Deep Rethink

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 31 دسمبر 2022
tauceeph@gmail.com

[email protected]

بلاول بھٹو زرداری نے واشنگٹن میں بھارتی وزیر اعظم کو للکارا۔ صدر ڈاکٹر عارف علوی نے بلاول بھٹو زرداری کے بیان کا خیرمقدم کیا اور کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ہمارے وزیر خارجہ نے درست موقف اختیار کیا۔‘‘

پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو جب 60ء کی دہائی میں وزیر خارجہ کے عہدہ پر فائز ہوئے تو انھوں نے کشمیر کو فتح کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ تاریخ دان کہتے ہیں کہ آپریشن جبرالٹر کی تیاری میں ذوالفقار علی بھٹو کے مشورے بھی شامل تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ایوب خان اور بھارتی وزیر اعظم لعل بہادر شاستری کے درمیان تاشقند میں ہونے والے معاہدہ کے بعد ایوب خان کی حکومت سے علیحدہ ہوگئے ۔ انھوں نے 1967ء میں پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔

پیپلز پارٹی بھارت دشمنی اور روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرہ پر پنجاب میں مقبول ہوئی تھی مگر جب ذوالفقار علی بھٹو برسر اقتدار آئے تو انھوں نے کشمیر کی آزادی کے نعرے کو ’’محدود‘‘ کیا اور وزیر اعظم اندرا گاندھی کے ساتھ معاہدہ شملہ پر اتفاق کیا۔ معاہدہ شملہ کی بناء پر پاکستان کے 90 ہزار فوجی بھارتی قید سے آزاد ہوئے۔ ہزاروں مربع میل کا علاقہ جس پر بھارتی فوج نے 1971ء کی جنگ میں قبضہ کیا تھا واپس ہوا۔ دونوں ممالک کے درمیان سمجھوتہ ایکسپریس چلی۔ دونوں ممالک کی فضائی کمپنیوں کی پروازیں بحال ہوئیں۔

بلاول بھٹو کی والدہ بے نظیر بھٹو 1988ء میں اقتدار میں آئیں تو بھارت سے دوستی کا سفر تیز ہوا۔ بھارت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے اسلام آباد کا دورہ کیا۔سابق وزیر اعظم نواز شریف نے بھارت سے تجارت کے حجم کو بڑھانے کے لیے نئے معاہدے کیے۔ ان کے دوسرے دور میں بھارتی وزیر اعظم واجپائی لاہور آئے اور دوستی بس چلی۔

کارگل لڑائی کے بعد میاں نواز شریف کی دوستی کی پالیسی پروان نہ چڑھ سکی مگر جب پرویز مشرف صدر کے عہدہ پر فائز ہوئے تو بھارت سے دوستی کے ایک اور نئے دور کا آغاز ہوا، وہ آگرہ گئے مگر وزیر اعظم واجپائی سے کشمیر کے مسئلہ پر معاہدہ نہ ہو سکا، یوں جنرل پرویز مشرف امن کے پیامبر کی حیثیت سے تاریخ میں اپنا نام درج کرانے سے محروم ہوگئے۔

پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھارت سے تعلقات کو معمول پر لانے کی پالیسی اختیار کی مگر بمبئی میں ہونے والی دہشت گردی کے بعد بھارتی حکومت کے سخت اور پاکستان مخالف رویے سے صدر پاکستان آصف زرداری کی دونوں ممالک کے درمیان مستقل امن کے لیے سرحدی علاقہ میں صنعتی زون قائم کرنے کی تجویز سبوتاژ ہوگئی۔

ایشیا اور مشرق بعید کی مالیاتی دہشت گردی کے روک تھام کی اقوام متحدہ کی ٹاسک فورس نے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال دیا اور بہت سی پابندیاں عائد کردیں۔ ان پابندیوں کی بناء پر پاکستان کی بینکنگ کی صنعت بری طرح متاثر ہوئی۔ غیر رسمی معیشت محدود ہوکر رہ گئی۔ پاکستان پوسٹ کا سیونگ بینک اور اسٹیٹ بینک کی انعامی بونڈز کی اسکیمیں بند کرنی پڑیں۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف نے بھارت سے نئے تجارتی معاہدے کیے۔ وزیر اعظم مودی ان کی نواسی کی مہندی کی تقریب میں شرکت کے لیے لاہور آئے۔ عمران خان کرکٹر کی حیثیت سے بھارت میں ہمیشہ مقبول رہے۔ ان کے پرستاروں میں کھلاڑیوں کے علاوہ بمبئی کی فلمی ہیروئنیں اور اداکارائیں بھی شامل تھیں۔

جب عمران خان نے شوکت خانم ہسپتال بنانے کے مشن کو شروع کیا تھا تو بھارت کے نامور اداکاروں نے یورپ اور امریکا کے مختلف شوز میں ہونے والے ورائٹی پروگراموں میں بلامعاوضہ شرکت کی تھی، جب عمران خان وزیر اعظم کے عہدہ کا حلف اٹھانے والے تھے تو تحریک انصاف کے ذرائع دعوی کرتے تھے کہ بھارت کے ممتاز کھلاڑیوں کے علاوہ معروف فلمی اداکار اور سیاستدان اور صحافی بھی شرکت کریں گے، پھر بوجوہ اس فہرست کو مختصر کیا گیا تھا۔ بھارت سے صرف ایک معروف کھلاڑی اور کانگریس کے رہنما عمران خان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کرسکے تھے۔

جب وزیر اعظم عمران خان امریکا گئے تو صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے کچھ کرنے والے ہیں۔ شاید اور وجوہات کے علاوہ ایک وجہ ٹرمپ کا اعلان تھا کہ بھارت حکومت نے اپنے آئین کی شق 378 کو ختم کر کے کشمیر کی خودمختار حیثیت کو ختم کردیا تھا۔

سابق وزیر اعظم عمران خان نے اس مسئلہ پر سفارت کاری کا آپشن استعمال کرنے کے بجائے بھارت سے تمام قسم کے تعلقات ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس پالیسی کا زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا۔ پاکستان کی اشیاء کی بھارت میں خاصی کھپت تھی ، اگر تجارتی شعبہ میں بھارت کو پسندیدہ ملک کی فہرست میں شامل کردیا جاتا تو تجارت کا حجم بڑھتا۔ بھارت اس وقت ادویات کی تیاری اور ادویات کے خام مال کی تیاری میں دنیا میں نام بن گیا ہے۔

پاکستان کی ادویات کی صنعت کا دارومدار بھارت سے آنے والے خام مال پر ہے۔ا سی طرح بھارت کی دوائیاں سستی اور خاصی موثر ہوتی ہیں۔ کمپیوٹر کا سامان شوگر انڈسٹری اور زراعت کے آلات بھارت میں سستے تیار ہوتے ہیں، پاکستان کی کھجور کی زیادہ کھپت بھارت میں ہوتی تھی۔

پھر جب دونوں ممالک میں پیاز، ٹماٹر اور سبزیوں کی قیمتیں زیادہ ہوتی تھی تو یہ سبزیاں سرحد پار کر کے مختلف شہروں میں دستیاب ہوتی تھیں، یوں ان اشیاء کی قیمتوں پر قابو پالیا جاتا تھا۔ پاکستان میں سیلاب کے دوران مچھروں کی افزائش سے ڈینگی اور ملیریا عام ہوا۔ وزارت صحت نے بھارت سے سستی مچھر دانیاں درآمد کرنے کا فیصلہ کیا مگر اس فیصلہ پر عمل نہ ہوسکا۔

اقتصادی امور کے ایک ماہر صحافی کا کہنا ہے کہ اب بیشتر اشیاء بھارت سے دبئی کے راستے آرہی ہیں تو ان کی قیمت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ اس تجارت کی بناء پر متحدہ عرب امارات پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر بنادیا گیا۔

سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل سمجھتے تھے کہ موجودہ اقتصادی بحران کو کم کرنے کے لیے بھارت سے تجارت ضروری ہے مگر وہ رخصت ہوگئے، ان کی اس خواہش پر عمل نہ ہوسکا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انھیں بھارت سے تعلقات کو معمول پر لانے کا مشورہ دیا گیا تھا مگر وہ تیا رنہ ہوئے، یوں عمران خان نے اپنی ناقص حکمت عملی کا اقرار کیا۔

اس وقت ملک میں بنیادی اشیاء، آٹا، چینی وغیرہ کی شدید قلت ہے۔ آٹا کی قیمت اب 150روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے۔ بلوچستان میں ایک روٹی 50 روپے میں مل رہی ہے، دوائیوں کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ فارماسوٹیکل کمپنیاں مسلسل حکومت کو بلیک میل کررہی ہیں۔ ملک میں گیس کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے، اگر بھارت سے تجارت شروع کی جائے تو تجارتی شعبہ میں استحکام آسکتا ہے۔

بلاول بھٹو کو ان کے مشیروں نے یہ سمجھادیا ہے کہ بھارت مخالف نعرہ سے انھیں پنجاب میں مقبولیت حاصل ہوگی اور وزارت عظمی کا راستہ مل جائے گا، مگر یہ ان کی بھول ہے۔ اب پنجاب میں بھارت کے خلاف کوئی فضاء موجود نہیں ہے۔ پنجاب کے تاجر بھارت سے تجارت کرنے کے حامیوں میں ہیں۔

بلاول بھٹونے اپنی والدہ کی 15ویں برسی پر ان کے مشن کی تجدید کا عہد کیا ہے مگر وہ اپنے بیانات سے اپنی والدہ کے مشن سے انحراف کر رہے ہیں۔ بلاول بھٹو نے جون میں اسلام آباد کے انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز میں ایک تقریر میں Deep rethink کا فلسفہ پیش کیا تھا، اس پر واقعی غور و فکر کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔