بیرام کو میرا آخری سلام

زاہدہ حنا  اتوار 29 جنوری 2023
zahedahina@gmail.com

[email protected]

نوعمری سے ہی پارسی مجھے اچھے لگتے ہیں۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ والد کے ملنے والوں میں چند پارسی تھے اور وہ ان کی باتیں سناتے تھے۔ ان کے پاس ایک خستہ حال ’’شاہ نامہ‘‘ تھا جس کے بارے میں خود فردوسی نے لکھا تھا کہ

بسے رنج بردم دریں سال سی
عجم زندہ کردم بدیں پارسی

یہ اس ہجو کا ایک شعر تھا جو فردوسی نے محمود غزنوی کی وعدہ فراموشی یا وعدہ خلافی پر کہی تھی اور غزنی کے شہر سے نکل گیا تھا۔ فردوسی جانتا تھا کہ جب محمود کو اس ہجو کا علم ہوگا تو اس کا غصہ ایک شاعر بے بدل کی گردن اُتروادے گا یا اس کے ناتواں وجود کو کسی زندان میں لحظہ لحظہ گھلنے کے لیے چھوڑدے گا اور بھول جائے گا۔

علامہ شبلی نعمانی نے اس تاریخی واقعے کی کیا خوب منظرکشی کی ہے۔ انسان ایک بار پڑھ لے تو اسے فراموش نہیں کرسکتا۔ اسی ہجو میں فردوسی نے محمود غزنوی کے خاندان پر بھی طنز کیا تھا اور یہ کہہ گزرا تھا کہ

اگر مادر شاہ بانو بُدے
مُرا سیم و زر تابہ زانو بُدے

اور پھر یہ واقعہ کہ ادھر فردوسی کا جنازہ گلی کے ایک دروازے سے نکل رہا ہے اور دوسرے دروازے سے خدام60 ہزار اشرفیوں کے توڑے لے کر حاضر ہورہے ہیں۔ یہ وہ اشرفیاں ہیں جن کا محمود نے فردوسی سے انعام میں دینے کا وعدہ کیا تھا۔ بیٹی کا نام تاریخ میں محفوظ نہیں لیکن وہ انا میں فردوسی سے کم نہیں، سو وہ اشرفیوں کی تھیلیاں واپس پھیردیتی ہے۔

یہ ایک ایسا واقعہ تھا جو میرے ذہن میںمرتسم ہوگیا اور اکثر یاد آتا ہے۔ فردوسی جس نے دنیا کی ہر مصروفیت چھوڑ کر تیس برس میں ایران کی وہ تاریخ لکھی جسے فتح ایران نے کھرچ کر مٹادیا تھا۔ فردوسی نے اگر یہ دعویٰ کیا کہ ’’عجم زندہ کردم بدیں پارسی‘‘ تو کیا غلط کہا۔ یہ آج اگر دنیا کے مختلف براعظموں کی اگیاریوں میں مقدس آگ روشن ہے تو وہ فردوسی کی آنکھوں کے تیل سے جل رہی ہے۔

زرتشیوں سے اسی گہری ثقافتی وابستگی نے مجھ سے مختصر ناول ’’نہ جنوں رہا، نہ پری رہی‘‘ لکھوایا اور آج بھی کراچی اور ممبئی کے پارسیوں سے بہ طور خاص دلی تعلق رکھتی ہوں۔

چند دنوں پہلے کراچی کے ایک نامور بیٹے بیرام ڈی اواری نے اپنے پران تیاگے اور میں صدمے سے دوچار ہوئی۔

بیرام ڈی اواری۔

گوشپی کا شریک زندگی۔

ڈنشا، زر کیز اور زینیا کا پدر مہرباں۔

کراچی کے افق پر اپنے خاندان کا نام ’اواری‘ نیلگوں روشنی کے ثبت کرنے والا بیرام ڈی اواری زندگی کے 81 برس گزار کر شہر خموشاں کو گیا۔

اس کے پدر بزرگوار ڈنشا بیرام اواری 1988 میں اس جہان سے گزرے تھے اور اس ساعت سے اپنے دم واپسیں تک بیرام ڈی اواری تک کراچی پارسی انجمن ٹرسٹ فنڈ کا چیئرمین رہا۔

بیرام اور اس کی شریک حیات گوشپی نے بنکاک اور نئی دلی میں یاچنگ کے کئی مقابلے جیتے۔ ان دونوں کی ایک بہت خوبصورت تصویر شایع ہوئی ہے۔ جوانی کے دنوں کی ایک تصویر۔ ہوا دونوں کے بال اڑا رہی ہے اور ان کے چہرے شادمانی اور سرشاری سے دمک رہے ہیں۔

کامیابیوں کی ایک طویل فہرست ہے جو اس خاندان کے نام سے وابستہ ہے۔ یہ فتح مندیاں صرف سندھ، پاکستان، ہندوستان، یورپ اور کینیڈا تک پھیلی ہوئی ہیں۔ چار ستارہ اور پنج ستارہ اواری ہوٹل دنیا کے مختلف براعظموں میں پھیلے ہوئے ہیں۔1985سے بیرام ڈی اواری تا ایں دم کراچی میں کینیڈا کے اعزازی کونسلر رہے۔

آپ یہ نہ سمجھیںکہ بیرام کے پدر بزرگوار منہ میں چاندی کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے تھے، حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ بیرام کے والد نے ممبئی کے قریب ایک یتیم خانے میں زندگی گزاری۔ وہاں سے نکلے تو زندگی کے سرد و گرم چکھتے ہوئے قدم بہ قدم آگے بڑھے۔ ان کی مادر اگر حیات ہوتیں تو انھیں یہ لوری سناتیں۔

خدا رکھے جواں ہوگا تو یہ ایسا جواں ہوگا
حسین و قہرمان ہوگا دلیر و تیغ راں ہوگا

بہت شیریں زباں ہوگا بہت رنگیں بیاں ہوگا
یہ محبوب جہاں ہوگا، مرا ننھا جواں ہوگا

مرا ننھا بہادر ایک دن تلوار اٹھائے گا
سپاہی بن کے سوئے عرصہ گاہ رزم جائے گا

وطن کے دشمنوں کے خون کی نہریں بہائے گا
اور آخر کامراں ہوگا، مرا ننھا جواں ہوگا

لیکن زرتشی کشت و خوں سے تائب ہوچکے تھے۔ اب ان کی مائیں اپنے بچوں کو تیر و تبر اور کشت و خون کی لوریاں نہیںسناتی تھیں۔ وہ اپنے بچوں کو زندگی کی معرکہ آرائی میںآگے بڑھنے کا درس دیتی تھیں۔ اواری خاندان ایک یتیم خانے سے اٹھ کر کارزار حیات میں یوں سرگرم عمل ہوا کہ آج اس کا نام دنیا کے کاروباری حلقوں میں ایک اہم نام ہے۔

بیرام ڈی اواری نے صرف اپنے بچھڑے ہوئے لوگوں کی دست گیری نہیں کی، اس نے پاکستان میں رہنے والے بہائیوں، سکھوں اور دوسری غریب کمیونٹیوں کے لیے بہت کچھ کیا۔ اس کی یہ بات آج بھی لوگوں کو یاد ہے کہ چند برس پہلے جب پاکستان پر اقتصادی بحران آیا تو یہ بیرام اواری کا خاندان تھا جس نے اپنے اداروں میں کام کرنے والے کسی بھی فرد کو بیروزگار نہیں کیا تھا۔

اور یہ بھی بیرام اواری تھے جنھوں نے ایک بھرے جلسے میں کہا تھا کہ’’ میرے بیٹوں سے کسی نے پوچھا کہ آپ یہاں سے کب اور کہاں جارہے ہیں۔ ہمارے بیٹے ہنسے تھے اور انھوں نے کہا تھا کہ ہم یہاں سے کہیں کیوں جائیں۔ یہ ہماری جنم بھومی ہے۔ ہمیں پہچان یہیں سے ملی ہے۔ ہم اسے کیسے چھوڑ کر جاسکتے ہیں۔‘‘

بیرام کو اپنے والدین سے انکسار اور ہر انسان کا احترام سکھایا گیا تھا اور یہ تمام خوبیاں انھوں نے اپنے بیٹوں، بیٹی اور ان کے بچوں کو منتقل کیں۔ وہ نسروان جی اور ایڈل جی ڈنشا کی طرح سندھ کے ایک ایسے بیٹے تھے جس نے اس سرزمین کی ایسی خدمت کی کہ باید و شاید۔

سمندر کے کنارے ان کے بیچ لگژری ہوٹل نے ادب اور ادیبوں کی جس انداز میں مہمان نوازی اور خاطرداری کی ہے اس کے لیے ہم سب تہہ دل سے ان کے شکر گزار ہیں۔بیرام ڈی اواری کے لیے سروش کا باج ہوچکا۔ ان کے سوگوار انھیں رخصت کرچکے۔ کرچھے میں لوبان کا برادہ رکھ کر سلگایا جائے گا۔ ’’گاتھا‘‘ پڑھی جائے گی۔ دعائیں کی جائیں گی کہ بیرام پُل چنوت پر سے صحیح سلامت گزرجائے، بالکل اسی طرح جیسے ہم پل صراط پر سے گزرنے کی دعا کرتے ہیں۔

ہمارے شہر کا ایک بے مثال بیٹا بیرام اواری چلاگیا ہے۔

بیرام ڈی اواری کو میرا آخری سلام۔

بیرام ڈی اواری کی شریک حیات گوشپی بیرام پیٹل

بیرام کے بیٹے ڈنشا بیرام اواری

بیرام کے بیٹے زرکیز بیرام اواری

بیرام کی بیٹی زینیا بیرام اواری

کو میرا پرسہ

کراچی کے افق پر ’’اواری‘‘ کی نیلگوں روشنی جگمگاتی رہے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔