ہمارے بچے سب کے سانجھے

شہلا اعجاز  جمعـء 30 دسمبر 2022

بچوں پر تعلیم کا کتنا بوجھ ہے۔ کیا بڑوں کو اس کا احساس ہے؟ بچے اسکول سے نکل کر کالج میں قدم رکھتے ہیں اور والدین کی امیدیں ان سے کئی گنا بڑھ جاتی ہیں، ہمارا بیٹا انجینئر بنے، ہماری بیٹی ڈاکٹر بنے، کس قدر خواہشات، تمنائیں دلوں سے ابھرتی ہیں اور اس پہاڑ تلے بچے دبتے چلے جاتے ہیں۔

یہ صورت اس وقت اور بھی شدید ہو جاتی ہے جب پہلے سال بچوں کی کارکردگی اچھی جاتی ہے اب دوسرے سال تیر مار لینے کا شوق بچوں سے زیادہ والدین پال لیتے ہیں، لیکن بچے جانتے ہیں کہ ان پر کیا بیت رہی ہے۔

گویا آگے کنواں اور پیچھے کھائی۔ بھارت میں راجستھان کے شہر کوٹاہ میں اس قسم کی صورت حال شدید ہوگئی جب ایلن نامی ایک کوچنگ سینٹر میں پڑھنے والے دو بچوں نے خودکشی کرلی ان پر پڑھائی کا شدید دباؤ تھا اور انھیں احساس تھا کہ وہ آگے بڑھ کر ڈاکٹر یا انجینئر بننے کی سند حاصل نہیں کرسکیں گے۔

اس کے لیے بچوں نے پہلے اپنے موبائل فونز کو ری سیٹ کیا اور پھر اپنے ہوسٹل کے کمرے کی بیڈ شیٹ سے پنکھے میں لٹک کر خودکشی کرلی۔ 2022 میں دسمبر کے مہینے کے آخری دنوں تک یہ پندرہویں خودکشی تھی ،جو اس شہر میں پڑھائی کے سلسلے میں تھک ہار کر انجام دی گئی تھی۔

کہا جاتا ہے کہ شاید تعداد اس سے بھی زیادہ ہو۔ بھارت میں پڑھائی کا رجحان جس قدر شدید صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے، وہیں کوچنگ سینٹرز کی مانگ میں اضافہ بڑھتا جا رہا ہے۔ بڑے بڑے سینٹرز منہ کھولے بڑی بڑی مانگ طلب کرتے ہیں۔ آج یہ کیا راز ہے کہ بڑے بڑے میڈیکل کالجز اور انجینئرنگ یونیورسٹیز اور آئی ٹی میں داخلے کے لیے ان کوچنگ سینٹرز سے گزرنا لازمی ہے۔ لاکھوں روپے کی فیس اور ہوسٹل میں رہنے کے اخراجات الگ، بچے دور دراز علاقوں اور شہروں سے یہاں کوچنگ سینٹرز میں پڑھتے ہیں۔

پاکستان میں بھی کچھ ایسی ہی صورت حال ہے جہاں بچوں کے ساتھ والدین بھی پڑھائی کی وجہ سے دباؤ میں رہتے ہیں۔ 2022 میں انٹرمیڈیٹ کے رزلٹ نے ایک عجب سی حالت دکھائی ہے کراچی میں کامرس میں یہ ساٹھ فیصد کی کامیابی کے تناسب کے ساتھ پھر بھی حوصلہ افزا رہی جب کہ سائنس میں خاصی تنزلی دیکھنے میں آئی۔

سرکاری کالجوں کی ایک بڑی تعداد کے بچے فیل ہوگئے جب کہ غیر سرکاری کالجز بھی اس فہرست میں آگے رہے۔ یہ ایک انتہائی تشویش ناک صورتحال ہے کہ جب کل کالجز کی ناکامی کی تعداد پچیس فی صدسے آگے بڑھ جائے۔ آخر اس لاپرواہی کا ذمے دار کون ہے؟ سرکاری اساتذہ بڑے بڑے عہدوں پر پوری مراعات کے ساتھ تنخواہیں وصول کرتے ہیں، کیا وہ بچوں کو کالجز میں بلانے اور انھیں اس توجہ سے پڑھانے پر راغب نہیں کرسکتے جو کوچنگ سینٹرز اسے اپنا اخلاقی فرض سمجھ کر موٹی فیسوں کے ساتھ نبھا رہے ہیں۔

اگر بچوں کو ایسے ہی کوچنگ سینٹرز کا بزنس چمکانا ہے تو پھر حکومت سرکاری کالجز اور اساتذہ کی تنخواہوں پر اتنے پیسے کیوں خرچ کرے؟ جب کہ یہاں تو یہ صورتحال ہے کہ سرکاری ملازمین دو دو سرکاری عہدوں پر خدا جانے کیسے ڈیوٹیاں نبھا رہے ہیں لیکن تنخواہیں پوری ایمان داری سے وصول کر رہے ہیں۔

کیا ہمارے ماضی نے ان عظیم ہستیوں کے کارناموں کو نہیں دیکھا اور سنا جنھوں نے اسٹریٹ لائٹس کی مدھم روشنیوں میں پڑھا، جنھیں انٹرنیٹ اور کوچنگ سینٹرز کی سہولیات میسر نہ تھیں۔ ہم کیا کر رہے ہیں؟ کس جانب بڑھ رہے ہیں؟ہمارا نظام اچھا ہو سکتا ہے اگر اس میں کچھ تبدیلیاں ہو جائیں، ہم ابھی تک رٹو طوطے کے نظام کو گھسیٹ رہے ہیں۔

لاجک پر بات نہیں کرتے مثلاً انجینئرنگ میں پریکٹیکل پر زیادہ زور دینا چاہیے لیکن ہمارے یہاں تھیوری پر زیادہ زور دیا جاتا ہے، تھیوری بھی بہت ضروری ہے کہ اس پر عمل کرکے پریکٹیکل کیا جاتا ہے لیکن تھیوری کو رٹوانے کا عمل صحیح نہیں ہے۔ یہ ایک طالبعلم کا کہنا تھا۔

ساتھ یہ بھی کہ ہمارے بچے ذہین ہیں لیکن ان کی ذہانت کے لحاظ سے بہت سی چیزیں بہت نچلے لیول کی ہیں تو کچھ بہت عام سی جب کہ ایجاد پر زیادہ زور دینا چاہیے جو آج کے وقت کی ضرورت ہے۔اب تو میڈیکل یونیورسٹی میں بھی جانا اتنا اہم نہیں۔ طالبعلم نیٹ سے اٹھا لیتے ہیں لیکن پریکٹیکل کے لیے جانا پڑتا ہے، کیونکہ ظاہر ہے ہمیں عملی طور پر ان تمام چیزوں کو دیکھنا اور کرنا پڑتا ہے ورنہ ہمیں پریکٹس ہی نہ ہو۔

ایک ذہین طالبہ کی رائے بھی بہت سے دوسرے بچوں کی طرح ایسی ہی تھی۔ حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ دیکھی جس میں ایک خاتون کو پیٹ میں معمولی درد پر ان کے شوہر صاحب نے اپنی محبت میں اسپتال لے جانے کا مشورہ دیا اور چلے بھی گئے اور ہنستی مسکراتی خاتون چند ہی گھنٹوں میں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں تھیں، بقول اس بڑے چمک دمک کرتے نئے پرائیویٹ اسپتال کے کہنہ مشق (بظاہر) ڈاکٹرز کے اب آپ ان کی زندگی کی کوئی امید نہ رکھیے۔

ایک بڑے شہر کے بڑے اسپتال کے بڑے ڈاکٹرز کے اس بیان نے اس شخص کے دل اور جیب کی کیا حالت کی وہ ایک الگ کہانی ہے۔ یہ تو اوپر والے نے ان پر کرم کیا کہ مریضہ کے اپنے سگے بھائی جو ڈاکٹر تھے اور کراچی کے ایک بڑے اسپتال میں کام کرتے تھے نجانے کیسے اس جگہ انھیں ڈھونڈتے پہنچ گئے اور ان کے چند سوالات پر ہی مذکورہ اسپتال کے ڈاکٹرز معصومیت سے بولے کہ’’ سر! آپ ہی تشخیص کریں کہ انھیں کیا ہے۔‘‘ لہٰذا سب سے پہلے ڈاکٹر بھائی نے اپنی بہن کو اس نئے نجی اسپتال سے نکالا اور سرکاری اسپتال میں داخل کروایا۔

اب وہ بہن خیر خیریت سے ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ دوسرے تمام سرکاری اور نجی اسپتالوں میں غفلت برتی جاتی ہے لیکن مرض کی تشخیص کرنا کس قدر بڑی اور اہم ذمے داری ہے جو ہمارے یہاں حکومتی اداروں سے لے کر غیر سرکاری اداروں تک میں مفقود ہے ورنہ ہمارے اسپتالوں اور اداروں کی حالت بہت بہتر ہوتی۔ ہمارے یہاں حال یہ ہے کہ کراچی میں میڈیکل اور انجینئرنگ یونیورسٹیز میں داخلے تین مہینے پہلے ہی ہوچکے ہیں۔

بچے اپنا پہلا سیمسٹر مکمل کرچکے ہیں اور امتحانات کے بعد سردی کی چھٹیاں گزار رہے ہیں جب کہ بارہویں جماعت کا نتیجہ بھی اسی دسمبر میں آیا۔ ذرا سوچیے ان بچوں کے مستقبل کا کیا ہوگا جو فیل ہوگئے حالانکہ وہ گیارہویں جماعت میں اچھے نمبروں کی بنیاد پر بھاری رقوم جمع کرا کر بڑے تعلیمی اداروں میں داخلے بھی لے چکے ہیں۔

یہ کس الجھن میں ہمارے بچے اور تعلیمی اداروں کو پھنسا دیا گیا ہے؟ امتحانی فیسوں کی مد میں ایک معقول رقم جمع کرائی جاتی ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ امتحانی کاپیاں چیکنگ کے مراحل اس قدر سست روی سے مکمل کرتی ہیں کہ نتائج اس قدر تاخیر سے آتے ہیں۔ ہماری قوم کے بچوں کا یہ بہت اہم مسئلہ ہے اس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے اس طرح بچوں کا قیمتی وقت ضایع جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔