جائے اُس کو مودَع یعنی امانت دار یا امین کہتے ہیں۔ مال یا سامان کے مالک کو مودِع یعنی امانت دہندہ یا امانت گزار کہتے ہیں۔

مثال کے طور پر اگر زید نے عبدﷲ کے پاس ایک ہزار روپے بہ طور امانت رکھے تو زید امانت دہندہ یا امانت گزار، عبدﷲ امانت دار یا امین اور ایک ہزار روپے امانت کہلائیں گے۔ اسلام نے ہر عمل خیر کے کرنے کی ترغیب اور ہر عمل شر سے بچنے کی تعلیم دی ہے۔

عمل خیر میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنا مال یا سامان کسی شخص کے پاس بہ طور امانت رکھنا چاہے تو امین کو چاہیے کہ اگر وہ اُس مال یا سامان کی حفاظت کرسکتا ہے تو ساری انسانیت کے نبی حضور اکرم ﷺ کی سُنّت کے مطابق اُس مال یا سامان کو بہ طور امانت رکھ کر اپنے بھائی کی مدد کرے۔

غرض یہ کہ شریعت اسلامیہ نے ہمیں اپنے پاس امانت رکھنے اور امانت دہندہ کے مطالبے پر واپس کرنے کی خصوصی تعلیمات دی ہیں، کیوں کہ اس کے ذریعے آپس میں میل جول، محبت اور ایک دوسرے پر بھروسا پیدا ہوتا ہے جو ایک اچھے معاشرہ کے وجود کا سبب بنتا ہے۔

حضور اکرم ﷺ کے پاس صحابۂ کرامؓ حتی کہ کفار مکہ بھی اپنی امانتیں رکھا کرتے تھے۔ آپ ﷺ اس ذمے داری کو بہ حسن خوبی انجام دیا کرتے تھے، چناں چہ آپؐ کی امانت داری کو دیکھ کر نبوت سے قبل ہی آپؐ کو امین کے لقب سے نوازا گیا۔

حضور اکرم ﷺ نے جب مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرنے کا ارادہ فرمایا تو آپ ﷺ کے پاس لوگوں کی جو امانتیں رکھی ہوئی تھیں، حضرت علی کر ﷲ وجہہ کو امانت دہندوں تک پہنچانے کی ذمے داری عطا فرمائی اور مدینہ منورہ کے لیے ہجرت فرما گئے۔

حضرت علیؓ آپ ﷺ کے بستر پر ہی سوئے تاکہ صبح آپ ﷺ کی نیابت میں ساری امانتیں لوگو ں کو واپس کردیں اور کسی شخص کو یہ شبہ بھی نہ ہو کہ نعوذ باﷲ حضور اکرم ﷺ امانتیں لے کر چلے گئے۔

قرآن و حدیث میں امانت اور اس کے احکام کے متعلق متعدد مرتبہ ذکر آیا ہے۔ چند آیات و احادیث کا مفہوم پیش ہے:

’’یقیناً ﷲ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حق داروں کو پہنچاؤ۔‘‘ (النسائ)

’’ہاں! اگر تم ایک دوسرے پر بھروسا کرو تو جس پر بھروسا کیا گیا ہے وہ اپنی امانت ٹھیک ٹھیک ادا کردے۔‘‘ (سورۃ البقرۃ)

’’اے ایمان والو! ﷲ اور رسولؐ سے بے وفائی نہ کرنا اور نہ ہی جان بوجھ کر اپنی امانتوں میں خیانت کے مرتکب ہونا۔‘‘ (سورۃ الانفال)

’’اور جو اپنی امانتوں اور عہد کا پاس رکھنے والے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو جنتوں میں عزت کے ساتھ رہیں گے۔‘‘ (سورۃ المعارج)

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’امانت کے طور پر رکھی شے کو واپس کرنا چاہیے۔‘‘

(ترمذی، ابوداود، ابن ماجہ)

قرآن و حدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ کسی کا مال یا سامان بہ طور امانت اپنے پاس رکھنا باعث اجر و ثواب ہے۔

ﷲ تعالیٰ کے ارشاد کا مفہوم ہے: ’’نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو۔‘‘ (سورۃ المائدۃ)

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ﷲ تعالیٰ بندہ کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہے۔‘‘ (مسلم)

قرآن و حدیث میں وضاحت اور اجماع امت کے ساتھ انسانی زندگی کا تقاضا بھی ہے کہ امانت رکھنے اور لینے کی اجازت دی جائے۔

لہذا ہمیں چاہیے کہ اگر ہمارا کوئی بھائی یا دوست یا پڑوسی اپنا مال یا سامان بہ طور امانت ہمارے پاس رکھنا چاہتا ہے اور ہم اس ذمہ داری کو انجام دے سکتے ہیں تو ہمیں اپنے نبی ﷺ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس کے مال یا سامان کو اپنے پاس بہ طور امانت رکھ لینا چاہیے اور ان شاء ﷲ اس عمل خیر پر ﷲ تعالیٰ کی جانب سے اجر عظیم ملے گا۔

کسی کا مال یا سامان اپنے پاس بہ طور امانت رکھنا ایک مستحب عمل ہے جو باعث اجر و ثواب ہے۔ البتہ بعض حالات میں امانت رکھنا واجب ہوجاتا ہے، مثلاً کسی شخص کا مال غیر محفوظ ہے اور آپ کی امانت میں اس کے مال یا سامان کی حفاظت ہوسکتی ہے اور کوئی دوسرا ذمہ دار شخص موجود نہیں ہے، تو آپ کی ذمہ داری ہے کہ اس شخص کے مال و سامان کو اپنے پاس بہ طور امانت رکھ لیں تاکہ اس شخص کا مال یا سامان محفوظ ہوسکے۔

اگر آپ امانت کی حفاظت نہیں کرسکتے ہیں تو آپ کے لیے بہتر ہے کہ آپ کسی کی امانت اپنے پاس نہ رکھیں۔ اگر کوئی سامان یا رقم بہ طور امانت رکھ دی گئی تو اس پر متعدد احکام مرتب ہوں گے، ان میں بعض اہم حسب ذیل ہیں:

مال یا سامان امین کے پاس بہ طور امانت رہے گا۔ امین کو حتی الامکان امانت یعنی ودیعہ کی حفاظت کرنی چاہیے۔ امانت دہندہ اپنا مال یا سامان کسی بھی وقت واپس لے سکتا ہے۔ امین امانت کو کسی بھی وقت واپس کر سکتا ہے۔

امین امانت کی حفاظت یا اس کی بقا کے لیے جو رقم خرچ کرے گا وہ امانت دہندہ کو برداشت کرنی ہوگی، مثال کے طور پر جانور امانت میں رکھا گیا تو جانور کے چارے وغیرہ کا خرچ، نیز اگر مکان امانت میں رکھا گیا تو اس کی بجلی، پانی وغیرہ کے مصارف اور اسی طرح اگر مکان کی حفاظت کی غرض سے کچھ کام کروایا گیا تو اس کے مصارف امانت دہندہ کو برداشت کرنے ہوں گے۔

امین کے لیے جائز ہے کہ وہ امانت کی حفاظت کے لیے اپنی اجرت کی شرط لگائے۔ اگر اجرت طے ہوئی ہے تو امانت دہندہ کو اجرت ادا کرنی ہوگی۔ ہاں اگر اجرت طے نہیں ہوئی لیکن امانت کی حفاظت کے لیے امین کو اپنی زمین کا قابل ذکر حصہ استعمال کرنا پڑ رہا ہے تو جمہور علماء کی رائے ہے کہ وہ اس کا کرایہ لے سکتا ہے۔

لیکن امانت رکھنے میں اصل اپنے بھائی یا پڑوسی یا دوست کی خیر خواہی اور بھلائی مطلوب ہوتی ہے، لہٰذا شروع ہی میں یہ معاملہ طے ہوجائے تو زیادہ بہتر ہے تاکہ بعد میں کسی طرح کا کوئی اختلاف رونما نہ ہو۔

اجرت لینے کی صورت میں بھی جمہور علماء کی رائے ہے کہ بہ طور امانت رکھا ہوا مال یا سامان اگر امین کی خیانت کے بغیر ضایع ہوگیا یا اس میں کچھ نقصان ہوگیا تو امین پر کسی طرح کا کوئی مؤاخذہ نہیں ہوگا۔ امین کو چاہیے کو وہ امانت سے کوئی فائدہ نہ اٹھائے، ہاں اگر امین نے امانت دہندہ سے امانت میں رکھی ہوئی شے سے استفادہ کرنے کی اجازت لے لی ہے تو پھر کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر امین کے بے جا تصرف کی وجہ سے امانت میں نقصان ہوا ہے تو امین اس کا ذمے دار ہوگا۔

قرآن و حدیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ امانت میں رکھا ہوا مال یا سامان امین کے پاس بہ طور امانت ہوگا، چناں چہ اگر مال یا سامان امین کی کوتاہی کے بغیر ضائع ہوگیا یا اس میں کچھ نقصان آگیا تو امین پر کسی طرح کا کوئی مؤاخذہ نہیں ہوگا۔

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اگر کسی شخص کے پاس امانت رکھی گئی تو وہ اس پر لازم نہیں ہوگئی یعنی اگر امین کی کوتاہی کے بغیر امانت ضایع ہوگئی یا اس میں کچھ نقصان ہوگیا تو امین پر کوئی تاوان نہیں ہوگا۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)

حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت علی مرتضیٰ، حضرت عبدﷲ بن مسعود اور حضرت جابر رضی ﷲ عنہم سے بھی یہی منقول ہے کہ امانت امین کے ہاتھوں میں بہ طور امانت ہوا کرتی ہے، یعنی اگر وہ امین کی کوتاہی کے بغیر ضائع ہوجائے یا اس میں کوئی نقصان ہوجائے تو امین پر اس کا کوئی تاوان نہیں ہوگا۔

عقل بھی یہی کہتی ہے کہ جس کے پاس امانت رکھی گئی ہے اور اس نے لوجہ ﷲ امانت اپنے پاس رکھی ہے تو نقصان کی صورت میں امین کیوں ذمے دار بنے گا۔ اگر امین کو ذمے دار بنا دیا گیا تو کوئی بھی امانت رکھنے کے لیے تیار نہیں ہوگا، پھر سارے لوگ اس خیر خواہی کے عمل سے محروم ہوجائیں گے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں معروف چاروں ائمہ اور دیگر محدثین و مفسرین و علمائے کرام کی بھی یہی رائے ہے۔

اگر امانت دہندہ یہ دعوی کرے کہ امین کے بے جا تصرف کی وجہ سے امانت ضایع ہوئی ہے تو جمہور علماء کی رائے ہے کہ امین سے قسم لی جائے گی کہ اس نے امانت میں کوئی زیادتی یا کوتاہی نہیں کی ہے۔ اور امین کے قسم کھانے پر اس کے حق میں فیصلہ کردیا جائے گا، اس لیے کہ وہ امین ہے، ﷲ تعالیٰ نے ودیعہ کو امانت سے تعبیر کیا ہے، لہٰذا اصل میں اس کو بری الذمہ ہی قرار دیا جائے گا، الا یہ کہ متعدد شواہد اس کے جھوٹ پر واضح طور سے دلالت کریں۔

خالق کائنات کے حکم سے رحمۃ للعالمین ﷺ نے ایسا حکم صادر فرمایا ہے جس میں معاشرے کی خیر خواہی ہے کیوں کہ امین خدمت خلق کے لیے امانت کو اپنے پاس رکھتا ہے۔ اگر امین کو ضامن قرار دیا جائے تو لوگ امانت رکھنے سے ہی اجتناب کریں گے جس میں عام لوگوں کا ضرر ہے، نیز یہ عمومی مصلحتوں کے خلاف بھی ہے۔

تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ امانت میں رکھی ہوئی شے کے منافع امانت دہندہ کو ہی ملیں گے، مثال کے طور پر جانور امانت میں رکھا تھا، بچہ کی ولادت ہوگئی، اسی طرح امانت میں رکھے ہوئے باغ کے پھل، نیز زمین امانت میں رکھی تھی اس کی قیمت میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا، وغیرہ۔

امانت دہندہ (امانت گزار) اور امانت دار (امین ) میں چند شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، جس میں بنیادی دو شرطیں یہ ہیں کہ دونوں عاقل اور بالغ یا باشعور ہوں۔ اگر امین کا انتقال ہوگیا تو اس کے ورثاء پر لازم ہے کہ امانت یعنی ودیعہ امانت دہندہ کو واپس کریں۔

امین کے کسی لمبے سفر پر جانے کی صورت میں امین کو چاہیے کہ وہ امانت، امانت دہندہ کو واپس کرکے جائے، اگر اس وقت امانت دہندہ نہ ملے تو کسی شخص کو مکلف کردے کہ وہ امانت کو امانت دہندہ کے حوالہ کرے۔

کیوں کہ حضور اکرم ﷺ نے جب مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرنے کا ارادہ فرمایا تو آپ نے حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کو ان تمام امانتوں کو ان کے مالکان تک واپس کرنے کی ذمے داری دی تھی۔ ہاں اگر امانت دہندہ امین کے سفر کے باوجود امانت کو اس کی امانت میں رکھنے پر راضی ہے تو کوئی حرج نہیں۔

امانت دہندہ کو چاہیے کہ امانت کی واپسی پر امین کا شکریہ ادا کرے، کیوں کہ اس نے لوجہ ﷲ یہ خدمت انجام دی ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جو انسانوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ ﷲ کا کیا شکر ادا کرے گا۔‘‘ (ترمذی) اگر امانت دہندہ‘ امین کو کوئی ہدیہ بھی پیش کردے تو بہتر ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اگر تمہارے ساتھ کوئی اچھا برتاؤ کرے تو تم اس کو کچھ اپنی طرف سے پیش کردو۔

اگر تمہارے پاس ہدیہ دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے تو تم اس کے لیے خوب دعائیں کرو۔‘‘ (ابوداود) دوسری جانب امانت دار کو اُس پر کوئی احسان نہیں جتانا چاہیے بلکہ اس نے حضور اکرم ﷺ کے نقش قدم پر چل کر یہ عمل خیر کیا ہے، لہذا ﷲ تعالیٰ سے اس عمل خیر کے قبول ہونے اور اس پر اجر و ثواب کی دعا کرنی چاہیے۔

جس طرح امانت میں رکھی شے کی حفاظت کرنا امین کی ذمے داری ہے، اسی طرح یہ دنیاوی فانی زندگی، مال و اولاد ہمارے پاس ﷲ تعالیٰ کی امانتیں ہیں، لہذا ہمیں ہمیشہ ان عظیم امانتوں کی صحیح ادائی کی فکر کرنی چاہیے۔

ﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، مفہوم: ’’ہم نے یہ امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کی تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اس کا بوجھ اٹھا لیا۔‘‘ (سورۃ الاحزاب) اپنی اخروی زندگی کی تیاری کے ساتھ اپنے بچوں اور ماتحتوں کے مرنے کے بعد کی زندگی کی بھی تیاری کی فکر کرنا ہماری ذمے داری ہے، جس کے متعلق قیامت کے دن ہم سے پوچھا جائے گا۔

اگر ہم ملازمت کررہے ہیں تو کام کے اوقات ہمارے لیے بہ طور امانت ہیں، لوگوں سے جو ہم عہد و پیمان کرتے ہیں وہ بھی ہمارے پاس بہ طور امانت ہیں، اگر کسی شخص نے اپنے راز کی باتیں ہمیں بتائی ہیں تو وہ بھی ہمارے پاس بہ طور امانت ہیں۔

ان کا پورا کرنا ہماری شرعی و اخلاقی ذمے داری ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم ’’جب امانتوں میں خیانت ہونے لگے تو بس قیامت کا انتظار کرو۔‘‘ (بخاری) اسی طرح حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’منافق کی تین علامتیں ہیں: جھوٹ بولنا۔ وعدہ خلافی کرنا۔ امانت میں خیانت کرنا۔‘‘ (بخاری و مسلم)

ﷲ تعالیٰ ہم سب کو امانتوں کی حفاظت کرنے والا بنائے اور ہمیں امانت دہندہ تک صحیح سالم امانت لوٹانے والا بنائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔