عمران خان کے حمایتی امریکی دراصل کون ہیں؟

تنویر قیصر شاہد  پير 20 مارچ 2023
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

خدا خدا کرکے جناب عمران خان 18مارچ کو اسلام آباد کی عدالت میں پیش تو ہو گئے، لیکن یہ پیشی بھی بے فائدہ رہی۔

خان صاحب اپنے جتھوں اور لشکریوں کے ساتھ عدالت تک آئے؛ چنانچہ بد امنی اور تصادم کے ماحول میں اُن پر فردِ جرم عائد ہونے کے بجائے موخر کر دی گئی۔ پیشی کے لیے عمران خان کی منشا اور مطالبے کے عین مطابق مقدمہ اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس منتقل کیا گیا۔

اِس پیشی سے قبل لاہور کے زمان پارک میں موجود عمران خان کی رہائش گاہ سے باہر پولیس اور عمران خان کے حامیوں اور حمایتیوں کے درمیان جو گھمسان کا تصادم ہُوا، اِس کی باز گشت ہر جانب سنائی دی گئی ہے ۔

بجا کہا گیا ہے کہ عمران خان سے عدالتی احکامات کی تعمیل میں حکومت کا جتنا زور لگا ہے اور جتنے اخراجات اُٹھے ہیں، پاکستان کی عدالتی و انتظامی تاریخ میں آج سے پہلے تک یہ باب رقم نہیں کیا جا سکا۔

جتنی تیزی اور سرعت سے عمران خان کو جتنے متنوع ریلیف فراہم کیے جا رہے ہیں، محترمہ مریم نواز شریف، اور اتحادی حکومت اِن پر تحفظات کا اظہار کرتی پائی جا رہی ہیں ۔ عمران خان پر فردِ جرم عائد ہونے کے بجائے موخر ہونے پر وفاقی حکومت نے بھی کہا ہے ’’کیا انصاف جتھوں سے ڈر گیا ہے؟‘‘

خدشات تھے کہ اسلام آبادکی عدالت میں پیشی کے دوران شاید عمران خان گرفتار کر لیے جائیں۔  ایسا تو نہ ہو سکا مگر اِن خدشات کی بنیاد پر بعض امریکی سیاستدانوں نے خان صاحب کی حمائت اور محبت میں ایسے بیانات داغ ڈالے جو براہِ راست پاکستانی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہیں ۔

مثال کے طور پر معروف امریکی سیاستدان ، زلمے خلیل زاد، نے کہا:’’ پاکستان کو سیاسی، اقتصادی اور سلامتی سطح پر جاری بحرانوں سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ عمران خان کی گرفتاری سے پاکستان میں جاری سیاسی بحران مزید سنگین ہو جائیں گے۔

پاکستان کی موجودہ صورتحال میں تجویز دیتا ہُوں کہ جون میں قومی سطح پر انتخابات کا اعلان کیا جائے تاکہ تباہی سے بچا جائے ۔‘‘ زلمے خلیل زاد کایہ مطالباتی بیان دراصل عمران خان کی اُمنگوں کا آئینہ دار بھی ہے اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں صریح مداخلت بھی ؛ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ پاکستان نے بجا طور پر اور فوراً اِس نامناسب بیان کو مسترد کیا ۔

ہمارے دفترِ خارجہ کی ترجمان، ممتاز زہرہ بلوچ، نے ترنت جواب میں کہا: ’’ پاکستان کو اپنے سیاسی و معاشی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے کسی سے لیکچر یا مشورہ لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔‘‘

زلمے خلیل زاد نسلاً افغان ہیں ، لیکن اب امریکی شہری۔ اُن کی اہلیہ(شیرل بینرڈ) ایک معروف یہودی و صہیونی خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک لکھاری و مقتدر خاتون ہیں ۔

زلمے صاحب سابق امریکی صدر، بش، کے معتمدِ خاص اور خصوصی ایلچی برائے افغان اُمور بھی رہے۔ صدربُش چونکہ امریکی خفیہ ادارے، سی آئی اے، میں بھی مرکزی کردار ادا کرتے رہے ہیں، اس ناتے سے زلمے خلیل زاد کی بھی سی آئی اے سے گہری شناسائی اور یاری رہی ہے۔ یہ یاری اُس وقت اپنے عروج کو پہنچ گئی جب امریکا نے افغانستان پر ظالمانہ و غاصبانہ حملہ و قبضہ کیا۔زلمے نے ہمیشہ عالمی سفارتی میدانوں میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مخالفت کی ۔

اُن کے ماضی میں دیے گئے متعدد بیانات پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے مترادف سمجھے اور جانے گئے ؛ چنانچہ زلمے کے تازہ بیان کے پس منظر میں وزیر اعظم ، جناب شہباز شریف، نے شکوہ کناں اسلوب میں درست یہ کہا:’’ جب عمران خان کے دَورِ وزارتِ عظمیٰ کے دوران ساری اپوزیشن کو دیوار میں چنوایا جارہا تھا، تب زلمے خلیل زاد کو ایسا بیان دینے کا خیال کیوں نہ آیا؟‘‘۔

حضرت مولانا فضل الرحمن نے تو یہاں تک دعویٰ کر ڈالا ہے کہ یہ بیان دینے سے قبل زلمے خلیل زاد نے پاکستان کے خفیہ دَورے کے دوران عمران خان سے خفیہ ملاقات بھی کی ۔ اگر کوئی ایسی واقعاتی بات نہ ہوتی تو مولانا فضل الرحمن ایسا بزرگ سیاستدان بے حقیقت بیان کیوں دیتا؟ ۔

امریکی کانگریس مین (Brad Sherman) نے بھی عمران خان کے حمائت میں بیان دیا ہے ۔ بیان دینے سے قبل بریڈ شرمین نے عمران خان سے فون پر بات چیت بھی کی اور امریکا میں مقیم ایک پاکستانی نژاد ڈیموکریٹ سیاستدان ، ڈاکٹر آصف محمود، سے مفصل ملاقات بھی کی۔

ڈاکٹر آصف محمود امریکی سیاسی جماعت میں نمایاں کردارادا کررہے ہیں اور ڈیموکریٹ پارٹی کے پلیٹ فارم سے کانگریس کے ایک انتخاب کے اُمیدوار بھی ۔ بریڈ شرمین نے کہا:’’ پاکستان میں شخصی آزادیوں پر قدغن کسی صورت نہیں ہونی چاہیے ۔ عمران خان کی تقریر پر پابندیوں اور سیاسی سرگرمیوں کو روکنے پر بھی مجھے تشویش ہے ۔‘‘ ساتھ اس نے عمران خان کے حق میں ایک ٹویٹ بھی کی ہے۔

عمران خان کے یہ حمایتی امریکی کانگریس مین،68سالہ بریڈ شرمین، خاصے متنازع خیال کیے جاتے ہیں۔ وہ امریکی ریاست، کیلی فورنیا ، سے کانگریس مین منتخب ہُوئے۔

جب راقم نے اُن کی سیاسی سرگرمیوں کا جائزہ لیا تو یہ واضح ہُوا کہ موصوف وہ امریکی سیاستدان ہیں جنھوں نے ہمیشہ ظالم و غاصب اسرائیل کی حمائت کی ہے اور مظلوم و مغضوب فلسطین کی مخالفت۔ یہ صاحب اُن امریکی سیاستدانوں کی صف میں کھڑے ہیں جو اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوںکی زمینوں پر قبضہ کرنے کی حمائت میں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں ۔

یہ صاحب مسجدِ اقصیٰ پر اسرائیلی صہیونیوں کے قبضے کے پروجیکٹ کا اسپانسر بھی ہے ۔ اِس شخص نے پاکستان میں مروج بعض مذہبی قوانین کے خاتمے کے لیے امریکی کانگریس میں مذموم مہمات بھی چلائیں ۔

بریڈ مین ایسا مقتدر امریکی سیاستدان جب پاکستان کے سیاسی معاملات میں بے جا مداخلت اور ایک خاص سیاستدان کی حمائت میں کھل کر بات کرتا ہے تو ہر پاکستانی کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں۔

اِسی اثنا میں ایک اور امریکی سیاستدان اور ڈیموکریٹ پارٹی کے کانگریس مین، ایرک سویل ویل(Eric Swalwell)نے 18مارچ 2023 کو اپنے ایک بیان میں کہا:’’ عمران خان اور اُن کے حامیوں پر تشدد ناقابلِ قبول ہے۔پاکستان میں تمام فریقین پر زور دیتا ہُوں کہ وہ مزید تشدد سے بچیں۔‘‘

واشنگٹن میں بروئے کار اورکیلی فورنیا سے کانگریس کے لیے منتخب ہونے والے 42سالہ امریکی سیاستدان، ایرک سویل ویل، اگر گزشتہ روز زمان پارک اور اسلام آباد میں موجود ہوتے اور عمران خان کے حامیوں اور حمایتیوں کی طرف سے پولیس پر ڈھائے جانے والے مبینہ تشدد اور اُن پر پھینکے جانے والے مبینہ پٹرول بموں کے نظارے دیکھتے تو شاید عمران خان کے حق میں ایسا محبتی بیان نہ دیتے۔ایرک سویل ویل ایک سابق پولیس افسرکے بیٹے ہیں۔

وہ اُن ممتاز امریکی سیاستدانوں میں شمار کیے جاتے ہیں جو امریکا اور اسرائیل میں صہیونیوں اور یہودیوں کی خوشنودی کی خاطر ہر حد پار کر جاتے ہیں ۔ اسرائیل اور اسرائیلی یہودیوں کی حمائت اور فلسطین کی مخالفت ہی میں اپنی سیاسی بقا اور کامیابی سمجھتے ہیں ۔اِس پس منظر میں مولانا فضل الرحمن نے بھی درست نہج میں اِن افراد و اشخاص اور ان کے اہداف کی درست نشاندہی کی ہے ۔

خاص بات یہ بھی ہے کہ مذکورہ مقتدر امریکی سیاستدانوں کے پاکستانی معاملات میں دخل اندازی کے یہ بیانات عین اُس وقت تسلسل سے سامنے آ ئے ہیں جب عالمی سطح پر پاکستان کے ایٹمی اثاثوں بارے امریکی مبینہ شرارتوں میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے ۔ وزیر اعظم شہباز شریف سمیت ہر ذمے دار پاکستانی اِن جلی و خفی شرارتوں اور شیطانیوں کی مذمت کررہا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔