تاریخ تحریک پاکستان؛ مسخ شدہ حقائق

رفیق چوہدری  اتوار 12 فروری 2023
چوہدری رحمت علی کی ’’پاکستان نیشنل موومنٹ‘‘ سے تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز ہوچکا تھا۔ فوٹو : فائل

چوہدری رحمت علی کی ’’پاکستان نیشنل موومنٹ‘‘ سے تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز ہوچکا تھا۔ فوٹو : فائل

اکثرلوگ جب تحریک پاکستان کا ذکر کرتے ہیں تو صرف مسلم لیگ کو ہی تحریک پاکستان سمجھتے ہیں، حالاںکہ تاریخی لحاظ سے یہ انتہائی بددیانتی ہے جس کی وجہ سے تحریک پاکستان کے کئی اہم گوشے مسخ ہوکر عوام کی نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ کسی نے کہا تھا سیاست کے سینے میں دل میں نہیں ہوتا۔

جمہوری سیاست میں ایک روایت ہے کہ ہر سیاسی جماعت اہم تاریخی واقعات پر اپنی تختی لگانا لازم سمجھتی ہے، جیسے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا کریڈٹ ہر بڑی سیاسی پارٹی خود لینا چاہتی ہے جب کہ تاریخی حقائق کچھ اور کہہ رہے ہوتے ہیں۔

پاکستانی سیاست کی بے رحمی نے یہی حال ’’تاریخ تحریک پاکستان‘‘ کا بھی کیا۔ حالاںکہ مسلم لیگ خالصتاً ایک سیاسی جماعت تھی اور اس کی اپنی سیاسی جدوجہد تھی جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا جب کہ تحریک پاکستان اپنی ابتدا میں بالکل ایک الگ تحریک تھی۔

مسلم لیگ ابتدا میں تحریک پاکستان کی ڈٹ کر مخالفت کرتی رہی۔ اگرچہ بعدازآں اسی تحریک پاکستان کی عوامی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے مسلم لیگ کو اس تحریک کو اپنانا پڑا جس کی وہ شروع میں مخالف تھی۔

تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز پاکستان ڈیکلیریشن سے ہوا تھا جب 28جنوری 1933ء کو چوہدری رحمت علی نے اپنی مشہور اشاعت Now Or Never کے ذریعے مسلمانانِ برصغیر کے لیے نہ صرف علیحدہ وطن کا باقاعدہ مطالبہ پیش کیا بلکہ پاکستان کا نام اور نقشہ بھی پیش کیا۔

اسی سال چوہدری رحمت علی نے پاکستان نیشنل موومنٹ کے نام سے تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز بھی کردیا تھا۔

اس سے قبل گول میز کانفرنسز کے دور ان چوہدری رحمت علی نے مسلم لیگ کے قائدین سے مل کر علیحدہ مسلم ریاست کا مطالبہ کرنے پر زور دیا تھا جب کہ گول میز کانفرنسز کا واحد ایجنڈا انڈین فیڈریشن (متحدہ وفاق) کے لیے آئین کی تشکیل تھا جس سے مسلم لیگی مندوبین بھی اتفاق کر رہے تھے۔

حسین زبیری تحریر کرتے ہیں: ’’چودھری صاحب نے گول میز کانفرنسز کے دوران مسلم مندوبین سے الگ الگ ملاقاتیں کیں اور ان پر یہ بات واضح کی کہ انڈین فیڈریشن قبول کر لینے سے مسلمانوں کی انفرادیت ختم ہوجائے گی اور آپ اللہ اور رسول ﷺ کے سامنے جواب دہ ہوں گے لہٰذا انڈین فیڈریشن کو مسترد کرکے شمال مغربی وطن کے لیے ایک الگ وفاق کا مطالبہ کریں۔‘‘ لیکن جب کسی بھی مسلم رہنما نے مطالبہ ٔ پاکستان کو تسلیم نہ کیا تو بالآخر چودھری رحمت علیؒ نے خود آگے بڑھ کر تاریخی پاکستان ڈکلیئریشن Now or Neverکے ذریعے مسلمانان برصغیر کو یہ باور کرایا کہ اب اگر ہم نے اپنی آزادی کے لیے علیحدہ وطن کا مطالبہ نہ کیا تو شاید کبھی نہ کر سکیں گے۔

تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ اس وقت ہر کسی نے آپ کی مخالفت کی۔ یہاں تک کہ جب برطانوی پارلیمنٹ میں پاکستان اسکیم پر برطانوی گورنمنٹ نے پوچھ گچھ کی تو مسلم لیگی راہ نماؤں کی طرف سے جواب دیا گیا کہ یہ چند طالب علموں کی اسکیم ہے جس سے مسلم لیگ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن اللہ کو کچھ اور منظور تھا۔

چوہدری رحمت علی کی ’’پاکستان نیشنل موومنٹ‘‘ سے تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز ہوچکا تھا۔ چوہدری رحمت علی نے مسلسل محنت اور جدوجہد سے لفظ پاکستان اور تحریک پاکستان کو عام کردیا تھا۔ اس ضمن میں چوہدری رحمت علی نے مختلف ملکوں کے دورے بھی کیے، سفارت کاروں اور مندوبین سے ملاقاتیں بھی کیں اور اعلیٰ سفارتی اور سیاسی شخصیات کو خطوط بھی لکھے جس سے لفظ پاکستان اور تحریک پاکستان بہت جلد منظرعام پر آگئی۔

دوسری طرف عوام میں چوہدری رحمت علی کی تحریروں اور مسلسل اشاعتی مواد سے تحریک پاکستان کے حوالے سے جو ش و جذبہ بڑھ رہا تھا۔ یہاں تک کہ پاکستان کا تصور اور پاکستان کا نام مسلمانان ہند کے دلوں میں رچ بس گیا۔

اسی تناظر میں پاکستان کا مطلب کیا: لاالٰہ الا اللہ کا نعرہ بھی مسلمانوں کی طرف سے سامنے آگیا ۔ لیکن اس وقت تک مسلم لیگ تحریک پاکستان سے بالکل لاتعلق رہی بلکہ اس کی مخالفت کرتی رہی۔

جب 1937ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کو شکست ہوئی تو اس کے بعد مسلم لیگ کے پاس مسلمانوں کی اکثریت کی حمایت حاصل کرلینے کے سوا چارہ نہ رہا۔

لیکن سوال یہ تھا کہ مسلمانوں کی حمایت کیسے حاصل کی جائے۔ نواب سر محمد یامین خان جو قائداعظم کے قریبی ساتھی اور مسلم لیگ کے سینیئر راہنما تھے ان کی کتاب نامۂ اعمال میں لکھا ہے:

“یکم مارچ 1939ء کو ڈاکٹر ضیاء الدین نے مجھے، مسٹر جناح، مسٹر ظفراللہ خان، سید محمد حسین کو الہ آباد بلایا۔ دوپہر کے کھانے پر سید محمد حسین نے چیخ چیخ کر، جیسے ان کی عادت ہے، کہنا شروع کردیا کہ چوہدری رحمت علی کی اسکیم کہ پنجاب، کشمیر، صوبہ سرحد، سندھ، بلوچستان کو ملا کر بقیہ ہندوستان سے علیحدہ کردیا جائے۔

ان سے پاکستان اس طرح بنتا ہے کہ پ سے پنجاب، الف سے افغانیہ یعنی صوبہ سرحد، ک سے کشمیر، س سے سندھ اور تان بلوچستان کا اخیر ہے۔

چوںکہ سید محمد حسین زور زور سے بول رہے تھے اس لیے مسٹرظفر اللہ خان نے آہستہ سے مجھ سے کہا کہ اس شخص کا حلق بڑا ہے مگر دماغ چھوٹا ہے۔ مسٹر ظفر اللہ خان ان کی مخالفت کر رہے تھے کہ یہ ناقابل عمل ہے، مسٹر جناح دونوں کے دلائل غور سے سنتے رہے اور پھر مجھ سے بولے کہ کیوں نہ ہم اس کو اپنالیں اور اس کو مسلم لیگ کا نعرہ بنالیں۔

ابھی تک ہماری عوام میں کوئی خاص مقبولیت نہیں ہے۔ اگر ہم اس کو اٹھائیں تو ہماری کانگریس سے مصالحت ہوسکے گی ورنہ وہ نہیں مانیں گے۔”

اس اہم میٹنگ نے مسلم لیگ کے آئندہ سالانہ اجلاس 23مارچ 1940ء کے خدوخال پہلے سے طے کر دیے تھے۔ اسی اجلاس میں مشہور قرارداد لاہور پیش کی گئی۔ جسے انڈین میڈیا نے قرارداد پاکستان کا نام دیا ۔

اس قرارداد کا مسودہ ابتدائی طور پر پنجاب کے یونینسٹ وزیر اعلیٰ سرسکندر حیات خان نے تیار کیا ۔ یونینسٹ پارٹی تقسیم ہند کے سخت خلاف تھی اور اب تک مسلم لیگ کی اتحادی تھی اور سکندر حیات خان مسلم لیگ پنجاب کے صدر بھی تھے۔ اس کا مطلب واضح تھا کہ مسلم لیگ ابھی تک علیحدہ وطن کی حامی ہر گز نہیں تھی ورنہ سرسکندر حیات خان اور یونینسٹ پارٹی مسلم لیگ سے علیحدہ ہونے میں دیر نہ لگاتے ۔ ایک اور اہم بات نوٹ کیجیے۔

اس اجلاس میں پہلے چوہدری رحمت علی ؒ کو بھی مدعو کیا گیا اور وہ شرکت کے لیے آرہے تھے کہ وزیراعلیٰ پنجاب سرسکندر حیات خان نے انہیں آنے سے روک دیا اور جواز خاکسار تحریک کے متوقع ہنگاموں کو بنایا۔

سوال یہ ہے کہ خاکسار تحریک (جو تقسیم ہند کی مخالف تھی) سے صرف چوہدری رحمت علی ؒ کو ہی خطر ہ کیوں تھا؟ قائداعظم سمیت جتنے راہ نما اجلاس میں شریک ہوئے ان کو خطرہ نہیں تھا؟ اصل بات یہ تھی کہ چوہدری رحمت علی کی پاکستان اسکیم واضح تھی۔

اگر وہ شرکت کرتے تو مبہم قرارداد لاہور واضح قراردادِپاکستان میں بدل جاتی، جب کہ تقسیم اس وقت تک نہ تو مسلم لیگ کا ایجنڈا تھا اور نہ ہی یونینسٹ وزیراعلیٰ سر سکندر حیات اس کو برداشت کرسکتے تھے۔

یہی وجہ ہے کہ سر سکندر حیات خان نے قرارداد کا جو مسودہ تیار کیا اس میں برصغیر میں ایک مرکزی حکومت کی بنیاد پر کنفیڈریشن کی تجویز پیش کی تھی لیکن جب قرارد اد لاہور کے بعد انہوں نے محسوس کیا کہ بعض لوگ اس قرارداد کو تقسیم ہند کا رنگ دے رہے ہیں تو اس پر سرسکندر حیات خان سخت ناراض ہوئے اور اسی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے 11 مارچ 1941ء کو پنجاب اسمبلی میں کھڑے ہوکر یہ کہا کہ: ’’میں ہندوستان میں ایک طرف ہندو راج اور دوسری طرف مسلم راج کی بنیاد پر تقسیم کے سخت خلاف ہوں اور ہم (یونینسٹ پارٹی ) ایسی تباہ کن تقسیم کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔‘‘

قرارداد لاہور میں مسلم لیگ نے چوہدری رحمت علی کی پاکستان اسکیم کو کانگریس پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیا تھا ورنہ عملی طور پر تقسیم ہند مسلم لیگ کے ایجنڈے میں شامل نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ قراردادلاہور میں پاکستان کا نام، نقشہ اور ذکر تک شامل نہ تھا۔

بیگم شائستہ اکرام اللہ اپنی کتاب فرام پردہ ٹو پارلیمنٹ میں لکھتی ہیں کہ ’’اکثر مسلمانوں کے نزدیک پاکستان ایک تصور تھا حقیقت نہ تھی۔ بڑے بڑے مسلمان لیڈروں کا بھی یہ خیال تھا کہ کسی قسم کا باہمی سمجھوتا ہوجائے گا اور وہ متحدہ ہندوستان کے اندر اپنی جداگانہ حیثیت برقرار رکھ سکیں گے۔ قائد اعظم کا بھی یہی خیال تھا۔

مجھے یاد ہے کہ جب پہلی بار اکتوبر1941ء میں ان سے ملی تو انہوں نے کہا کہ کینیڈا کا آئین ہمارے لیے مسائل کا بہترین حل ہے۔

قرار داد پاکستان کے سات سال بعد تک ایک طرف برطانوی حکومت اور دوسری طرف کانگریس سے وہ باہمی سمجھوتے کی بات کرتے رہے اور اس دوران میں ایک سے زائد بار تقریباً سمجھوتا ہو بھی گیا تھا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ دو ٹوک بٹوارہ نہیں چاہتے تھے۔ باہمی سمجھوتے میں ناکامی ہوئی تو اس کی ذمہ داری قائد اعظم پر نہیں کانگریسی لیڈروں کی تنگ دلی اور تعصب پر تھی۔‘‘

مسلم لیگ اور یونینسٹ پارٹی دونوں اگر 1941ء تک بھی تقسیم ہند کے حق میں نہ تھیں تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کے 1930ء کے خطبہ الہٰ آباد کو کس طرح تصور پاکستان سے جوڑا جاتا ہے۔

حالاںکہ علامہ اقبال ان دنوں پنجاب کونسل میں یونینسٹ پارٹی کے رکن تھے جو مسلم لیگ کی حمایتی تھی لیکن جیسا کہ یونینسٹ پارٹی تقسیم ہند کے سخت خلاف تھی تو پھر اس کے ایک رکن کونسلر کی حیثیت سے علامہ اقبال علیحدہ مسلم ریاست کا تصور کیوںکر پیش کر سکتے تھے ۔

حقیقت یہ ہے کہ خطبہ الہ آباد کے حوالے سے بھی قیام پاکستان کے بعد حقائق کو مسخ کیا گیا اور اس کا مقصد بھی مسلم لیگ کو ہی تحریک پاکستان کی واحد جدوجہد ثابت کرنے کی ایک کوشش تھی۔ حالاںکہ علامہ اقبال نے برطانوی اخبار دی ٹائمز کو خط لکھ کر واضح کردیا تھا کہ انہوں نے خطہ آلہ آباد میں کسی علیحدہ مسلم ریاست کا تصور ہرگز نہیں دیا تھا بلکہ وہ صوبوں کی تجویز تھی اور اقبال کا یہ خط 12 اکتوبر 1931ء کو North-west India, Muslim Provinces کے عنوان سے ہی شائع ہوا ۔

یہی موقف علامہ اقبال نے 4 مارچ 1934ء کو ایڈورڈ تھامپسن اور 6مارچ 1934ء کو علامہ راغب احسن اور اسٹارآف انڈیا کے نام لکھے خطوط میں بھی اپنا یا جس میں واضح طور پر علامہ اقبال نے پاکستان اسکیم کو چوہدری رحمت علی کی اسکیم اور الہ آباد کی تجویز کو صوبوں کی تجویز قرار دیا۔ پھر یہ کہ تیسری گول میز کانفرنس میں متحدہ ہندوستان کے آئین پر بحث ہوئی جس میں علامہ اقبال بھی شریک تھے۔

اس کانفرنس میں مسلم راہ نماؤں سمیت تمام اقلیتوں کا یہ مطالبہ مان لیا گیا کہ متحدہ ہندوستان کے آئین میں تمام اقلیتوں کو آئینی تحفظات دیے جائیں گے۔ اس کانفرنس کے اختتام پر علامہ اقبال نے وطن واپس آکر 27 فروری 1933ء کو ’’مسلم نیوز سروس‘‘ کے نمائندے کو کانفرنس کے فیصلوں کے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے کہا:

’’میں اُمید کرتا ہوں کہ ہندوستان کی تمام سیاسی جماعتیں اس آئین کو کام یاب بنانے کی کوشش کریں گی جو گول میز کانفرنس میں وضع کیا گیا ہے۔

ہندوستانیوں کے لیے یہی بہترین راستہ ہے جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو انتخابات کے لیے منظم کریں اور اپنی جماعت میں تفرقہ پیدا نہ ہونے دیں۔‘‘

اس قدر واضح حقائق کے بعد بھی علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد کو تصور پاکستان سے جوڑنا بذات خود علامہ کی شخصیت کے ساتھ ناانصافی ہے کیوںکہ علامہ جیسے سچے اور کھرے مسلمان لیڈر اور صوفی شاعر کی تاریخی شخصیت کسی صورت اس قدر دہرے تضاد کی حامل نہیں ہوسکتی کہ 1930ء میں علیحدہ مسلم ریاست کا تصور پیش کرنے کے بعد دوبارہ متحدہ ہندوستان کے لیے وفاقی آئین کی منظوری کے عمل میں گول میز کانفرنس میں شریک بھی ہو اور پھر تمام سیاسی جماعتوں سے متحدہ ہندوستان کے آئین کو کام یاب بنانے کی اپیل بھی کرے ۔

حقیقت میں تحریک پاکستان اور مسلم لیگ کی سیاسی جدوجہد کو خلط ملط کردینے کی وجہ سے یہ سارے ابہام پیدا ہوئے۔

ورنہ تاریخ پاکستان بالکل واضح تھی۔ یہاں تک کہ علامہ اقبال کی وفات پر مسلم لیگ کا جو تعزیتی اجلاس دسمبر 1938ء میں منعقد ہوا اور اس اجلاس میں جن تاریخی الفاظ سے علامہ اقبال کو خراج تحسین پیش کیا گیا ان میں بھی مصور پاکستان کا ذکر تک نہیں ہے۔ قرارداد کے الفاظ پر غور کیجئے:

’’آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس سرمحمد اقبال مرحوم کے اسلام کا ایک فلسفی صوفی و قومی شاعر ہونے کی حیثیت سے ان کی خدمات کی تحسین کرتا ہے۔ مسلمانوں کو انہوں نے یہ پیغام پہنچایا تھا کہ وہ اپنے ماضی کی روایات سے اپنے مستقبل کو بنائیں۔‘‘

اگر خطبہ الہٰ آباد میں علامہ نے پاکستان کا تصور دیا ہوتا تو اس کا ذکر کم ازکم مسلم لیگ کی اس تعزیتی قرارداد میں ضرور ہوتا۔

یہ پھر کہ علامہ اقبال کے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال جو کہ خود بھی کئی کتابوں کے مصنف ہیں اس بات کی کئی بار تصدیق کر چکے ہیں کہ علامہ اقبال نے الہ آباد کے خطبے میں انڈین کنفیڈریشن کے اندر مسلم صوبوں کی تجویز پیش کی تھی، کسی علیحدہ وطن کا تصور ہرگز نہیں دیا تھا۔

یہ تمام تاریخی حقائق ثابت کرتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم کے اختتام تک علیحدہ وطن مسلم لیگ کے ایجنڈے میں شامل نہ تھا۔

لیکن اللہ کو منظور تھا کہ پاکستان قائم ہو کر رہے، لہٰذا جنگ عظیم دوم کے اختتام تک برطانیہ اور امریکا کو روس کا خطرہ لاحق ہوگیا تو انہیں پاکستان کی ضرورت بھی محسوس ہوئی اور اس طرح 7اپریل 1946ء کو دہلی کے تین روزہ کنونشن میں برطانیہ سے آنے والے کیبینٹ مشن کے سامنے پاکستان کا نقشہ پہلی بار مسلم لیگ نے قرارداد کی صورت میں پیش کیا جس میں پنجاب، سرحد، سندھ، بلوچستان، بنگال اور آسام شامل تھے۔

حیرت کی بات ہے کہ اس میں کشمیر شامل نہ تھا۔ حالاںکہ چوہدری رحمت علی کی اسکیم میں کشمیر شامل تھا۔ اسی طرح چوہدری رحمت علی کی پاکستان اسکیم میں بنگال اور پاکستان کو علیحدہ مملکتیں شمار کیا گیا تھا جو برطانوی ہند سے ایک ساتھ آزاد ہوں اور ہندو کے مقابلے میں اپنا اتحاد قائم کریں۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ تحریک پاکستان اور مسلم لیگ شروع میں دو بالکل علیحدہ بلکہ متضاد حقیقتیں تھیں۔ تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز چوہدری رحمت علی کے پاکستان ڈکلیئریشن Now or Never  اور پاکستان نیشنل موومنٹ سے ہوا۔

جسے مسلم لیگ سمیت تمام بڑی جماعتوں نے ابتدا میں بالکل تسلیم نہیں کیا۔ لیکن تمام تر مخالفت کے باوجود اس تحریک نے مسلمانان ہند کے دلوں میں ایک مقام حاصل کر لیا ۔ اسی تحریک کو مسلم لیگ نے 1937ء کے انتخابات میں شکست کے بعد کانگریس پر دباؤ بڑھانے کے لیے استعمال کیا اور قرارداد لاہور پیش کی جس کو میڈیا نے قرارداد پاکستان قرار دیا۔

پھر دوسری جنگ عظیم کے بعد اسی تحریک پاکستان کو روس کے خوف سے مجبوراً امریکا اور برطانیہ کو قبول کرنا پڑا۔ اللہ کو منظور تھا کہ پاکستان بنے اور اس نے اس کے لیے حالات سازگار کردیے اور جس پاکستان اسکیم کے بارے میں مسلم لیگ نے شروع میں کہا تھا کہ یہ چند طالب علموں کی غیرسنجیدہ اسکیم ہے آخر کار اسی اسکیم کو مسلم لیگ کی کام یابی اور نام وری کا ذریعہ بنا دیا۔

دیانت داری کا تقاضا یہ ہے کہ تحریک پاکستان کے کسی گوشے کو مسخ نہ کیا جائے اور تحریک پاکستان کے کسی بھی کردار سے ناانصافی نہ کی جائے۔ پاکستان سب کا ہے، کسی ایک پارٹی ، طبقہ یا گروہ کا نہیں ہے۔

عدل و انصاف کی بات کی جائے۔ عدل اللہ کو پسند ہے اور اسلام کا کیچ ورلڈ عدل ہے۔ تاریخ کے ساتھ بھی انصاف کیا جائے اور تاریخ کے طالب علموں کے ساتھ بھی انصاف کیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔