امتحانی نظام کی نیلامی

ڈاکٹر توصیف احمد خان  جمعرات 30 مارچ 2023
tauceeph@gmail.com

[email protected]

جدید تعلیمی نظام میں امتحانات کی بہت اہمیت ہے۔ طالب علم پہلی کلاس سے پی ایچ ڈی تک کی تعلیم حاصل کرتا ہے۔ اس کی ذہنی صلاحیتوں کو جانچنے کے لیے امتحان لیا جاتا ہے۔

دنیا بھر میں طلبہ کی قابلیت کے لیے امتحانات کے مختلف طریقے رائج ہیں، جن میں سالانہ امتحانات اور سمسٹر سسٹم شامل ہیں۔

قیامِ پاکستان کے بعد یونیورسٹیاں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات لیا کرتی تھی۔ شریف تعلیمی کمیشن کی رپورٹ پر بورڈ قائم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ دنیا کے چند ممالک میں بھی سالانہ امتحان کا طریقہ کار ختم کردیا گیا ہے مگر پاکستان میں اب بھی میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کی سطحوں تک سالانہ امتحان لیا جاتا ہے۔

اب ملک میں قائم یونیورسٹیوں میں سمسٹر سسٹم پر عملدرآمد ہو رہا ہے۔ ہر نظام کی مختلف خوبیاں اور خامیاں ہیں مگر ہمارے ہاں اب بھی میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات سالانہ بنیادوں پر منعقد ہوتے ہیں۔ برطانیہ کے جدید کیمیرج سسٹم میں بھی O لیول اور A لیول کے امتحانات سالانہ بنیادوں پر ہوتے ہیں مگر ہمارے ملک کے سالانہ امتحانات اور کیمبرج سسٹم کے امتحانات میں ایک بہت بڑا فرق ہے۔

میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے طلبہ نصاب رٹ کر امتحان دیتے ہیں، یوں ہر مضمون کے مخصوص سوالات ہر سال پرچہ میں شامل ہوتے ہیں۔

اب سائنس کے مضامین میں معروضی سوالات بھی پوچھے جاتے ہیں مگر کیمبرج کے امتحانی طریقہ کار میں کوئی مخصوص ٹیکسٹ بک نہیں ہوتی، یوں طلبہ کسی باب کو رٹنے کے بجائے اس کو سیاق و سباق کے ساتھ ذہنی گرفت میں لے کر امتحان دیتے ہیں، یوں ان طلبہ میں تجزیہ کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور اسی سے تخلیقی عمل طلبہ کے ذہنوں کو جلا دیتا ہے۔

سالانہ امتحانات میں پرچہ کا آؤٹ ہونا اور امتحانی مرکز میں نقل ، امتحانی کمروں میں تبدیلی کے لیے رشوت اور سفارش ، امتحانی مرکز کو مخصوص اساتذہ کو نگرانی کا ٹھیکہ دینے کے اسکینڈل ہر سال ذرایع ابلاغ کی سرخیوں میں شامل ہوتے ہیں۔

صوبہ سندھ میں جب بھی امتحانات کا موسم آتا ہے تو پھر مختلف نوعیت کے ایجوکیشن مافیا کا ذکر ہونا لازمی ہوتا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے عام ہونے سے نقل کے لیے طریقے دستیاب ہوگئے ہیں۔

بعض دفعہ مخصوص مفادات کے حصول کے لیے متحد ہونے والی مافیا کے ارکان امتحان والے دن سے پہلے کسی وقت امتحانی پرچہ کا عکس سوشل میڈیا پر وائرل کردیتے ہیں، یوں ٹی وی چینلز کی ریٹنگ کی دوڑ میں خبروں کی معروضیت کو جانچنے اور خبروں کی ترجیحات کو طے کرنے والے صحافی بغیرکسی تصدیق کے پرچہ کے آؤٹ ہونے کی خبریں نشر کرتے ہیں۔ سارا سال محنت کرنے والے طلبہ مایوس ہوتے ہیں۔

امتحان مافیا کو مضبوط کرنے میں کوچنگ سینٹرز کا بھی اہم کردار واضح ہوتا ہے۔ اخبارات میں ایک وزیر کی صاحبزادی کی انٹرمیڈیٹ سائنس کے امتحان میں دوسری پوزیشن ملنے کا بھی ذکر ہو رہا ہے۔

حکومت سندھ نے چند سال قبل محکمہ تعلیم کے دائرہ کار سے تعلیمی بورڈز اور یونیورسٹیوں کو علیحدہ کر کے نگرانی کے لیے سندھ یونیورسٹیز اور بورڈ ڈپارٹمنٹ قائم کیا اور اب ایک رکن اسمبلی اس ڈپارٹمنٹ کے وزیر مقرر ہوئے مگر علیحدہ محکمہ قائم ہونے کے باوجود تعلیمی بورڈز کی کارکردگی بہتر نہ ہوسکی۔

لاڑکانہ بورڈ کے چیئرمین نے اپنے بورڈ کے برے حالات ، ملازمین کے ایک گروہ کی بورڈ کے چیئرمین پر بالادستی اور اپنی بے بسی کی داستان سوشل میڈیا پر وائرل کی۔ پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سندھ کے کسی تعلیمی بورڈ کے اہم عہدوں پر عارضی طور پر افسروں کو تعینات کیا جاتا ہے اور نئی آسامیاں مہینوں برسوں خالی پڑی رہتی ہیں۔

حکومت سندھ کے اربابِ اختیار نے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے، تعلیمی بورڈز میں بدعنوانیوں کے خاتمے اور ان کی ساکھ کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرنے کے بجائے بینکوں، کارخانوں اور دیگر نجی اداروں کی طرح امتحانی شعبہ Outsource کرنے کا فیصلہ کیا۔

حکومت سندھ کے اس فیصلہ کا عملی مطلب یہ ہے کہ کوئی نجی ادارہ امتحانات کے انعقاد کا کام سنبھال لے۔ حکومت سندھ اس ادارہ کو اس کے معاوضہ کے طور پر اربوں روپے ادا کرے اور حکومت امتحانی فیسوں میں اضافہ کر کے یہ رقم وصول کرے۔

امتحانی کام نجی شعبہ کو ٹھیکہ پر دینے کے مختلف نوعیت کے خدشات ظاہر ہوگئے۔ سندھ میں اساتذہ کی تنظیموں، سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن، آل اسکولز اینڈ کالجز سبجیکٹ اسپیشلسٹ ایسوسی ایشن اور پاکستان ٹیچرز آرگنائزیشن سندھ کے عہدیداروں نے حکومت کے فیصلہ کا گہرائی سے جائزہ لیا۔

ان تنظیموں کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ نجی شعبہ اتنا اہم فریضہ انجام دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ ان رہنماؤں کا مدعا ہے کہ ہر سال پورے صوبہ کے بورڈز کے مختلف عہدوں پر تعینات افسران جعلی مارکس شیٹ اور جعلی سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہیں اور ہر سطح پر بدعنوانیوں کا کلچر انتہائی گہرا ہوگیا ہے۔

ان عہدیداروں کا کہنا ہے کہ جب سے بورڈز کی نگرانی کا شعبہ سندھ کے گورنر سے صوبہ کے وزیر اعلیٰ کو منتقل ہوا ہے صورتحال زیادہ خراب ہوئی ہے۔ ان رہنماؤں نے گزشتہ سال صوبہ سندھ میں میٹرک کے نتائج کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال 80ہزار طلبہ نے میٹرک کا امتحان دیا تھا۔ گزشتہ سے پیوستہ سال 52 ہزار طلبہA-1 گریڈ میں پاس ہوئے تھے مگر گزشتہ سال اس تعداد میں اضافہ ہوا اور تعداد 65 ہزار تک پہنچ گئی۔

اسی طرح گزشتہ سال 20 ہزار طلبہ امتحان میں ناکام ہوئے تھے مگر پورے سندھ میں ضمنی امتحانات میں 3ہزار طلبہ شریک ہوئے، یوں ان رہنماؤں کا یہ مفروضہ ہے کہ باقی 17 ہزار طلبہ کو امتحان میں شرکت کے بغیر جعلی مارکس شیٹ اور جعلی سرٹیفکیٹ دے دیے گئے۔

اس فیصلہ پر عملدرآمد کے لیے اہم سوال یہ ہے کہ کیا کوئی نجی ادارہ پورے سندھ میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے طلبہ کے امتحانات لینے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ ایک صحافی نے تو یہ تک کہا کہ صرف کراچی میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے طلبہ کا امتحان لینا کسی نجی ادارہ کے لیے آسانی سے ممکن نہیں ہے۔

حکومت سندھ اس بات پر خاموش ہے کہ سندھ کے 7 تعلیمی بورڈز کے کئی ہزار ملازمین کو ملازمتوں سے فارغ کیا جائے گا۔ حکومت کو ان مستقل ملازمین کی پنشن اور دیگر واجبات کی ادائیگی کے لیے اربوں روپوں کی ضرورت ہوگی۔ پوری دنیا میں اب تدریس اور امتحانات کے لیے جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے۔

میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں پورے سندھ سے لاکھوں طالب علم شریک ہوتے ہیں۔ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کے نتائج سے طلبہ کے مستقبل کا تعین ہوتا ہے۔

یہ امتحانات اسکولوں اورکالجوں میں ہوتے ہیں۔ امتحانات میں نقل کی روک تھام اور بیرونی مداخلت کو روکنے کے لیے مختلف انتظامی افسران اور پولیس کی مدد ضروری ہوتی ہے، یوں حکومتی اداروں کی مدد کے بغیر کوئی نجی ادارہ امتحانات منعقد نہیں کراسکتا۔ کئی سینئر اساتذہ کا کہنا ہے کہ اسمارٹ کلاس رومز میں سمسٹر سسٹم کی بنیاد پر امتحانات کا انعقاد کیا جائے تو تعلیمی معیار بہتر ہوسکتا ہے اور یہ شکایت دور ہوسکتی ہے کہ امتحانی نتائج دیر سے آتے ہیں۔

خاص طور پر نویں اور گیارہویں جماعت کے امتحانات کے نتائج کے التواء سے تعلیم کا خاصا حرج ہوتا ہے۔ حکومت کو اتنا اہم فیصلہ کرنے سے پہلے اسٹیک ہولڈرز اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین کی خصوصی کانفرنس منعقد کرنی چاہیے ، امتحانی نظام کی نیلامی مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ اس کانفرنس میں امتحانات کے طریقہ کار کو شفاف بنانے اور فوری نتائج کے لیے تجاویز مرتب کرنی چاہئیں۔ ان تجاویز کو صوبائی اسمبلی میں پیش کرنا چاہیے۔

اسمبلی کی تعلیم کی کمیٹی کو اپنے اجلاس میں طلبہ ، والدین، اساتذہ اور ماہرین کو مدعو کرنا چاہیے۔ کمیٹی کی رپورٹ اسمبلی کے سامنے پیش کرنی چاہیے۔ اراکینِ اسمبلی کو کچھ وقت اس اہم مسئلہ کے لیے ضرور وقف کرنا چاہیے۔ سندھ تعلیم کے میدان میں پنجاب اور خیبر پختون خوا سے پیچھے ہے یہ نا ہوکہ مزید پیچھے رہ جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔