الیکشن کی مخالفت کیوں؟

غلام محی الدین  ہفتہ 18 مارچ 2023
gmohyuddin@express.com.pk

[email protected]

تمام عمرانی علوم اس بات پر متفق ہیں کہ اجتماعی سطح پر آنے والی ہر بڑی تبدیلی کی ابتداء ذہنی سطح پر آنے والی تبدیلی سے ہوتی ہے۔ جب لوگوں کے اذہان دلیل اور ثبوت کی بنیاد پر کسی معاشرتی تبدیلی کی ضرورت کو تسلیم کرلیتے ہیں تو ذہنوں کی یہ تبدیلی تیزی کے ساتھ دیگر لوگوں تک پھیلنے لگتی ہے۔

یہ عمل ایسی صورت میں تیز تر ہوجاتا ہے جب کسی معاشرے کے زمینی حقائق مسلسل اس بات کا تقاضہ کر رہے ہوں کہ اصلاح احوال کے بغیر تباہی مقدر ہے ۔ انسانی نفسیات کے اس کرشماتی اُصول کا انتہائی اہم پہلو یہ ہے کہ ایک مرتبہ تبدیلی کی ضرورت اور اسے ممکن بنانے کا یقین حاصل ہو جانے کے بعد لوگوں کے ذہنوں کو بدلنا ممکن نہیں رہتا۔

دوسرے یہ کہ تبدیلی کی مزاحمت کرنے والی قوتیں ہمیشہ اُس عرصے میں مکمل طور پر بے خبر رہی ہیں جب عوام الناس کے ذہنوں میں تبدیلی کا عمل جاری ہوتا ہے اور انتہائی خاموشی کے ساتھ یہ جوت ایک ذہن سے دوسرے تک پہنچ رہی ہوتی ہے۔ تبدیلی کے اس عمل کا دوسرا بڑا عنصر عوام الناس کی رہنمائی کا بندوبست ہوتا ہے۔ یہ بندوبست ایسی قیادت کے ذریعے ممکن بنتا ہے جس پر لوگوں کا اعتماد پختہ ہو۔

یہ قیادت بھی براہ راست ذہنوں ہی سے مخاطب ہوتی ہے۔ ہمیشہ تاریخ میں یہی ہوا ہے کہ تبدیلی مخالف قوتیں اُس وقت میدان عمل میں اُتریں جب ذہن سازی کا عمل مکمل ہوچکا تھا۔ جمود کی قوتوں کی ایک مجبوری یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے آپنے آزمودہ کار حربوں سے آگے یا اُن سے ہٹ کر کچھ سوچنے سمجھنے کی اہلیت ہی سے محروم ہوتی ہیں اور اس بات کا ادراک کرنا ان کے لیے ناممکن ہوتا ہے کہ لوگ اُس ذہنی کیفیت ہی کو تیاگ چکے ہیں جس کو استعمال کرکے وہ ہمیشہ اپنی برتر حیثیت کو طول دیتے چلے آئے ہیں۔

ہمارے ملک میں تبدیلی کی ضرورت تو کم از کم گزشتہ آدھی صدی سے محسوس کی جا رہی تھی لیکن اس مقصد کے کامیاب حصول کے لیے درکار تمام تقاضے ایک ہی وقت پر میسر نہیں رہے۔

کئی ایسے مواقع آئے جب تبدیلی کے عمل کو مستحکم کیا جاسکتا تھا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔ مثال کے طور پر ذوالفقار علی بھٹو جیسی کرشماتی شخصیت نے اپنے الفاظ کے ذریعے کی گئی لوگوں کی ذہن سازی سے عملی سطح پر انحراف کی راہ اپنائی تو قیادت کا یہ سحر برقرار نہ رہ سکا۔

اگر بھٹو صاحب کی مقبولیت کم ہونے کے بجائے بڑھ گئی ہوتی یا دوسری صورت میں 1977 کے انتخابات اتنے منصفانہ اور شفاف ہوتے کہ عوام ان کے نتائج قبول کر لیتے تو سیاسی عمل میں رخنہ نہ پڑتا۔ انتخابات میں دھاندلی کے خلاف شروع ہونے والی بھٹو مخالف سیاسی جماعتوں کی تحریک کو تحریک نفاذ مصطفیﷺ میں بدل دیا گیا تھا تاکہ لوگ اس تحریک کے ساتھ جُڑے رہیں۔

اس تحریک کے نتیجے میں مارشل لاء لگا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ خود مارشل لاء نے ملک میں جوہری تبدیلی کے آغاز کا موقع پیدا کردیا تھا۔ اگر تحریک چلانے والی قوتیں یہ طے کرلیتیں کہ مارشل لاء کو 90 دن سے زیادہ ایک لمحہ بھی برداشت نہیں کیا جائے گا، تو ملک کو مثبت راستے پر گامزن کیا جا سکتا تھا لیکن یہ تحریک یوں جھاگ کی طرح بیٹھ گئی جیسے اس ساری مارا ماری کا مقصد صرف بھٹو کو راستے سے ہٹانا تھا۔

بھٹو سے جان خلاصی ہوتے ہی داعیان نظام مصطفیﷺ سکون سے گھر جا بیٹھے اور پاکستان سوویت یونین کے خلاف امریکا کی جنگ کا ہراول دستہ بن کر میدانِ کار زار میں مصروف عمل ہوگیا۔

1988-1999 کی دہائی پاکستان کی سیاست میں نظریاتی سیاست کی مکمل موت اور گھٹیا ترین خاموش سمجھوتوں کا دور رہا۔ اس دور میں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے دو دو مختصر ادوار گزرے جن میں ہونے والی سیاسی سرگرمیوں کا محور دو خاندانوںکے درمیان اقتدار کی رسہ کشی تک محدود ہو کر رہ گیا تھا۔

دوسری بڑی تبدیلی یہ آئی کہ اقتدار کے حصول کا راستہ عوام کے ووٹ کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کی چوکھٹ قرار پایا اور اس بات کا اظہار برملا عوامی سطح پر یوں ہونے لگا جس میں گریز کے بجائے رغبت کا عنصر نمایاں ہوتا تھا۔ خاندانی اقتدار کی اس رسہ کشی میں معاملات اس قدر آگے بڑھے کہ نتیجتاً ایک اور مارشل لاء نافذ کردیا گیا اور ایک نئی ’’سیاسی جدوجہد‘‘ کا آغاز ہوا۔

سیاسی نظریئے سے عاری اور کسی مثبت تبدیلی کے لیے عوام کی قیادت کی صلاحیت سے محروم ان دو خاندانوں نے اب اسی میں عافیت جانی کہ لڑنے کے بجائے، لڑنے کی اداکاری کرتے ہوئے کیوں نہ اقتدار آپس میں بانٹ لیا جائے۔ اس خاموش معاہدے کو ایک طرح سے نئے سربراہ جنرل پرویز مشرف کی آشیرباد بھی حاصل تھی جس نے ہماری قومی سیاست کو این آر او جیسی بدنام زمانہ اصطلاح سے روشناس کرایا۔

یہیں سے ایک ایسی تبدیلی کا آغاز ہوتا ہے جو لوگوں کے ذہنوں میں مدتوں سے پک تو رہی تھی، لیکن اس کے اظہار کا کوئی راستہ تھا نہ سبیل۔ عمران خان کی صورت میں ایک ایسی شخصیت پاکستان کے سیاسی اُفق پر نمودار ہوئی جس نے ایک طویل عرصہ کے بعد ووٹ کو ایک مرتبہ پھر باہمی تعلقات، سماجی رابطوں کی پاسداری اور ذات، برادری، قوم قبیلے سے وفاداری نبھانے کے دائرے سے نکال کر وسیع تر جامع سیاسی تبدیلی لانے کا موثر ذریعہ بنا دیا۔

عمران خان اور پی ٹی آئی کی وجہ سے پہلے سے رینگتے ہوئے سیاسی نظام میں ’جسے سیاسی بندوبست کہنا زیادہ مناسب ہے‘ نئے رویوں نے جنم لے لیا ہے جو ہمارے سسٹم سے مستفید ہونے والوں کے لیے ہرگز قابل قبول نہیں۔ یہ چلن عام ہو چکا تھا کہ گرائی جانے والی حکومت کی قیادت عوام سے رجوع کرنے کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کی چوکھٹ پر پہنچ جاتی تھی۔ عمران خان کی حکومت گرائی گئی تو انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ نتیجہ یہ کہ اس سے پہلے کہ وہ لوگوں کو آواز دیتا لوگ اُس کے حق میں سڑکوں پر تھے۔

یہ ردعمل اُس کی حکومت کی کارکردگی کے باعث نہیں تھا بلکہ اقتدار کے حوالے سے ماضی کے حکمرانوں کے برعکس رویہ اختیار کرنے کے باعث تھا۔ یہ اس بات کی بھی کُھلی دلیل ہے کہ عوام تبدیلی کی اُمید اسی شخص سے لگائے ہوئے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اقتدار سے محرومی کے بعد سرکاری طاقت کے روبرو جب بھی شہریوں کے جانی نقصان کا اندیشہ پیدا ہوا عمران خان نے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے بجائے پسپائی اختیار کرلی، لوگوں کو پہلی بار احساس ہوا کہ کوئی ایسا بھی ہے جسے ان کی جانوں کی پرواہ ہے۔

نتیجہ یہ ہے کہ لوگ اب عمران خان کے لیے سردھڑ کی بازی لگانے پر بھی تیار ہیں جس کا ثبوت خان کی گرفتاری کی حالیہ کوششوں کی مزاحمت کی صورت میں سامنے آ چکا ہے۔ پاکستان کی سیاست میں عمران خان کی آمد اور اقتدار سے محرومی کے بعد جو سب سے بڑی اور حیرت انگیز تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں یا دنیا کی دیگر جمہوریتوں میں بھی ہمیشہ اتحاد برسر اقتدار قوتوں کو اقتدار سے الگ کرنے کے لیے وجود میں آیا کرتے ہیں۔

ایوب خان کے مارشل لاء سے لے کر پی پی پی اور ن لیگ کی سول حکومتوں تک کے خلاف اپوزیشن اتحاد بناتی رہی ہے لیکن یہ ہماری تاریخ کا واحد دور ہے جب حزب اختلاف کی ایک جماعت کے خلاف باقی سب جماعتیں اقتدار کے ایوانوں میں اتحاد بنائے بیٹھی ہیں اور جو سیاسی قوتیں اقتدار میں شامل نہیں وہ بھی پی ٹی آئی کو کوئی سیاسی قوت فراہم کرنے پر آمادہ نہیں۔

تبدیلی کے لیے زمین تیار ہے اور تبدیلی مخالف قوتیں ہمیشہ کی طرح بہت تاخیر سے اس تغیر سے آگاہ ہوئی ہیں۔ اب سارا زور اس بات پر صرف کیا جا رہا ہے کہ کسی طرح انتخابات ٹل جائیں۔ وجہ یہ ہے کہ الیکشن مخالف عناصر جس خطرے سے آگاہ ہیں، اُس حقیقت سے انتخابات کے لیے جدوجہد کرنے والے عوام کی اکثریت بھی شاید آگاہ نہ ہو۔

جو انتخابات اب پاکستان میں ہوں گے اُن کے نتیجے میں صرف ایک حکومت کی تبدیلی عمل میں نہیں آئے گی، بلکہ ان انتخابات کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی اداروں کے درمیان ایک بالکل نئی طرح کا تعلق وجود میں آئے گا، بالکل نئی حدود طے ہوں گی اور باہمی رویوں کی تشکیل نو ہو گی۔ اسی لیے ریاستی ادارے الیکشن کے حوالے سے اپنے آئینی تقاضوں سے نظریں چُرا رہے ہیں۔ اصل امتحان کا سامنا پاکستان کے لوگوں کو ہے کہ وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کتنی استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔