’’چمتکار‘‘ کیسے ہوگا؟

راضیہ سید  ہفتہ 11 مارچ 2023
معجزے بھی دعا اور دوا کے بعد ہی نصیب میں آتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

معجزے بھی دعا اور دوا کے بعد ہی نصیب میں آتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

ایک فرضی کہانی نظر سے گزری جس میں واقعات تو بے شک قصے کہانیوں کی طرح ہی تھے لیکن کہانی کا مرکزی خیال بہت اچھا تھا۔ کہانی کے مطابق ایک چھوٹی بچی میڈیکل سٹور پر دوا لینے آئی۔ اسٹور پر بہت رش تھا، جس کی وجہ سے کیمسٹ اس کی بات پر توجہ بھی نہیں دے رہا تھا۔ اس بچی کے ہاتھ میں ایک گلک تھا جو اس نے مسلسل نظر انداز ہونے کے بعد کاؤنٹر پر زور سے مار دیا۔ اس شور کی وجہ سے کیمسٹ سمیت تمام گاہک بچی کی طرف متوجہ ہوگئے۔

کیمسٹ نے بچی سے دوا کا پوچھا تو وہ بولی کہ مجھے چمتکار (معجزہ) چاہیے اور میرے پاس پورے 19 روپے ہیں۔ یہ بات سن کر کیمسٹ اور تمام گاہک ہنس پڑے لیکن ایک شخص نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ اسے چمتکار کی ضرورت کیوں پیش آگئی؟ اور اگر اسے ضرورت پڑ ہی گئی ہے تو وہ اس کی مدد کرسکتا ہے۔ بچی نے خوشی سے اپنی گلک وہیں توڑ دی اور اس شخص سے کہا کہ مجھے چمتکار اپنے بیمار بھائی کےلیے چاہیے کیونکہ میرے ممی پاپا کے پاس اس کے علاج کے پیسے نہیں ہیں اور پاپا ممی سے کہہ رہے تھے کہ اب کوئی چمتکار ہی میرے بھائی کو اس بیماری سے نجات دلا سکتا ہے۔

قصہ مختصر، وہ شخص نیورو سرجن ہوتا ہے اور بچی کے بھائی کو دماغ میں رسولی ہوتی ہے، جس کا علاج ڈاکٹر 19 روپے میں کردیتا ہے۔ جب بچے کی ماں اپنے شوہر سے پوچھتی ہے کہ یہ چمتکار کس نے کیا تو وہ کہتا ہے کہ یہ سب کمال ہماری بیٹی کا ہے۔

اس پوری کہانی کا مرکزی خیال یہ ہے کہ دنیا میں ہمیں بہت سی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور ہم ہار مان لیتے ہیں۔ ہمارے اندر ایک ہارا ہوا انسان چھپا ہوتا ہے جو شکستہ دل ہوتا ہے، جو کوشش کو لاحاصل سمجھتا ہے۔ لیکن ہمارے لاشعور میں ایک بچہ بھی ہمہ وقت موجود ہوتا ہے۔ بے شک اس کی آواز اس بچی کی طرح مدھم ہوتی ہے لیکن وہ آواز ہمیں جدوجہد پر اکساتی ہے وہ آواز ہمیں زندگی کی طرف مائل کرتی ہے۔

ہمارے اندر کا یہ معصوم بچہ اتنی ذمے داریاں تو نہیں اٹھا سکتا لیکن وہ کبھی ہار نہیں مانتا اور ڈٹ کر مشکل کا سامنا کرتا ہے، جو ہمت کا دامن کبھی نہیں چھوڑتا۔ جو ہمیں بتاتا ہے کہ روشنی کی ہلکی سی کرن بھی گھٹا ٹوپ اندھیرے کو مٹا سکتی ہے۔ مایوسیوں میں اجالا اور روشنی کے دیے جلائے جاسکتے ہیں لیکن اس کےلیے ضروری ہے کہ مسلسل محنت اور لگاتار کوشش کی جائے۔ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے حالات سے نظریں چرا کر زندگی کو مزید کٹھن نہ کیا جائے۔

زندگی بہت خوبصورت ہے لیکن تب تک جب تک ہم اسے روز ایک نئے زاویے سے نہیں دیکھتے۔ سوچوں کی یکسانیت ہمیں ذہنی مریض بنانے کےلیے کافی ہوتی ہے۔ جن چیزوں پر انسان کا کنٹرول نہیں ہوتا ان کو ہینڈل کرنے کے بارے میں سوچنا اور خود کو سوچ سوچ کر تھکا لینا مایوسی کی دلدل میں دھنسانے کےلیے بہت ہوتا ہے۔ ہم ہر وقت اپنی ناکامیوں کا بدلہ دوسروں سے لینا چاہتے ہیں، حسد محسوس کرتے اور دوسروں کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ بنتے رہتے ہیں۔ ہم اپنی مشکلات کے حل کےلیے کسی معجزے کے منتظر ہوتے ہیں، کسی نجات دہندہ کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ معجزے بھی دعا اور دوا کے بعد ہی نصیب میں آتے ہیں، جیسا کہ اس چھوٹی بچی نے ہمت نہیں ہاری اور اپنے موقف پر ڈٹی رہی۔ یہ سب ہمیں سوچنا ہے کہ نامساعد حالات کے باوجود ہم امید، خوشی، محنت اور خلوص نیت سے اپنی زندگیوں میں چمتکار کیسے کرسکتے ہیں۔

ہمت اور جواں مردی کا تعلق اگر ایک طرف انسان کی اپنی شعوری کوشش سے ہوتا ہے تو دوسری طرف اس میں حوصلہ افزائی یا حوصلہ شکنی کرنے والے افراد بھی شامل ہوتے ہیں۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے ہم نے کوئی امتحان پاس کرنا ہو، ہم تیاری کررہے ہوں تو کچھ لوگ ہمارا مورال بلند کرتے ہیں، ہماری صلاحیتوں پر جیسے انھیں ہم سے زیادہ بھروسہ ہوتا ہے۔ لیکن دوسری طرف چند ایسے منفی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اکثر ایسے منفی عناصر ہوتے ہیں جو ہمارے لیے جان بوجھ کر ناموافق حالات پیدا کرتے ہیں۔ جیسے کوئی بھی کہہ دے ’ارے تم اور یہ امتحان دو گے، یہ نوکری تو تمھارے بس کی بات ہی نہیں لہٰذا تم کوشش ہی ترک کردو‘۔

ہم میں سے اکثر افراد کا یہی مسئلہ ہوتا ہے کہ منفی رویے ہمیں بہت متاثر کرتے ہیں اور ہم دل برداشتہ ہوکر غلط فیصلے کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی ہی مثال لے لیجیے۔ اگر بالفرض وہاں کوئی تعمیری کام بھی ہورہا ہوتا ہے تب بھی لاکھوں منفی، گھٹیا اور غیر اخلاقی کمنٹس کررہے ہوتے ہیں، بہت سے لوگ جب یہ کمنٹس پڑھتے ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ اداس ہوکر وہ اچھا کام ہی چھوڑ دیتے ہیں۔

کیا یہی زندگی ہے کہ ہم لوگوں کی منفی باتوں اور رویوں کو فوری قبول کرلیں اور دل برداشتہ ہوکر رونے لگیں یا ہمیں اپنی زندگیوں میں روشنی بکھیرنے والے افراد کی پذیرائی کرنا چاہیے جو دل سے چاہتے ہیں کہ ہم اپنی منزل پر پہنچیں۔ اس کےلیے وہ ہر ممکن ہماری مدد کرتے اور ساتھ دیتے ہیں۔ کیا ہم افسردہ ہوکر اپنے ساتھ ساتھ ان مخلص لوگوں کا دل نہیں دکھاتے؟

دنیا میں برائی پھیلانے والے بہت ہیں لیکن گندگی صاف کرنے والے بہت کم۔ اندھیرا بانٹنے والے لوگ بہت ہیں لیکن روشنی عطا کرنے والے بہت کم۔ مایوسیوں میں گھیرنے والے شیاطین کی کمی نہیں لیکن محبت اور خلوص سے وابستہ فرشتہ صفت انسان بھی ابھی صفحہ ہستی سے ختم نہیں ہوئے۔ تو پھر ہم ان کا ساتھ کیوں نہیں دیتے؟ ہم کیوں ذرا ذرا سی باتوں پر اپنی آنکھیں بھگو لیتے ہیں جبکہ ہمیں انہی آنسوؤں کو اپنی طاقت بنا لینا چاہیے۔ فیصلہ آپ پر ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

راضیہ سید

راضیہ سید

بلاگر نے جامعہ پنجاب کے شعبہ سیاسیات سے ایم اے کیا ہوا ہے اور گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے بطور پروڈیوسر، رپورٹر اور محقق وابستہ ہیں۔ بلاگز کے علاوہ افسانے بھی لکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔