تماشا

خالد محمود رسول  ہفتہ 11 مارچ 2023

واشنگٹن کی سنائیں، کیا خبریں ہیں ؟ دوسری طرف فون پر واشنگٹن میں موجود ایک سینئر سیاسی تجزیہ کار سے ہم نے پوچھا۔ واشنگٹن تو اپنی اسی ڈگر پر ہے، خبریں تو بہت ہیں، روس یوکرائن جنگ خبروں اور سفارت کاری پر غالب ہے ، چین کے ساتھ بھی محاذ گرم ہے۔

انڈیا کے ساتھ دوستی کی پینگیں بدستور بڑھ رہی ہیں لیکن آپ سنائیں پاکستان میں کیا چل رہا ہے، کیا تماشا لگایا ہوا ہے آپ نے؟ پوری دنیا حیرت سے دیکھ رہی ہے ۔ ہم نے ہتھیار ڈالتے ہوئے ان کے مشاہدے کی تصدیق کی، بس جناب، کیا بتائیں، ہمارے ہاں آجکل کیفیت تو کچھ اسی طرح کی ہے!

ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر ہے بلکہ بقول ایک وزیر با تدبیر ڈیفالٹ کر چکا ہے لیکن سیاسی اشرافیہ اور میڈیا کے ہاں ایک ہی مسئلہ ہے بلکہ اس سے بھی آگے یہ کہ اس مسئلے کے اپنے اپنے رخ کی درستی پر اصرار ہے ۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کو ہر صورت قومی الیکشن درکار ہیں جب کہ پی ڈی ایم اتحاد کو ملک کی گلیوں پر نثار ہونے کے لیے مناسب وقت چاہیے۔

اکونومی کا اڑیل گھوڑا قابو میں نہیں آ رہا۔ ایسے میں الیکشن ؟ صاحب پہلے یہ بھی تو طے ہو کہ کس نے کس کو گراؤنڈ کیا اور لیول سے بے لیول کیا۔ایسے نہیں چلے گا جناب۔

جن دو صوبائی اسمبلیوں میں پی ٹی آئی بھلی چنگی حکومت بنا کر راوی کو صبح شام سکھ چین لکھوا رہی تھی، ان ہی دونوں اسمبلیوں کو اس امید پر توڑا کہ جب بقول ان کے65%  ملک انتخاب میں جائے گا تو صرف بات دو اسمبلیوں تک ہی نہیں رہے گی لیکن جو اس کے بعد ہوا وہ ایک الگ ہی تماشا ہے۔

پی ٹی آئی کی حکمت عملی کے مطابق آئین 90 دنوں میں الیکشن کا پابند کرتا ہے۔ دو بڑے صوبوں میں الیکشن کے بعد پی ٹی آئی کے گمان کے مطابق ان کی حکومتیں دوبارہ بن جائیں گی تو اکتوبر میں قومی اور باقی دو اسمبلیوں کے انتخابات کی ’’ ٹائمنگ‘‘ اور ’’ نگرانی ‘‘ کا سوچ کر ہی پی ڈی ایم حکومت کے چھکے چھوٹ جائیں گے۔ دو اسمبلیوں کا داؤ کھیلتے ہوئے انھیں یقین تھا کہ اونٹ کو پہاڑ کے نیچے آتے ہی بنے گی۔

اب جو ہوا ، وہ سب کے سامنے ہے۔ پی ڈی ایم کی جماعتیں انتخابات کا فی الحال انعقاد نہیں چاہتیں۔پی ٹی آئی کی طرح انھیں بھی اپنی بھرپور کامیابی کا دعویٰ ہے ، ہاں البتہ چند چند قانونی اور آئینی سخن گسترانہ سی باتیں درمیان میں آن پڑی ہیں۔ اب ظاہر ہے آئین ، قانون اور ضابطے کی پاسداری میں حرفِ آخر پی ڈی ایم اتحاد کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ اِن قانونی تقاضوں کو پورا کیے بغیر الیکشن کمیشن کی ہانک پر الیکشن کا ڈھول بجانا شروع کر دے۔

بقول گورنر کے پی کے آئین میں90 دن میں الیکشن کروانے کا ذکر ضرور ہے مگر اسی آئین میں یہ بھی درج ہے کہ عوام کی حفاظت بھی ان کا فرض ہے۔

اب کوئی عوام کی سیکیورٹی کو ’’ لاحق ‘‘ خطرات کی موجودگی میں الیکشن کے انعقاد کا خطرہ مول کیوں لے۔ لہٰذا الیکشن کمیشن کی جانب سے ہفتے کے دن موصول ہوئی چٹھی گورنر نے اس لیے نہ کھولی کہ وہ چٹھی ان کے سیکریٹری کے نام تھی اور وہ ہفتے والے دن چھٹی پر تھے۔

سو دو دن انتظار کرنا مناسب سمجھا گیا ۔ ضابطے کے مطابق خط کھلنے کے بعد وہ الیکشن کمیشن سے ملے ، سوچ بچار کے لیے ایک ہفتے کا وقت مانگا ہے۔ اس دوران سوچا جائے گا کہ آئین میں 90  دن کا وزن زیادہ ہے یا عوام کی سیکیورٹی کا بار زیادہ ہے ۔

پنجاب میں البتہ معاملہ میں فرق ہے۔ یہاں الیکشن شیڈول کا اعلان ہوچکا لیکن اس شیڈول کے لیے رادھا تیار ہے اور نہ نو من تیل دستیاب ہے۔پی ٹی آئی نے اعلانِِ انتخاب کے طور پر لاہور میں ریلی نکالی تو وہ گھمسان کا رن پڑا کہ خدا کی پناہ۔ چند ہفتے قبل آئین شناس حکومت نے مردم شماری کا ڈول بھی ڈال دیا ہے۔

سرکار دربار کی سوجھ بوجھ رکھنے والے رائے زن ہیں کہ جناب مردم شماری کے نتیجے میں آبادی کا جو شمار قطار سامنے آئے گا اس کے مطابق تو نئی حلقہ بندیوں کی ضرورت پڑے گی۔ مردم شماری کے نتیجے میں حلقہ بندیاں ہو تو جائیں لیکن نری کاغذ تانے سوئی رہیں، ناں جی ناں، یہ قانون ضابطے کا ملک ہے، یہ تو سراسر ضابطے کی خلاف ورزی ہو جائے گی!

ایک ضمنی سا مسئلہ اور بھی درمیان میں در آیا ہے، الیکشن تیاریوں کے لیے انتظامات کی مد میں کچھ مال اسباب کی بھی ضرورت ہے۔ سب جانتے ہیں کہ خزانے کا حال پتلا ہے ، آئی ایم ایف کی کٹھور دلی نے معاملہ اور پیچیدہ کر دیا ہے۔

ابھی چند ہفتے پہلے ہی وفاقی وزارت خزانہ کی طرف سے معذرت کا پیغام مشتہر ہوا کہ اپنے آپ پہ رہنا ہم پہ نہ رہنا۔ اتنے محاذ کھلے ہوئے ہیں، کہ سیکیورٹی فراہم کنندگان کہاں کہاں سیکیورٹی فراہم کریں گے۔

دو روز قبل ایک نوجوان آئے، پریشانی کا اظہار کیا کہ مہنگائی نے کڑاکے نکال دیے ہیں، گزارہ نہیں ہوتا۔ ماسٹرز کر رکھا ہے ، ایک کمپنی میں مارکیٹنگ میں ہوں، یہاں کے حالات سنبھلنے والے نہیں کہیں باہر بھجوا دیں، کوئی سی بھی جاب مل جائے، پریشانیوں کے وجہ سے ذہنی مریض بننے کو ہوں۔ ہم حیرت سے اس نوجوان کو تکتے رہے۔

دل میں سوچا مگر کہنے کی ہمت نہ ہوئی کہ میاں ! ملک میں قانون ضابطے کی فیصلہ کن جنگ جاری ہے اور تم مایوس ہو، سیاسی اشرافیہ کی نظر سے دیکھو، ایک بار حریف زیر ہو جائے بس پھر دیکھنا تماشا !

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔