- پاکستان میں مذہبی سیاحت کے وسیع امکانات موجود ہیں، آصف زرداری
- دنیا کی کوئی بھی طاقت پاک ایران تاریخی تعلقات کو متاثر نہیں کرسکتی، ایرانی صدر
- خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نمائندوں کا اختیارات نہ ملنے پراحتجاج کا اعلان
- پشین؛ سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں3 دہشت گرد ہلاک، ایک زخمی حالت میں گرفتار
- لاپتہ کرنے والوں کا تعین بہت مشکل ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان
- سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی کو سزا سنانے والے جج کے تبادلے کی سفارش
- فافن کی ضمنی انتخابات پر رپورٹ،‘ووٹوں کی گنتی بڑی حد تک مناسب طریقہ کار پر تھی’
- بلوچستان کے علاقے نانی مندر میں نایاب فارسی تیندوا دیکھا گیا
- اسلام آباد ہائیکورٹ کا عدالتی امور میں مداخلت پر ادارہ جاتی ردعمل دینے کا فیصلہ
- عوام کو ٹیکسز دینے پڑیں گے، اب اس کے بغیر گزارہ نہیں، وفاقی وزیرخزانہ
- امریکا نے ایران کیساتھ تجارتی معاہدے کرنے والوں کو خبردار کردیا
- قومی اسمبلی میں دوران اجلاس بجلی کا بریک ڈاؤن، ایوان تاریکی میں ڈوب گیا
- سوئی سدرن کے ہزاروں ملازمین کو ریگولرائز کرنے سے متعلق درخواستیں مسترد
- بہیمانہ قتل؛ بی جے پی رہنما کے بیٹے نے والدین اور بھائی کی سپاری دی تھی
- دوست کو گاڑی سے باندھ کر گاڑی چلانے کی ویڈیو وائرل، صارفین کی تنقید
- سائنس دانوں کا پانچ کروڑ سورج سے زیادہ طاقتور دھماکوں کا مشاہدہ
- چھوٹے بچوں کے ناخن باقاعدگی سے نہ کاٹنے کے نقصانات
- ایرانی صدر کا دورہ کراچی، کل صبح 8 بجے تک موبائل سروس معطل رہے گی
- ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری
- مثبت معاشی اشاریوں کے باوجود اسٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان
جانورغائب گوشت حاضر، میمتھ کے ڈی این اے سے گوشت کا گولہ تیار
ایمسٹر ڈیم، ہالینڈ: ایک عرصے قبل ناپید ہونے والے ہاتھی ’میمتھ‘ کے ڈی این اے کی جینیاتی تدوین کے بعد اس سے گوشت کا ایک بڑا کوفتے نما گولہ بنا لیا گیا ہے۔
آسٹریلوی کمپنی نے ایک نوجوان میمتھ کے ڈی این اے سے جو گوشت اخذ کیا ہے، فی الحال وہ ناقابل تناول ہے تاہم اس سے ایک نئی عوامی بحث چھڑ چکی ہے کہ آیا گوشت تجربہ گاہ میں بنایا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اسٹارٹ اپ کمپنی ’واؤ‘ کے سربراہ نے بتایا کہ یہ اپریل فول کا لطیفہ نہیں بلکہ حقیقی اختراع ہے جس کی تقریبِ رونمائی ایمسٹرڈیم کے ایک میوزیئم میں کی گئی ہے۔
کمپنی کے بانی ٹِم نواک اسمتھ کے مطابق اسے ’خلیات سے اخذ کردہ گوشت‘ کہا جاسکتا ہے کیونکہ اسے تجربہ گاہ میں کلچر کیا گیا ہے۔ اس کے لیے کسی جانور کو مارا نہیں گیا ہے کیونکہ یہ عمل ماحول اور خود جانور کے لیے بہت مفید ہوسکتا ہے۔
میمتھ کی جینیاتی معلومات حاصل کرکے باقی معلومات کو اس کے قریبی جانور سے لیا گیا جو افریقی ہاتھی ہے۔ پھر اس ڈی این اے کو بھیڑ کے خلئے میں شامل کیا گیا۔ تجربہ گاہ میں مناسب ماحول کے بعد خلیات (سیلز)بڑھنے لگے اور بڑھتے بڑھتے گوشت کا ٹکڑا بن گئے۔
تاہم اب بھی یہ کمرشل گوشت کا مرحلہ بہت دور ہے کیونکہ یہ عمل اس وقت بھی بہت مہنگا ہے۔ فی الحال سنگاپور دنیا کا واحد ملک ہے جس نے خلیات سے گوشت بنانے اور بیچنے کی اجازت دیدی ہے۔
کمپنی نے اسے گوشت کا ماحول دوست مستقبل قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق اس کے لیے بڑے بڑے فارم اور بے تحاشہ جانوروں کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ جانوروں کے خلیات سے ہی گوشت بنایا جاسکے گا۔ اس سےقبل ماہرین خلیات سے تیار گوشت کا کباب بنا کر پیش کرچکے ہیں۔
چونکہ میمتھ کی لاشیں برف میں منجمند ملی ہیں تو اسی وجہ سے ان میں خون اور ڈی این اے کے نمونے بہتر حالت میں ہوتے ہیں اور انہی سے ڈی این اے نکالا جاتا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔