معاشی مسائل کا کوہ گراں، کیسے سر کیا جائے

ایڈیٹوریل  منگل 24 جنوری 2023
ملک میں جاری سیاسی جنگ نے معیشت کو غیر معمولی نقصان پہنچایا ہے (فوٹو : فائل)

ملک میں جاری سیاسی جنگ نے معیشت کو غیر معمولی نقصان پہنچایا ہے (فوٹو : فائل)

پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد نگراں سیٹ اپ آخری مراحل میں ہے، ایک دو روز میں دونوں صوبوں کے نگران وزیراعلیٰ اپنی کابینہ تشکیل دے دیں گے۔

ملک میں جاری سیاسی جنگ نے معیشت کو غیر معمولی نقصان پہنچایا ہے۔بہرحال امید کی جاسکتی ہے کہ اب ملک کی سیاست میں استحکام آئے گااور سیاسی جماعتیںپرامن انداز میں الیکشن کی تیاری کریں گے۔

خیبرپختونخوا میں نگران وزیر اعلیٰ کے نام پراتفاق کا مسئلہ جلد طے پا گیا مگر پنجاب میں پی ٹی آئی کی طرف سے مخالفانہ اور جارحانہ رویہ اپنانے کے باعث لے دے ضرور ہوئی اور کسی نام پر اتفاق نہ ہو سکا‘ جس کے باعث یہ مسئلہ الیکشن کمیشن کے پاس چلا گیا جس نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اس مسئلے کو حل کر دیا۔

اس وقت ملک کی معاشی صورت حال خوش کن اشاریے ظاہر نہیں کر رہی ‘ایک طرف جہاں صنعت کار اور تاجر طبقہ بے یقینی کی کیفیت کا سامنا کر رہا ہے وہاں عوام بھی روز افزوں مہنگائی کے ہاتھوں پریشان دکھائی دے رہے ہیں ‘مہنگائی ہے کہ آسمان کو چُھورہی ہے اور صنعتی پیداوار بھی شدید متاثر ہو رہی ہیں۔

عالمی منڈی میں پٹرول اور اجناس کی قیمتوں میں اضافے جیسے بیرونی عناصر نے بھی ہماری اقتصادی مشکلات میں حصہ ڈالا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ناقص معاشی پالیسیوں اور کمزور خارجہ پالیسی نے بھی پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔

ایسے میں پاک سر زمین پر دہشت گردوں کی واپسی نے ہمارے سیکیورٹی مسائل بھی بڑھا دیے ہیں۔دہشت گردوں کی کارروائیاں امن و امان کے حوالے سے چیلنج بن چکی ہیں‘اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی میں تبدیلیاں لانا ہوں گی کیونکہ دہشت گرد اپنے حملوں میں جدید ترین ہتھیار استعمال کر کے خوف و ہراس کی فضا پیدا کر رہے ہیں۔

اب سیکیورٹی اداروں کو بھی جدید سے جدید ٹیکنالوجی کے حصول کی جانب توجہ دینا ہو گی۔روایتی حکمت عملی اور پالیسیوں کے بل بوتے پر دہشت گردوں کا خاتمہ مشکل ہو چکا ہے۔ادھر حکومت معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے سرگرداں ہے‘ ڈالر کی قیمت میں مزید کمی نہیں ہورہی اور پاکستانی روپے کی قدر میں ناقابل تلافی کمی واقع ہونے سے اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔

کھانے پینے کی چیزیں غریب آدمی کی دسترس سے باہر ہو گئی ہیں ، جس سے ایک معاشی ہیجان نے جنم لیا ہے، مسائل کا کوہ گراں ہے، دوسری طرف ایک سیاسی ٹولا حکومت کو دباؤ میں لانے کے لیے ملک کے ڈیفالٹ ہونے کا پروپیگنڈا بھی کر رہا ہے لیکن وزیر خزانہ اس کی سختی سے تردید بھی کر رہے ہیں۔

ملک میں اس وقت توانائی، معاشی و سیکیورٹی بحرانوں نے کئی مسائل پیدا کر دیے ہیں جن سے ہر خاص و عام بری طرح سے متاثر ہو رہا ہے اور غریب عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں، قومی سلامتی کا تصور معاشی تحفظ کے گرد گھومتا ہے۔

معاشی خود انحصاری کے بغیر قومی خود مختاری پر دباؤ آتا ہے۔ عام آدمی، خصوصاً متوسط طبقے کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان کو اندرونی محاذ کے علاوہ بیرونی محاذ پر بھی لاتعداد چیلنجز کا سامنا ہے۔ تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی علاقائی جغرافیائی سیاست کے براہِ راست اثرات ہماری قومی سلامتی پر بھی پڑ رہے ہیں۔

مغربی سرحد پر بڑھتے ہوئے دباؤ نے ہماری قومی سلامتی کے خدشات کوکئی گنا بڑھا دیا ہے۔دہشت گردی کی وارداتیں ہونے کے بعد اسلام آباد اور کابل کے درمیان بگڑتے ہوئے تعلقات بھی کچھ اچھا خاکہ پیش نہیں کررہے ہیں۔ اندرونی اور بیرونی محاذ پر ہم ان متعدد چیلنجز کا مقابلہ کیسے کرتے ہیں، یہ ہمارے ملک کے مستقبل کے لیے اہم ہوگا۔

جیسا کہ ہم شرح ترقی میں ایک یا دو فیصد بہتری پر پُر امید ہو سکتے ہیں کیونکہ خوش قسمتی سے، ہمارے ملک میں نصف سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے ، ہمیں ان نوجوانوں کی قوت کو بہتر انداز میں استعمال کرنا ہوگا تاکہ ہم سات سے آٹھ فیصد شرح ترقی تک پہنچ سکیں، اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہمیں شرح ترقی میں عارضی اضافے پر پُر امید نہیں ہونا چاہیے۔

ملک کی آبادی پینسٹھ فی صد نوجوانوں پر مشتمل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہماری ملکی ترقی بھی معیشت کے تقاضوں کے مطابق ہونی چاہیے، ہمارے پاس ہر سال بیس لاکھ افراد ورک فورس کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔

ہمیں ان کے لیے روزگار کے مواقعے ڈھونڈنا ہوں گے بصورت دیگر معاشرے میں بھی عدم استحکام پیدا ہوگا۔ نوجوانوں کے لیے کام ڈھونڈنے کا مطلب ہے کہ روزگار کے نئے مواقعے پیدا کیے جائیں جو اسی صورت میں ممکن ہے اگر معیشت بہت تیزی سے ترقی کر رہی ہو۔

لہٰذا ترقی کا مطلب ہے کہ اگلے بیس سے 30 سال تک لگا تار معیشت سات سے آٹھ فیصد ترقی کرے، تو ہی ہم اس تیزی سے بڑھتی آبادی کو روزگار فراہم کر سکیں گے اور اگر ہم اس رفتار سے ترقی نہیں کر رہے تو ہم اپنی استطاعت سے کم شرح پر ہیں، جب پانچ یا چھ فیصد گروتھ ریٹ کے ساتھ ترقی کرتے ہیں، تو سب لوگ خوش ہو جاتے ہیں، حالانکہ ہم اپنی استطاعت کے مطابق ترقی نہیں کر پا رہے اور یہی وہ پیمانہ ہے جس کے مطابق ہمیں فیصلہ کرنا چاہیے۔

میڈیا پورٹس کے مطابق شدید معاشی مشکلات کا شکار پاکستان میں مہنگائی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ عالمی بینک کی عالمی معاشی اثرات سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں مہنگائی ستر کی دہائی کے بعد بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔

رواں سال پاکستان کی شرح نمو میں مزید کمی کا امکان ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان شدید معاشی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔ بد ترین سیلاب اور سیاسی بحران پاکستان کی معاشی مشکلات کے اہم اسباب ہیں۔ بیرونی قرض بھی پاکستان کے لیے بڑا مسئلہ ہے۔

سابق سوویت یونین روس کا حشر ہمارے سامنے ہے ، جس کی اقتصادی زبوں حالی اس کی سلامتی کے لیے خطرہ بن گئی اور دنیا کی یہ سپر طاقت دیکھتے ہی دیکھتے تنکوں کی طرح بکھر گئی، حالانکہ اس کے پاس ایٹم بم بھی تھے اور پوری دنیا میں مار کرنے والے میزائل بھی۔ یہ طاقت پاکستان کو میسر نہیں ہے ، مگر ہمیں اپنے حالات کے اندر رہتے ہوئے معاملات کو سدھارنا ہوگا۔

کورونا کی وبا قدرت کی طرف سے آئی تھی مگر اس دوران ابھرنے والے مسائل کا حل تلاش نہ کیا جا سکا ، دنیا میں تیل اور گیس کی قیمتیں صفر کے ہندسے کو چھو رہی تھیں لیکن پاکستان کی سابق حکومت نے وسائل ہونے کے باوجود توانائی کے سستے داموں کا فائدہ نہ اٹھایا اور برے دنوں کے لیے ان کا ذخیرہ نہ کیا جس کی وجہ سے آج ملک توانائی کے شدید بحران کا سامنا کر رہا ہے۔

سابق حکومت نے افغانستان میں طالبان حکومت کے بارے میں اقوام عالم کی پالیسی اور موقف کے خلاف حکمت عملی اختیار کی، افغانستان کی طالبان حکومت کو پاکستان کے ذریعے فیڈ کرنے کی پالیسی نے ملک کی معیشت کے کس بل نکال دیے۔

ملک میں افرا تفری کی کیفیت پیدا ہو گئی، مسائل کے پہاڑ کھڑ ے ہو گئے، معاشی شعبے میں تو قیامت برپا ہوگئی۔

ہم ان حوادث کا شکار کیسے ہوئے؟ ہمیں معاشی دلدل میں کس نے دھکیلا ؟ ملک کے طول و عرض میں سیاسی انتشار کس نے پیدا کیا؟ اور یوں ہماری قومی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث کون بنا؟ ان تمام سوالوں کے جواب ہمیں تلاش کرنے ہوںگے۔

موجودہ اتحادی حکومت میں تجربہ کار افراد کی موجودگی سے امید پیدا ہوئی ہے کہ ہم ملک و قوم کو ان عارضی مشکلات سے نجات دلانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ معیشت سدھر جائے گی اور سیاسی انتشار پر قابو پا لیا جائے گا۔ اطمینان کی بات یہ ہے کہ حکومتی ٹیم تمام چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مکمل تیار ہے اور وہ اس کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔

اصل مشکل یہ ہے کہ نئی حکومت کو مختصر عرصے میں شدید سیاسی عدم استحکام کا سامنا رہا ہے جو اب تک چلا آرہا ہے۔ اس حکومت کی اقتدار کی باقی میعاد کافی کم ہے اور اس دوران حکومت کو سیاسی انتشار کا بھی سامنا ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سیاسی انتشار میں اس ملک میں معاشی استحکام کے لیے راتوں رات تو کچھ نہیں کیا جا سکتا۔

حکومت کے پاس الہ دین کا چراغ بھی نہیں ہے کہ وہ اسے رگڑ کر سارے مسائل یک دم حل کر دے ، جیسا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد کہا گیا تھا کہ قومی سلامتی اور معاشی استحکام آپس میں جڑے ہوئے ہیں ، تو پھر لا محالہ قومی سلامتی کی صورتحال کو بھی بہتر بنانا مشکل نظر آتا ہے۔

حکومت کو زراعت کی پیداوار بڑھانے اور مینوفیکچرنگ کی شعبے پر خصوصی توجہ دینا ہوگی، تاکہ فوڈ سیکیورٹی اور درآمدی اشیا کے متبادلات اور روزگار کے مواقعے کو یقینی بنایا جاسکے۔ حکومت کو معاشی صورتحال اور دہشت گردی کے ناسور سے نمٹنے کے لیے مزید اہم فیصلے کرنے ہوںگے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔