رواں ہے قافلہ ارتقائے انسانی (آخری حصہ)

زاہدہ حنا  بدھ 21 دسمبر 2022
zahedahina@gmail.com

[email protected]

پاکستان میں بنیادی انسانی حقوق کی بحالی کا مسئلہ بھی بڑی حد تک روبہ اندمال ہے۔ عورتوں کے معاملات جوں کے توں ہیں اور انھیں چادر اور چار دیواری میں مقید رکھنے کے لیے جو امتیازی قوانین بنائے گئے تھے ان کی تلوار ابھی تک ان کے سروں پر لٹک رہی تھی۔

زیادہ پرانی بات نہیں کہ جب بے نظیر بھٹو وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئیں تو بعض جماعتوں نے اس پر اعتراض اٹھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ عورت سربراہ حکومت نہیں ہوسکتی۔ اس مؤقف کی تائید میں مذہب کی دلیلیں لائی گئی تھیں جب کہ یہ خالصتاً بنیادی انسانی حقوق کامسئلہ تھا۔

ان حقوق کے تحت دنیا کی ہر عورت کو دنیا کے ہر مرد کے برابر حقوق حاصل ہیں اور محض جنس کی بنیاد پر اسے کسی منصب کسی عہدے کے لیے نااہل نہیں سمجھا جاسکتا۔

ایک ایسی صورتحال میں پاکستان کے روشن خیال اور خرد دوست مردوں اور عورتوں پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بنیادی انسانی حقوق کے عالمی منشور کو محض چند صفحات پر مشتمل ایک کتابچہ نہیں سمجھیں۔

یہ ایک ایسی دستاویز ہے جس پر پاکستان نے دستخط کیے ہیں۔ اب حکومتوں پرلازم ہے کہ وہ اس دستاویز پر عمل کریں اور اس کی پاسداری کریں۔پاکستان کے تعلیم یافتہ اور باشعور طبقے کو جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام سے نبردآزما ہوتے ہوئے بنیادی انسانی حقوق کے حصول کے لیے اپنی جدوجہد کو تیز سے تیز تر کردینا چاہیے۔

انھیں چاہیے کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ، خواتین کے خلاف امتیازی قوانین کی منسوخی اور دیگر تمام انسان دشمن قوانین کی منسوخی کے لیے آواز بلند کریں۔

انسانی حقوق اس وقت سے اپنا وجود رکھتے ہیں جب سے انسان موجود ہے۔ انسانی حقوق ’’ریاست‘‘ کے وجود میں آنے سے پہلے بھی موجود تھے۔ حقوق انسانی کے تحفظ کے اصول کا حقیقی مآخذ یہ تصور ہے کہ انسان ایک ’’ہستی‘‘ ایک ’’فرد‘‘ اور ایک ہستی یا ایک فرد کے کسی سماج یا معاشرے سے تعلق اور رشتے کو ’’عالمی فطرت انسانی‘‘ سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔

انسانی حقوق کا وجود کسی مملکت یا ریاست کی پسند و ناپسند پرمنحصر نہیں، نہ اس کا کسی مملکت کے قوانین یا دوسرے عدالتی نظام پر انحصار ہے، نہ یہ بین الاقوامی طور پر رسم و روایات یا معاہدوں کا پابند اور محتاج ہے۔

اس کا وجود انسان سے ہے اور انسان کے وجود کا انحصارانسانی حقوق پر ہے، چنانچہ یہ دونوں ایک دوسرے سے اس طرح جڑے ہوئے ہیں کہ انھیں نسل، رنگ، مذہب یا زبان کی بنیاد پر علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔

یہی خیال 300 سال قبل مسیح مشہور رواقی فلسفی زینو کے یہاں ملتا ہے جو انسانیت اور انسانوں کی مختلف برادریوں اور قبیلوں میں تقسیم کا شدت سے مخالف تھا۔ اس نے ایک ایسی ریاست کا خواب پیش کیا تھا جہاں دانشمند، نیک خو اور نیک دل رہتے ہوں۔

وہ ’’خاندان‘‘ اور ’’دولت‘‘ کو ایسے ’’جال‘‘ قرار دیتا تھا جن میں انسانیت پھنسی ہوئی رہتی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اس ریاست میں یہ تمام لعنتیں یکسر مٹا دی جائیں گی۔

پلوٹارک نے اس بارے میں لکھا ہے ’’رواقی مکتبہ فکر کے بانی زینو کی یہ (خیالی) جمہوریہ جس کی بہت تعریف و توصیف کی جاتی ہے، اس کی روح کو مختصر الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ ہمیں شہروں، قبیلوں اور برادریوں میں منقسم ہوکر زندگی نہیں گزارنی چاہیے اور نہ انصاف پر مبنی ہمارے قوانین ایک دوسرے سے الگ ہونے چاہئیں۔

ہمیں انسانوں کو ہم کار اور برادر شہری سمجھنا چاہیے۔ دنیا میں ایک طرز زندگی اور ایک ہی طریقہ حیات ہونا چاہیے، بالکل اسی طرح جس طرح جانور کا کوئی گلہ، چراگاہ کے ایک قطعے سے مشترک طور پر اپنی بھوک مٹاتا ہے۔‘‘

زینو نے اپنی اس ریاست کا خواب پیش کرتے ہوئے دانشمندوں اور نیک خو افراد کو دنیا کے دوسرے انسانوں سے ممیز کیا تھا لیکن اس کے بعد آنے والے رواقی فلسفیوں نے اپنا نقطہ نظر قدرے مختلف انداز میں پیش کیا اور اچھے اور برے تمام انسانوں کو ایک ہی قبیلے سے جانا۔ تب ہی رواقی فلسفی سیسرو نے لکھا ’’اس پوری دنیا کو انسانوں اور دیوتاؤں کی ایک ریاست تصور کیا جانا چاہیے۔ اس سے زیادہ کوئی بات یقینی ہو بھی نہیں سکتی۔

یہ بات واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے کہ ہم انصاف کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں اور قانون کا تعین انسانوں کی رائے سے نہیں بلکہ قانون فطرت کے حسابوں سے ہونا چاہیے۔ یہ بات بہت واضح ہوجائے گی اگر ہم معاشرے کو اور اس میں رہنے والے انسانوں کے درمیان روابط اور تعلق کو غور سے دیکھیں۔

انسان ایک دوسرے سے جتنی مماثلت رکھتے ہیں، اتنی کوئی بھی دوسری چیز نہیں۔ انسان کی جو بھی تعریف بیان کی جائے وہ تمام انسانوں پر صادق آتی ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کے تمام انسان جس باب میں درندوں پر سبقت رکھتے ہیں، وہ ہے سیکھنے کی صلاحیت، خواہ سیکھنے کی اس صلاحیت سے کام لینے کے مختلف طریقے استعمال کیے جاتے ہوں۔‘‘

بات پاکستان میں بنیادی انسانی حقوق کے مسائل سے زینو اور سیسرو تک چلی گئی لیکن ان قدیم خوابوں کو بیان کرنے سے میرا مدعا محض یہ ہے کہ جب آج سے 2300 یا 2400 برس پہلے کے دانشور، مفکر اور فلسفی انسانوں کو ایک برادری تصور کرتے ہوں اور یہ کہتے ہوں کہ دنیا کی تمام نعمتیں دنیا کے تمام انسانوں کے لیے ہیں اور ان میں مساوی طور پر تقسیم ہونی چاہئیں، تو پھرآج کے انسان سے اس بات کی توقع رکھنا یقینا غلط نہیں کہ وہ ان خیالات و افکار کو محض کتابوں اور کتابچوں میں دفن نہیں رہنے دے گا بلکہ سماج میں ان کے اطلاق کی بھی سعی کرے گا۔

جن معاشروں میں روایتوں کو زمینی حقیقتوں پر ترجیح دی جاتی ہو، ان معاشروں کے دانشوروں کی یہ ایک اہم ذمے داری ہے کہ وہ اپنے لوگوں کو یاد دلاتے رہیں اور اس بارے میں ان کا شعور بیدار کریں کہ انسانوں کی آزادی، ان کے حقوق کے بازیابی اور ظلم و ستم سے ان کی نجات کا نسخہ ہواؤں میں تحریر نہیں کیا گیا۔

ہوا کے دوش پر اڑتے ہوئے بادلوں پر کوئی ایسا کلام نہیں تحریر ہوگا جو عورتوں اور مردوں کو، مظلوموں اور مجبوروں کو آج کے معروضی حقائق اور حالات کے تحت آزادی اور برابری کا موقع عطا کرے۔ اس وقت تک کی صورتحال میں انسانی حقوق کا عالمی منشور وہ دستاویز ہے جو انسانوں نے انسان کی بہتری کے لیے تحریر کی ہے۔

یہ تحریر حرف آخر کی حیثیت نہیں رکھتی۔ یہ وہ حتمی کلام نہیں، جس میں انسانوں کی بہتری کے لیے کوئی اضافہ یا ترمیم نہ کی جاسکتی ہو۔

فطرت ہوا کو، پانی اور مٹی کو، دھوپ اور چاندنی کو، نسل، رنگ، جنس، مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر تقسیم نہیں کرتی، فطرت کی راحتیں اور اس کی نعمتیں، اس کے ثواب اور اس کے عذاب مرد اور عورت میں تخصیص نہیں کرتے، وہ بلند و پست کو نہیں دیکھتے۔

ہم تمام انسان ایک عظیم انسانی خاندان کے رکن ہیں اور ہماری تمام صلاحیتیں اور ہمارا تخلیقی جوہر، انسانوں کی بہتری کے لیے صرف ہونا چاہیے۔

ہم اکیسویں صدی میں قدم رکھ چکے ہیں۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ ہم انسانیت کی اس عظیم جست کے موقع پر زندہ ہیں جب ہماری تخلیقی صلاحیتیں، ہمارا وفور زندگی اور ہماری قوت حیات سب ہی کچھ اس عظیم انسانی خاندان میں سب کو یکساں حقوق اور مساوی مواقع بہم پہنچانے کے لیے ایک عظیم اور متحرک دھارے کی صورت اختیار کرگئی ہے۔ یہ عظیم دھارا ہماری زندگیوں میں انسانوں کی تقدیر کا رخ آج نہیں تو کل یقینا موڑ دے گا۔

ساحرؔ نے کہا تھا ’’رواں ہے قافلۂ ارتقائے انسانی‘‘ یہ اسی ارتقائے شعور انسانی کا نتیجہ ہے کہ حقوق انسانی کی جدوجہد آج ترقی یافتہ اور تیسری دنیا کے ممالک میں ایک تحریک کی صورت اختیار کرچکی ہے اور اسے عزیز رکھنے والوں اور اس کے فروغ کے لیے مشکل مرحلوں سے گزرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔