پوسٹ کالونیل ازم اور طبقاتی نظام

رفیق چوہدری  اتوار 12 مارچ 2023
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

بلوچستان میں ایک صوبائی وزیر کی نجی جیلوں کا معاملہ اس وقت سامنے آیا جب20 فروری کو بارکھان کے ایک کنویں سے ایک خاتون اور دو بچوں کی لاشیں برآمد ہوئیں۔

اس کے ساتھ ہی یہ خبریں گردش میں آگئیں کہ یہ لاشیں گراں ناز نامی اس خاتون اور اس کے دو بیٹوں کی ہیں جس نے چند ہفتے قبل قرآن مجید اٹھاکر حکومت اور اداروں سے اپیل کی تھی کہ اس کے بچوں کو صوبائی وزیر عبدالرحمان کھیتران کی قید سے آزاد کروایا جائے۔

تاہم لیویز ذرائع کے مطابق مغوی گراں ناز، اس کے چاربیٹوں اور ایک بیٹی کو نجی جیل سے بازیاب کروا لیا گیا ہے۔

دوسری طرف مغوی بچوں کے والد خان محمد مری کا کہنا ہے کہ کنویں سے برآمد ہونے والے دو بچوں کی لاشیں ان کے دو بیٹوں کی ہیں، جب کہ مقتولہ خاتون کی شناخت ابھی تک نہیں ہو سکی۔

اس واقعے پر تحقیقات کے لیے کمانڈنٹ بلوچستان کانسٹیبلری سلمان چوہدری کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی ہے، جس میں ڈی آئی جی کوئٹہ، ڈی آئی جی اسپیشل برانچ اور ایس ایس پی انویسٹی گیشن کوئٹہ شامل ہیں۔

پاکستان میں نجی جیلوں اور جبری قید و مشقت کے معاملات نئے نہیں ہیں۔ بی بی سی کی ایک تازہ اخباری رپورٹ کے مطابق 2020 ء سے جنوری 2023 ء تک صرف صوبہ سندھ میں پانچ ہزار سے زیادہ کسان جبری مشقت سے رہا ہونے میں کام یاب ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق ان قیدیوں کو لوہے کی زنجیروں سے باندھ کر کھیتوں میں کام کروایا جاتا تھا۔

کوٹری، حیدرآباد اور عمرکوٹ میں ایسے چار ہاری کیمپس ہیں جہاں نجی جیلوں سے رہا ہونے والے کسان رہتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قانون ، اداروں ، جمہوریت کے ہوتے ہوئے بھی نجی جیلوں اور جبری قید ومشقت کا معاملہ کس حد تک پھیلا ہوا ہے۔

آج اکیسویں صدی میں بھی ایک جمہوری اور اسلامی کہلانے والے ملک میں نجی جیلوں اور جبری قیدومشقت کے معاملات کا سامنے آنا اس نظام پر سوالیہ نشان ہے جس کے بارے میں عوام الناس کو اب تک یہ خوش فہمی ہے کہ یہ نظام انسانی حقوق اور آزادی کا علم بردار ہے، حالاںکہ اہل نظر و فکر نے اس نظام کا پردہ بہت پہلے چاک کر دیا تھا ۔ جیسا کہ اقبال نے کہا تھا  ؎

ہے وہی سازِکُہن مغرب کا جمہوری نظام

جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری

دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب

تُو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

سرمایہ دارانہ نظام میں بظاہر جمہوریت، انسانی حقوق، اظہار رائے، آزادی، کا دعویٰ ہے لیکن اندروں وہی طبقاتی نظام ہے جس میں عوام کے لیے قانون کچھ اور ہوتا ہے جب کہ اشرافیہ کے لیے قانون کچھ اور ہوتا ہے۔ بظاہر یہ نظام جس قدر خوش نما اور دل فریب ہے اس کا باطن اتنا ہی سیاہ اور کراہیت و شیطنت سے بھرا ہوا ہے۔

اس نظام کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ہمیں واپس کالونیل دور میں جانا ہوگا۔ کالونیل ازم کا لفظی مطلب ہے نئی بستی بسانا۔ یورپی سام راجی قوتوں نے امریکا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ وغیرہ میں نئی بستیاں بسائیں اور وہاں کی مقامی آبادیوں کا قتل عام کیا اور ان کی تاریخ اور شناخت مٹاکر وہ ملک اپنے نام کر لیے۔ بے شک اسے کالونیل ازم (نوآبادیات) کہہ سکتے ہیں ۔

لیکن ہندوستان سمیت دوسرے کئی خطہ ہائے ارض جہاں مغربی استعمار بظاہر مستقل قبضہ نہیں کر سکا اور نہ ہی وہاں گوروں کی مستقبل اکثریتی آبادیاں ہیں لیکن وہاں کے لیے بھی مغربی سامراج نے کالونیل ازم کا لفظ استعمال کیا۔۔۔ آخر کیوں؟ گہرا راز ہے۔ مگر ٹھہریے۔ ہم آپ کو بتاتے ہیں۔

عالمی طاقتوں نے عالمی غلبے کے حصول کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کو ذریعہ بنایا۔ بظاہر تہذیب و ترقی کے بلند و بالا دکھاوے تھے لیکن حقیقی طور پر دنیا کو معاشی، سیاسی اور معاشرتی طور پر مغلوب بنانا مقصود تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی بھی پہلے تجارتی روپ میں آئی اور بعدازآں برطانوی سام راج کی شکل میں متنج ہوئی۔

کمپنی نے آتے ہی جہاں تجارتی معاہدے کیے وہاں خام مال کی لوٹ کھسوٹ کے لیے ٹھگوں، نوسربازوں ، وطن فروشوں اور غداروں کی کھیپ تیار کرنا شروع کی جو کمپنی کو خام مال کی فراہمی کے لیے چوری، ڈاکے، قتل و غارت گری تک سے گریز نہیں کر رہے تھے بلکہ کمپنی انہیں اس کام کے لیے باقاعدہ اسلحہ، تربیت ، سیکیوریٹی اور اہم معلومات دے رہی تھی۔

یہ چور، لٹیرے، ٹھگ اور وطن فروش چند ٹکوں کی خاطر ملک سے سونا چاندی، ہیرے جواہرات، اجناس اور مال و دولت دیہات شہروں، قافلوں اور رجواڑوں سے لوٹ کر کمپنی کو پہنچاتے تھے اور کمپنی انہیں انعام و اکرام سے نواز کر مزید غداروں کی فوج اکھٹی کرنے کا راستہ ہموار کر رہی تھی۔

پھر غداروں کی اسی فوج کو استعمال کرکے کمپنی نے ہندوستانی علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کیا اور مزید قبضوں کے لیے غداروں کی فوج کو خبررسانی اور مخبری پر معمور کیا، جو جو علاقے کمپنی کے قبضے میں آتے گئے وہاں کمپنی نے اپنے وفاداروں کو بسانا شروع کیا۔

خاص طور پر جو جتنا بڑا غدار، ڈاکو، وطن فروش اور مخبر تھا اسے اتنا ہی بڑا خطاب دیا گیا اور اتنی ہی بڑی جاگیریں اور مراعات دی گئیں۔ یوں چوروں، نوسربازوں، ٹھگوں، وطن فروشوں، غداروں کے لیے غداری اور وطن فروشی نہ صرف منافع بخش پیشہ ٹھہرا بلکہ ان کے ’’سنہری‘‘ مستقبل کا ضامن بھی بن گیا۔

یہاں تک 1857ء کی جنگ میں انہی غداروں کی فوج کی مدد سے فرنگی جنگ جیتنے اور ملک اور عوام کو غلام بنانے میں کام یاب ہو گیا۔

اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد آزادی کی جنگ لڑنے والے محب وطنوں کی زمینوں پر، ان کے روزگار پر، ان کی تجارت پر، ان کی زراعت پر ، ان کی تاریخ اور شناخت پر وہ لوگ قابض ہوگئے جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے تربیت یافتہ جاسوس، ایجنٹ، ٹھگ، چور، فراڈیے، وطن فروش اور غدار تھے۔

ان غاصبوں، چوروں، وطن فروشوں اور ایمان فروشوں کے تحفظ کے لیے سیکیوریٹی ادارے قائم کیے گئے، جن میں پولیس کا ادارہ بھی شامل تھا جس کا اصل کام انگریز کے وفاداروں کا تحفظ کرنا اور محب وطن مزاحمت کاروں کی مزاحمت کو دبانا تھا۔

اسی طرح عدالتی نظام جو انگریزوں نے قائم کیا اس میں انگریز کے وفاداروں کے لیے الگ قانون تھا جب کہ ان کے مخالفین کے لیے الگ قانون تھا۔ انگریز کے وفادار بڑے سے بڑا جرم بھی کیوں نہ کرلیں اول تو پکڑے نہ جاتے تھے اگر عوامی دباؤ یا رکھ رکھاؤ کے لیے گرفتار کر بھی لیے جائیں تو انہیں جیلوں میں عام قیدیوں کی ساتھ نہیں بلکہ ان کے مقام و مرتبہ کے مطابق بڑے شاہانہ انداز میں رکھا جاتا تھا۔

بالکل وہی قانون آج تک ہماری جیلوں میں نافذ ہے کہ ’’اے کلاس‘‘ کے لیے اعلیٰ سہولیات، ’’بی کلاس‘‘ کے لیے ذرا کم سہولیات جب کہ عام آدمی کے لیے فرش، چٹائی اور دال روٹی وغیرہ۔ قانون، ادارے، عدالتیں اور پورا نظام جس طرح کالونیل دور میں استعمار کے چہیتوں کو سہولیات فراہم کرتے تھے اسی طرح آج بھی یہ نظام طبقہ اشرافیہ کی جنت ہے جب کہ عام آدمی کے لیے جہنم سے بدتر ہے۔

حقیقت میں یہی پوسٹ کالونیل ازم ہے اور اس کے وہی اہداف و مقاصد ہوتے ہیں جو کالونیل دور میں عالمی استعماری قوتوں کے مقاصد تھے۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہاں استعماری قوتیں براہ راست عوام الناس کو غلام بناتی ہیں جب کہ پوسٹ کالونیل ازم میں عوام کو استعمار کے چند سو مہروں کے ذریعے غلام رکھا جاتا ہے۔

کالونیل دور کی طرح ہی پوسٹ کالونیل دور میں بھی عالمی طاقتیں اپنے تربیت یافتہ طبقات کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بناتی ہیں، بدلے میں سرمایہ دارانہ نظام ان طبقات کو آئینی اور قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اب اس کو ہماری غلطی کہا جائے، جہالت، لاعلمی یا منافقت کہ ہم نے نظام وہی سام راجی رہنے دیا اور اس پر لیبل ’’اسلامی‘‘ کا لگا دیا۔

ہماری عدالتوں، حکومتی ایوانوں اور اکثر اداروں کی عمارات پر بڑے حروف میں کلمہ طیبہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ﷺ لکھا نظر آتا ہے لیکن اندر فیصلے کالونیل طاقتوں کے بنائے ہوئے دہرے نظام اور قانون کے تحت ہی ہوتے ہیں۔

پاکستان کے آئین کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے اسی طرح کلمہ پڑھا ہوا ہے کیوںکہ شق نمبر 1کے مطابق پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ شق 2-A کہتی ہے کہ مملکت خدا داد پاکستان میں حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کی ہے مگر حقیقت میں یہاں حاکمیت چند وڈیروں، گدی نشینوں، سرمایہ داروں اور انگریز کے پالے ہوئے چند خاندانوں کی ہے۔

آئین کی شق نمبر 227 کے مطابق یہاں اسلام سے متصادم یا متضاد کوئی قانون سازی نہیں ہوسکتی، لیکن اسی پارلیمنٹ کے اندر بے حیائی، فحاشی اور ہم جنس پرستی کو فروغ دینے والے قوانین بھی پاس ہوجاتے ہیں۔ آئین کہتا ہے کہ حکومت جلدازجلد سود کو ختم کرنے کی پابند ہوگی مگر پچھتر سال سے سود سودی نظام معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔

حلف اُٹھاتے وقت اور گواہی دیتے وقت قرآن پر حلف اٹھایا جاتاہے لیکن پیسے لے کر جھوٹی گواہیاں اور غیراسلامی قوانین کی حمایت میں ووٹ بھی دیے جاتے ہیں۔

آئین پاکستان کی شق 11 غلامی اور جبری مشقت کی ممانعت کرتی ہے لیکن دوسری طرف سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں سیکڑوں نجی جیلوں اور ان میں جنم لینے والی ظلم و جبر کی داستانیں میڈیا کی زینت بنتی ہیں اور آج تک اس جبری غلامی کو روکنے کے لیے کوئی باقاعدہ اقدام کیا گیا اور نہ ہی جبری قیدومشقت کا جرم ثابت ہوجانے کے باوجود آج تک کسی وڈیرے، پیر، گدی نشین، جاگیردار کو سزا ہوئی۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی اسلامی ریاست میں اس طرح کا دہرا قانون اور نظام کبھی ہوا ہے کہ ظاہر میں کچھ ہو اور باطن میں کچھ، دکھاوا کچھ اور ہو اور عمل میں کچھ اور غریب کے لیے قانون کچھ اور ہو اور امیر کے لیے کچھ اور ہو۔

جہاں عام آدمی کی آزادی بھی جیل سے بدتر بنا دی جائے اور اشرافیہ کے لیے جیلوں میں بھی آزادی اور عیاشی کی ہر سہولت ہو۔ ذرا سوچیے کہ کالونیل دور کے اس دہرے اور طبقاتی نظام پر صرف ’’اسلامی‘‘ کا ٹائٹل لگا دینے سے اور پارلیمنٹ اور عدالتوں کی عمارات پر بڑے حروف میں کلمہ طیبہ لکھ دینے سے یہ طبقاتی اور استحصالی نظام کیا اسلامی یا عادلانہ ہو جائے گا؟ ہرگز نہیں! بلکہ ہمیں اگر واقعی عادلانہ نظام قائم کرنا ہے تو اس کا ایک ہی حل ہے کہ سام راجی طاقتوں کے کالونیل مقاصد کے تحت قائم کیے گئے۔

اس طبقاتی، استحصالی اور دہرے نظام کی پوری عمارت کو منہدم کرکے اس کی جگہ عدل و مساوات اور بھائی چارے کے بنیادی اصولوں کے مطابق انسانی فلاح کے نظام کی عمارت کھڑی کی جائے۔

تب ہی حقیقی آزادی، مساوات اور عدل کے راستے کھلیں گے ورنہ کالونیل دور کی طرح پوسٹ کالونیل دور میں بھی ایک طبقے کے لیے معاشرہ جنت اور دوسرے کے لیے جہنم بنا رہے گا اور دوسری طرف پوسٹ کالونیل ازم کے تحت مغربی ایجنڈا اور عالمی طاقتوں کا غلبہ بدستور مستحکم ہوتا چلا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔